قوم کی بیٹی

ہفتہ 22 جولائی 2017

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

ڈسکہ میں پیش آنے والے انسانیت سوز واقعہ کی ویڈیو آپ نے بھی دیکھ لی ہو گی۔ نہیں دیکھی تو دیکھئے اور پھر سوچئے کہ ہم کتنے مسلمان ہیں۔ ویڈیو میں یہ تو واضح نہیں کہ ان خواتین نے کپڑا چوری کیا یا نہیں‘ لیکن یہ بالکل واضح ہے کہ ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا گیا۔ خواتین شریف النفس محسوس ہو رہی ہیں۔ ایک باریش ستر اسی سال کے بزرگ نے تو بے شرمی اور بے غیرتی کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے نرغے میں آئی ہوئی تین خواتین میں سے سب سے چھوٹی کو بالوں سے پکڑ کر لٹا دیا تاکہ اس کا چہرہ ان پانچ چھ بے غیرتوں کے موبائل فونوں کے سامنے آ سکے‘ جو اس وقت انسان ہونے کا ثبوت دینے کے بجائے اس واقعہ کو شغل میلہ سمجھتے ہوئے اپنے موبائل فونوں سے ان خواتین کی ویڈیو بنا رہے تھے۔

اس امر کے کوئی ثبوت کسی کے پاس نہیں کہ ان خواتین نے واقعی چوری کی ۔

(جاری ہے)

بالفرض اگرا یسا ہوا بھی تو مبینہ طور پر چوری کئے گئے کپڑے کتنے کے تھے۔ کیا ان کی قیمت ان خواتین کی عزت سے زیادہ تھی؟ یہ منظر دیکھ کر تو پتھر دل بھی پگھل گئے ہوں گے۔ چلیں دوسرے تو اس صورتحال کے تماشائی بنے ہی ہوئے تھے‘ ان باریش بزرگوں کو نوجوان لڑکی‘ جو اپنے وضع قطع سے کنواری لگتی تھی‘ کو ہاتھ لگاتے ہوئے اور اسے سر کر بالوں سے پکڑ کر لٹاتے ہوئے اپنی کسی بیٹی یا پوتی کا خیال بھی نہیں آیا۔

انہوں نیایک لمحے کے لئے بھی نہیں سوچاکہ اگر ان کی بیٹی یا پوتی ایسی کسی صورتحال کا شکار ہو جائیں اور ان کے ساتھ کوئی نامحرم ایسا سلوک کرے‘ جو انہوں نے اس نوجوان لڑکی کے ساتھ کیا‘ تو کیا یہ ان کو گوارا ہو گا؟ یہ بات اب مان لینی چاہئے کہ ہماری غیرت اور عزت بس اپنے گھروں تک محدود ہے اور دوسروں کی بہو بیٹویں کے بارے میں غلط سوچتے ہوئے اور غلط کام کرتے ہوئے ہمیں ایک لمحے کے لئے بھی غیرت نہیں آئے گی۔

ڈسکہ کے اس بزرگ نما شیطان کی طرح۔ بالفرض ان خواتین نے اگر چوری کی بھی تھی تو ان کو حوالہ پولیس کیا جانا چاہئے تھا اور پولیس بھی زنانہ ‘ اس طرح ان کی تذلیل کرنے کا کسی کو کوئی اختیار نہیں تھا۔ جس نے بھی یہ کیا اس نے اللہ کے غضب کو آواز دی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ خواتین کے ساتھ اس طرح کے واقعات اکثر پیش آنے لگے ہیں ۔

پہلے غیرت کے نام پر کاری کر دیا جاتا تھا اور آج کے دور میں ان کی سرعام تذلیل کی جاتی ہے۔ کبھی اس کی عزت سے کھیلا جاتا ہے تو کبھی اسے قتل کر دیا جاتا ہے۔ مختار مائی کیس ابھی لوگوں کے ذہنوں سے محو نہیں ہوا ہو گا۔ ایک پولیس والے کی جانب سے تھانے میں آئی ہوئی خاتوں کے ساتھ بدسلوکی بھی لوگوں کو یاد ہو گی اور اب ڈسکہ میں بھیڑیوں نے خواتین کی تذلیل کے نئے ریکارڈ قائم کر دئیے۔


میرے خیال میں ایسے واقعات بار بار پیش آنے کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے بنائے گئے قوانین پر صحیح طریقے سے عمل درآمد نہ ہونا۔خواتین کی تذلیل یا ان کے قتل کے کسی ایک واقعہ پر سنجیدگی سے نوٹس لینے کے بعد ملزموں کو سزا دی گئی ہوتی تو دعوے سے کہا جا سکتا ہے کہ ایسے واقعات رونما نہ ہوتے جیسا شرمناک واقعہ گزشتہ روزڈسکہ میں پیش آیا۔

ہمارے ملک میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے ہر سال نئے نئے قوانین بنتے ہیں۔ جیسے کچھ عرصہ پہلے یہ قانون بنا کہ بیوی کے ساتھ ظلم کرنے والے شوہر کو الیکٹرک کڑا پہنا دیا جائے گا تاکہ وہ اپنی بیوی کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ اس پر بجا طور پر یہ شور اٹھا کہ اگر کوئی بیوی اپنے شوہر کو بذریعہ پولیس کڑا پہنا دے گی تو شوہر کے آزاد ہونے کے بعد ان کی شادی برقرار رہ سکے گی؟ بہرحال جیسا کہ ہمارے ہاں معمول ‘ کچھ عرصہ اس پر شوروغوغا ہوتا رہا اور پھر خاموشی چھا گئی۔

اگر خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے بنائے گئے قوانین پر ٹھیک طریقے سے عمل درآمد ہو تو نئے قوانین بنائے بغیر بھی ان کو تحفظ دیا جا سکتا ہے۔
ابھی جب مجھے ڈسکہ میں پیش آئندہ اس شرمناک واقعہ کی خبر ملی تو میں نے چیک کرنے بلکہ عین الیقین کے لئے یو ٹیوب کھولی۔ واقعہ کی اصل ویڈیو شروع ہونے سے پہلے نیشنل کمیشن آف دی سٹیٹس آف وویمن پاکستان کا ایک اشتہار نظروں سے گزرا‘ جس میں ایک لڑکی کو دکھایا گیا کہ وہ کسی بس سٹاپ پر کھڑی ہے۔

ایک لڑکا بائیک پر وہاں آتا ہے اور اسے تنگ کرتا ہے ۔ اس پر وہ لڑکی نہایت بہادری سے اس لڑکے سے کہتی ہے : اگر تم اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو میں تمہیں دفعہ 509کے تحت گرفتار کرا دوں گی۔اس پر وہ لڑکا اپنی بائیک پر سوار ہو کر وہاں سے چلا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دفعہ 509ڈسکہ میں رونما ہونے والے اس واقعہ کے بارے میں کیا کہتی ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ پاکستان میں لوگوں کو ان کی دہلیز پر عدل اور انصاف فراہم کرنے کے لئے کوشاں اعلیٰ ترین عدالت اس واقعے کا سوؤ موتو ایکشن نہیں لے گی؟ نامحرم نوجوان لڑکی کے ساتھ دست درازی کرنے والے باریش کو اس کے کئے کی سزا نہیں دے گی؟
قوم کی بیٹی کے ساتھ جو بہیمانہ سلوک کیا گیا‘ مجھے تو ڈر ہے کہ وہ خود کشی ہی نہ کر بیٹھے۔

وہ اگر خود کشی نہیں کرتی اور اللہ کرے کہ وہ ایسا نہ کرے‘ تو بھی اس واقعہ کے بعدایک زندہ لاش ہی بن چکی ہو گی۔مجھے تو اس بات کا خوف بھی ہے کہ اس لڑکی کی آہ پورے ملک پر عذاب بن کر نازل نہ ہو جائے۔ ایسی کوئی صورتحال پیدا ہونے سے پہلے قانون اور حکمران حرکت میں آ جائیں تو ہی بہتر ہے۔ میری نظر میں مستقبل میں ایسے واقعات کے سدباب کے لئے نئے قانون ضرور بنائے جائیں‘ لیکن اس سے پہلے موجودہ قوانین پر عمل درآمد ہونا چاہئے۔ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا مذہب ہمیں خواتین کا احترام سکھاتا ہے‘ ان کے حقوق غصب کرنے کا درس نہیں دیتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :