غیرجانبداریت کا سبق

بدھ 26 جولائی 2017

Afzal Sayal

افضل سیال

شعبہ صحافت سے 2006میں وابستہ ہوا اس کے بعد میرا اوڑھنا بچھوڑنا حلال رزق کا حصول اب صحافت سے وابستہ ہے ،صحافت سے میرا لگاو جنون کی حد تک ہے ، صحافت میں قدم رکھا تو اساتذہ نے پہلا سبق غیرجانبداریت کا دیا،صحافی کی کوئی ذاتی پسند نا پسند یا سیاسی وابستگی نہیں ہوتی،تجزیہ کرتے وقت قلم کو بے رحم معالج کے نشتر کی طرح چلایں،اس اصول پر خوب رٹا لگایا اور دلجمعی کے ساتھ کیمرے اور قلم کے ساتھ جہاد کرنے کا ارادہ کیا، لیکن جب میڈیا انڈسٹری کو نزدیک سے دیکھا تو زمینی حقائق غیر جانبداریت کے بلکل برعکس تھے ،اپنے 11سالہ صحافتی تجربے کی بنیاد پر میں اپنے قارئین کواورغیرجانبداریت کا سبق دینے والوں کوچند حقائق بتاتا ہوں
کتابوں میں جوغیر جانبداریت کا رٹا لگوایا جاتا ہے،حقیقت سےاسکا دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں ،میں یہاں پر بہت سی کتابوں اور صحافت کے بڑے بڑے ناموں کا دلیل کے طور پر ذکر کر سکتا ہوں جو غیرجانبداریت کے وجود کوبھی نہیں مانتے ، لیکن میں آج کوشش کروں گا اپنی آپ بیتی کی بنیاد پراس غیرجانبداریت کا پوسٹمارٹم کروں،غیر جانبداریت کا گھسا پٹا سا راویتی قول کے صحافی کو غیر جانبدار ہونا چاہیے، سفید جھوٹ ہے خدا جانے کس کم عقل کافر نے یہ لفظ متعارف کروایا اور ہمارے گلے پڑگیا،،حقیقت اس کے برعکس ہے،،اگرآپ ظلم ہوتا دیکھ کر ظالم کے خلاف قلم نہیں اٹھاہیں گے تو دراصل آپ ظالم کا ساتھ دے رہے ہیں،ایک ہاتھی ہرن کی دم پر پاوں رکھ دے اور آپ غیر جانبداریت کا گیت سنایں گے تو ہرن آپ کی غیرجانبداریت کو نہیں سراہے گا،ایک سچ ہوتا ہے اور ایک جھوٹ،،اس زمین آسمان کے فرق میں آپ کیسے غیر جانبدار ہوسکتے ہیں ، کوئی انسان جو زندہ ہو اور اسکی دماغ چل رہا ہو ںیوٹرل نہیں ہو سکتا ، نوبل ایوارڈیافتہ افریقی بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹونے لکھا ، جہنم کی نچلی سطح ان لوگوں کے لیے مخصوص ہے جو اخلاقی کشمکش کے دوران غیرجانبدار رہتے ہیں ،میری 11سال سے یہ روٹین رہی ہے کے صبح آفس پہنچتے ہی اخبارکی فائل میری منتظر ہوتی ہے جس میں تمام ملکی بڑے اخبار پڑھنا میرے لیے آکسجین کاکام کرتے ہیں،جانبداریت کی اصلاح کرنا اب کوئی مشکل کام نہیں رہا، آپ ایک دن تمام اخبار اور ٹی وی پر نیوز بلٹین سن لیں تو غیرجانبداریت کا جنازہ نکلتا نظر آئے گا ،فزکس کے مطابق جس چیزپر کومثبت یا منفی چارج نہ ہونیوٹرل کہلاتی ہے ، ،،،غیرجانبداریت دراصل پرلے درجے کی منافقت اور بزدلی کا نام ہے ،،، سچ تو یہ ہے کے صحافی معتدل تو ہوسکتا ہے مگر غیر جانبدار نہیں ، جانبداری میں کوئی قباحت بھی نہیں اگر صحافی انصاف کے تابع ہوکرلکھے، صحافت میں آپ بیک وقت ہیرو بھی ہوتے ہیں اور زیرو بھی ، خبر ہمیشہ کسی کے حق میں ہوتی ہے اور کسی کے خلاف ،،
پاکستان کے تمام میڈیا ہاوسسز مخصوص سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہیں،خبر نشریا پرنٹ ہونے سے قبل بہت سے عوامل اس میں شامل ہوچکے ہوتے ہیں ،پہلا اور سب سے بڑاعامل میڈیا ہاوس کا مالک ہوتا ہے وہ چینل یا اخبار کی پالیسی بناتا ہےاور ایجنڈا سیٹ کرتا ہے جس سے اسکا کاروبار بڑھے ،لہذا وہ ہر خبر میں اپنے مفاد کو مدنظر رکھتا ہے ،کوئی بھی صحافی مالک کی پالیسی سے ہٹ کر کوئی بھی نیوز نہیں دے سکتا،دوسرا بڑا عامل اشتہارات کا ہے ، کوئی نیوز چینل یا اخبار اشتہارات کے بغیر چلانا ناممکن ہے، لہذا جو اشتہارات کی مد میں میڈیا ہاوس کو فنڈز دے رہا ہوتا ہے کوئی بھی جرنلسٹ اس اشتہاری پارٹی کے خلاف خبر نہیں دے سکتا،بلکہ میڈیا ہاوس اس کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے نیوزکو کانٹ چھانٹ کردکھاتا ہے ، ہر پرنٹ یا نشر ہونے والی خبر کے پیچھے کوئی نا کوئی ایجنڈا اور مفاد ضرور ہوتا ہے ۔

(جاری ہے)

بہت سی ایسی نیوز ہوتی ہیں جو صحافی دیتا ہے لیکن چینل ،اخبارپالیسی کی وجہ سے اسکو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتا ہے ،، اب مجھے بتائیے جو صحافی ایک ایسے ادارے اوربزنس مین مالک کا ملازم ہو،وہ کیسے غیر جانبدار ہوسکتا ہے،میڈیا ہاوسسز میں بیٹھے چھوٹے چھوٹے گارڈ فادرزاپنے مفادات کی صحافت کرتے ہیں،بدقسمتی سے پاکستان سمیت پوری دنیا میں ذرائع ابلاغ ایک مکمل کاروبار کی صورت اختیار کر چکا،،نہ کے شعبہ پیامبری ،،اس صور حال میں آپ کیسے بیچارے دو ٹکے کے صحافی سےغیر جانبداری کا تقاضا کرسکتے ہیں،،لیکن ہمارے ڈائریکٹر نیوز ، ایڈیٹرز،کنٹرولرنیوز،بیورو چیف اور صحافی پھر بھی اپنے تئیں اس بات کی کوشش کرتے ہیں کے نیوزبلٹن،اور خبر کو بیلنس کیا جائے،اور ہر ایک کا موقف کسی نا کسی طرح عوام تک پہنچایا جائے ،، غیر جانبداریت کا سبق من گھڑت اور حقائق کے منافی ہے ،صحافی سے غیر جانبداریت کا تقاضا کرنا کھسرے سے بیٹا پیدا کرنےکے مترادف ہے ،،،امید کرتا ہوں مجھے مسلسل غیر جانبداری کا سبق دینے والوں کویہ زمینی حقائق پڑھ کر افاقہ ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :