شاہین و اینٹی رائٹس فورس:ایک عظیم شاہکار

بدھ 26 جولائی 2017

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

بلاشبہ پچھلے چند سالوں میں لاہور پولیس میں جو مثبت تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں وہ قابل تعریف بھی ہیں اور قابل تحسین بھی ۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ مجھ جیسے کئی صحافی جو سابقہ ادوار میں پولیس کے بڑے افسروں کے بڑے دعووں جو حقیقت سے خالی ہوتے تھے ،کو دیکھتے ہوئے ، دور حاضر کے افسران کے تبدیلی کے نعرے کو بھی ”ایزی“ لے رہے تھے ۔

لیکن کئی سالوں سے مسلسل جاری منصوبوں اور عوام کو آسانی فراہم کرنے والے پروجیکٹس کو کامیابی سے چلتے ہوئے دیکھ کر ہم بھی لاہور پولیس کے سر براہ کیپٹن امین وینس اور ڈاکٹر حیدر اشرف کے گر ویدہ ہو گئے ہیں۔ عوام اور پولیس کے درمیان بڑھتی ہوئی دوری کو کم کرنے اور پولیس کو جدید دور کی جدیدٹیکنالوجی سے مزین کرنے کے لئے ،روز ہی ایک نیا منصوبہ تشکیل پاتا ہے جسے انتہائی ایمانداری اور خلوص نیت کے ساتھ مکمل بھی کر لیا جا تا ہے جس میں بالخصوص تھانوں میں فرنٹ ڈیسک کا قیام، پیرو فورس، ڈولفن سکواڈسمیت عوام کو پولیس افسران تک با ٓسانی رسائی کے لئے مختلف سا فٹ وئیر کی تیاری ہے۔

(جاری ہے)


اسی طرح لاہورکی بے ہنگم ٹریفک کو قابو کرنے اور عوام میں ٹریفک شعور کو اجاگر کرنے کے لئے چیف ٹریفک افسر ، رائے اعجاز کی کاوشیں بھی لائق تحسین ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ طلسماتی شخصیت کے مالک ہیں اور اپنی انہی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ٹریفک کے روز بروز بد تر ہوتے معاملات میں بہتری لانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شہر کی ٹریفک میں بہتری لانے کے لیے رائے اعجاز کی سفارش پر حکومت نے چار ترک افسران کو تین ماہ کے لیے لاہور میں بلوایا ہے جو ٹریفک پولیس کی ورکنگ اور شہر میں ٹریفک کی صورتحال میں بہتری لانے کے لیے اپنی سفارشات حکومت کو دیں گے۔

سی ٹی او کا کہنا ہے کہ ترک ماہرین نے ٹریفک پولیس کی گاڑیوں کی حالت زار دیکھ کر ترکی میں کام کرنے والی شاہین فورس کے ماڈل کو لاہور ٹریفک پولیس میں لانے کی تجویز دی جسے منظور کر لیا گیا ہے جبکہ شاہین فورس میں ایس پیز اور نفری کی سیٹیں بھی منظور کروائی جائیں گی۔ شہر میں اس سے پہلے ڈولفن سکواڈ بھی ترک پولیس کا ایک نمونہ ہے اسی طرح اب شاہین فورس بھی ترکی میں کامیابی کے بعد لاہور ٹریفک پولیس میں شامل کی جارہی ہے جس سے قوی امید کی جاسکتی ہے کہ لاہور کی بے ہنگم ٹریفک کو بہتر کیا جا سکے گا۔


قارئین کرام !شہر میں ٹریفک جام کی سب سے بڑی وجہ آئے روز کے احتجاجی مظاہرے ہیں ۔ چار لوگ بالکل فضول سے مطالبات کے لئے جمع ہوتے ہیں اور شہر کی کوئی بھی اہم شاہراہ پر قبضہ کر لیتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے جہاں عوام ذلالت و خواری کا سامنا کرتی ہے وہاں معمولات زندگی بھی مفلوج ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ ایسے ہی حالات سے نبٹنے کے لئے1200سے زائد اہلکاروں پر مشتمل انسداد ہنگامہ آرائی فورس کو مظاہرین اور ہنگامہ آرائی کرنے والوں سے نمٹنے کے لیے ترکی سے تربیت یافتہ ماسٹر ٹرینرز نے گُر سکھائے ہیں۔

درویش صفت پولیس افسر اوراینٹی رائٹس فورس کے انچارج ایس پی محمد نوید کے مطابق انسداد ہنگامہ آرائی فورس کو فراہم کردہ یونیفارم موسم کی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے جب کہ اہلکاروں کی تربیت اس انداز میں کی گئی ہے کہ اگر پتھراؤ یا لاٹھیوں سے حملہ ہو تو یہ اپنے بچاؤ کے ساتھ ساتھ مظاہرین کا با آسانی مقابلہ کرسکتے ہیں۔

ہنگامی حالات کے پیش نظر انسداد ہنگامہ آرائی فورس مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے ساتھ ساتھ مومی چھروں کا استعمال بھی کرے گی جب کہ حالات قابو میں نہ آنے کی صورت میں ہیوی پریشر والی واٹرکینن بھی استعمال کی جائے گی، اینٹی رائٹس فورس قلعہ گجر سنگھ پولیس لائنز میں ہر وقت الرٹ رہے گی اور دنگا فساد کی اطلاع ملتے ہی جائے وقوعہ پر پہنچ کر کارروائی کرے گی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں خواتین اہلکاروں کو بھی مکمل طور پر ٹریننگ دی گئی ہے اور ان کی دوران ٹریننگ ویڈیوز کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری بہنیں بھی ملکی دفاع کی خاطر کسی سے کم نہیں ہیں۔
قارئین کرام !مجھے بڑے افسوس کے ساتھ یہ بات لکھنی پڑ رہی ہے کہ میرے ملک میں کرپشن کا بازار اس قدر گرم ہے کہ حکمرانوں سمیت کسی بھی پارٹی رہنما یا ادارے پر نظر دوڑائی جائے سب کرپشن کے حمام میں ننگے نظر آتے ہیں ۔

ظلم تو یہ ہے کہ عوام کے ٹیکسوں سے جمع ہونے والی رقم کا کچھ بھی حصہ عوام کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال نہیں ہوتا۔ لیکن قابل فخر ہیں لا ہور پولیس کے ایماندار اور قابل افسران جو زندہ دلان شہر کے باسیوں میں آسانیاں تقسیم کر نے کی خاطر روز ہی نت نئے پروجیکٹ کو شروع کرتے ہیں بلکہ اس کی کامیابی تک مصروف عمل رہتے ہیں ۔ تھانوں میں فرنٹ ڈیسک، پیرو و ولفن فورس سمیت شاہین و اینٹی رائٹس فورس جیسے عظیم شاہکار بھی، جس کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :