ریل بانوں کی جدوجہد،اسباق اور لائحہ عمل

جمعرات 27 جولائی 2017

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

ریل کی پٹری کا ارتعاش تھم چکا تھا،تمام ٹرینیں روک دی گئیں۔برس ہابرس کے ڈر کو ایک جھٹکے سے دور پھینک دیا گیا تھا۔یہ ریلوے ڈرائیورز ایسوسی ایشن کی ملک گیر ہڑتا ل تھی۔ایک ایسی ہڑتال کی جھلک ‘جس کے بارے میں حکمران طبقے نے سوچنا بھی چھوڑدیا تھا،وقوع پذیر ہوچکی تھی۔کئی دھائیوں کاٹھہراؤ ،گھٹن اور ریل بانوں کی جمود زدہ تحریک میں ارتعاش نہیں بلکہ ایک زوردار دھماکہ ہواتھا۔

الگ تھلگ
دنیا ؤں میں گُم ،ایک دوسرے سے لاتعلق اورناراض،شعور پر شکست خوردگی کو حاوی کئے ، روائتی یونیز اور راہنماؤں نے 22جولائی2017ء کی رات راول پنڈی ، روہڑی سیکشنوں میں ریل وے ڈرائیورز ایسوسی ایشن کی طرف سے پہیہ جام ہڑتال کی خبر بھی باقی دنیا کی طرح ٹیلی ویژن پر ہی سنی تھی۔

(جاری ہے)

ڈرائیورز کی ہڑتال کے باعث اپ اور ڈاؤن ٹریک پر چلنے والی متعدد ٹرینیں مختلف ریلوے اسٹیشنز پر کھڑی ہوگئی تھیں، جن میں کراچی سے لاہور اور لاہور سے کراچی جانے والی ٹرینیں بھی شامل تھیں۔

سکھر، خیرپور اور گھوٹکی میں بھی ٹرینوں کا پہیہ جام کردیا گیا، فرید ایکسپریس علامہ اقبال ایکسپریس اور پاکستان ایکسپریس سکھر ڈویژن کی حدود میں کھڑی ہو گئیں ۔ڈرائیورز ویلفیئر ایسوسی ایشن کا کہنا تھا کہ خستہ حال ریلوے کے نظام کو رواں رکھنے کے لئے ہم محنت کش دن رات گوشاں ہیں، لیکن پھر بھی ہماری محنت کے مطابق ہمیں اجرتوں کی ادائیگی نہیں کی جا رہی۔

ریلوے کی کمیشن خور بیو روکریسی اور حکو متی عہدیداروں نے مل کرکمیشن اورلوٹ مار کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ اس خستہ حال نظام کے باعث حادثات معمول بن چکے ہیں لیکن انتظامیہ کی جانب سے نظام کو بہتر بنانے کی بجائے حادثات کی صورت میں سارا ملبہ ڈرائیورز پر ڈال دیا جاتا ہے۔ جو کہ سراسر بدیانتی اور ناانصافی ہے۔ ملک بھر سے 278 ٹرین ڈرائیورز نے احتجاجاً اجتماعی چھٹی کی درخواستیں دے دیں اور مطالبات کی منظوری تک ہڑتال جاری رکھنے کا اعلان کیا۔

بغیر کسی تیاری اور تن تنہا’آتش نمبرود‘ میں کود پڑنے جیسی ہمت کرنے والے نوجوان ڈرائیورز نے چند گھنٹوں کیلئے ریاست کو لرزا کررکھ دیا تھا۔ہڑتال کے تین بنیادی نکات تھے،1۔ریلوے انتظامیہ کی طرف سے ٹرینوں کے حادثات کا ذمہ دار ڈرائیورز کو قراردینا غیر حقیقی موقف ہے،اس الزام کے تحت برطرف کئے گئے ڈرائیورز کو بحال کیا جائے۔2۔

ڈرائیورز کے پے اسکیل ریوائیز کئے جائیں۔3۔ڈرائیورز کو دوسرے ملازمین کو دیئے گئے ڈیلی الاؤنس کی طرح ”ڈیلی مائیلج الاؤنس “دیا جائے۔ اگران مطالبات کو دیکھا جائے تو کوئی مطالبہ بھی ایسا نہیں ہے جس کو غیر حقیقی قراردیا جاسکے۔
خاص طور پر ریل کے فرسودہ انفرسٹرکچر کو درست کئے بغیر ٹرینوں کے حادثات کو تعزیر اور سزاؤں کے ذریعے روکنے کا احمقانہ طریقہ کار،جس میں ڈرائیورز کو سزاوارٹھہرا کربرطرف کیا جارہا ہے،کے خلاف مزاحمت ایک جائیز بات ہے ۔

2013ء سے نواز لیگ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سعد رفیق کے مسند وزارت ریلوے سنبھالنے کے بعد بہت سے تضادات نے ایک ہی وقت میں جنم لیا ہے۔ ایک جانب بظاہر ایک درست دعوی ہے کہ ’لمبے عرصہ کے بعد ریل کا پہیہ چل پڑا ہے‘،دوسری طرف اسی عرصہ میں پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ حادثات ہوئے ہیں جن کے سبب بہت سی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔ان حادثات کی ساری کی ساری ذمہ داری ریلوے ڈرائیورز پر ڈال کر انکے خلاف کاروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر حادثات بغیر گیٹ کے پھاٹکوں کی وجہ سے ہوئے ہیں ۔جب کے دوسری طرف پاکستان ریلوے کی ٹرینوں کو اکسویں صدی میں بھی انیسویں صدی کے سگنل سسٹم کے مطابق ہی چلایا جارہا ہے، یہ ناقص اور ناقابل بھروسا نظام اب معدودے ممالک میں ہی رہ گیا ہے۔چینی سامراج کے اقتصادی مقاصد کے دباؤ اورپاکستان میں مہنگی ،جان لیواآلودگی پھیلانے کا باعث بننے والی بجلی بنانے والے کول پاورپلانٹ کو ”امپورٹڈ“ کوئلہ پہنچانے کی غرض سے ’چلایا جانے والا ٹرین کا پہیہ‘1864ء میں بچھائی گئی ریل کی پٹریوں پر چل رہا ہے، یہ پٹری اب ٹرین کی اس گئی گزری رفتار کوبھی برداشت کرنے کے قابل بھی نہیں ہے۔

پچھلے دنوں ایک حادثے کے بعد ریلوے پھاٹک پر ڈیوٹی دینے والے ریل مزدورنے انٹرویومیں بتایا کہ وہ 8گھنٹے کی بجائے 12گھنٹے کی ڈیوٹی کررہا ہے جبکہ دوسرا گیٹ مین چھٹی پر ہونے کی وجہ سے اسی کو مسلسل ڈیوٹی دینی پڑتی ہے ،لہذا تھکن کی وجہ سے اسکی آنکھ لگ گئی،جس کی وجہ سے حادثے کا سبب بننے والا گیٹ کھلا رہ گیا۔اب اگر ان حکام ‘جنہوں نے 8گھنٹے کی بجائے 12گھنٹے کی شفٹ کا نظام چلایا اور ایک ملازم کے چھٹی پر جانے پر اسکی جگہ کسی دوسرے ملازم کا بندوبست نہیں کیا ‘کو سزادینے کی بجائے گیٹ کیپر کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا تو اس سے زیادہ ظلم کیا ہوگا؟ فرسودہ سگنلز نظام کی طرح کانٹا بدلنے کا نظام بھی اپنی عمر بتاچکا ہے ۔

حادثات کی بہت سی وجوہات ہیں اور ان میں اگر کوئی آخری ذمہ دار ہوسکتا ہے تو وہ ہے ڈرائیور،جس کو ٹرین حادثوں کا نمبر 1ذمہ دار بناکربرطرفی جیسی سنگین سزا کا مستواجب قراردیا جاتا ہے۔اس بنا پر ڈرائیورز جائیز مطالبات کررہے تھے، ان کو فوری طور پر تسلیم کیا جانا ضروری تھا ،مگر ایسا نہیں کیا گیا تو ہڑتال کی ضرورت درپیش آئی۔ یہ بھی ایک مستند حقیقت ہے کہ ہڑتال ایک سنجیدہ اقدام ہوتا ہے، جسکی تیاری میں نا توکسی قسم کی عجلت کا مظاہرہ کرنا چاہئے اورنہ ہی تن تنہاایک مہم جوئی کی طرح یہ آخری قدم اٹھانا چاہئے۔

ڈرائیورز ایسویسی ایشن‘ جسکا ماضی میں عمومی رویہ ریل مزدوروں کے دوسرے سیکشنزکے مسائل کے ساتھ سردمہری ،لاتعلقی کا چلاآرہا تھا‘کو ہڑتال پر جانے سے پہلے پوری کوشش کرنی چاہئے تھی اور ہر حال میں ٹیکنکل سٹاف،سگنلز سٹاف،اسٹیشن ماسٹرزسمیت دیگرسٹاف کی حمائت حاصل کرنا چاہئے تھی تاکہ ریل کا پہیہ اگر روکنا ہے تو پھر اسکے چلنے کا ہر امکان ختم ہوجائے۔

دوسری طرف تمام تررنجشوں،اعتراضات کے باوجود جب نوجوان ریل ڈرائیورز نے ہڑتال جیسے ’انتہائی‘اقدام کا ارتکاب کرلیا تھا تو پھر ریل مزدوروں کی تمام یونیز، ایسوسی ایشنز اور تنظیموں کوفوری طور پر ”ہڑتال “کی حمائت کااعلان کرتے ہوئے ،عملی طور پر اسکا ساتھ دیکر ہڑتال کو کامیاب بنانا چاہئے تھا۔ ہڑتال کی حمائت اور اسکی کامیابی خود دیگر سیکشنز میں مزدوروں کے مطالبات کی منظوری کا زینہ ثابت ہونی تھی۔

اعتراضات اور تحفظات عام حالات میں جائیز اور جمہوری متصور ہوتے ہیں مگر جب ’ہڑتال‘ کا عملی آغاز ہوجائے تو پھر اس پر کسی قسم کی انگلی اٹھا کر لاتعلقی کا مظاہرہ کرنا جرم،بزدلی بلکہ غداری اوراستحصالی انتظامیہ کا ساتھ دینے کے برابر ہوتا ہے۔کچھ یونیزنے ”ینگ ڈرائیورز“ کی ایسوسی ایشن کو ’غیر رجسٹرڈ‘ کہ کر اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے، یہ لاعلمی پر مبنی نقطہ نگاہ ہے۔

مزدوروں کے حقوق کی لڑائی ہر حالت میں لڑنی پڑتی ہے خواہ یونین سرگرمیوں کوریاستی قدغنوں کا سامنا ہی کیوں نہ ہو،یہاں تو اعتراض صرف رجسٹریشن پر کیا جارہا تھا ۔ 12گھنٹے تک کامیاب رہنے والی ‘پہیہ جام ہڑتال کوناکام بنانے اور کچلنے کیلئے ریاست نے جس بوکھلاہٹ اور گھٹیا ہتھکنڈوں کا استعمال کیا اس سے اسکی کمزوری اورفرسٹریشن صاف عیاں ہوتی ہے۔

نوجوان ڈرائیورز کی ہڑتال کو ناکام بنانے اور ریل کا پہیہ چلانے کیلئے ریل حکام نے اخلاقیات کی ساری حدیں عبور کرلیں۔ایک جانب ماضی کے ڈرائیورز جو اب آفیسر رینک میں کام کررہے تھے ‘کے گھروں کا محاصرہ کرایاگیا،انکے بجلی، پانی ،گیس کے کنکشن کاٹ کر انکے سامنے دوآپشن رکھی گئیں۔1.کھڑی ٹرینیں چلائیں 2.۔گھر خالی کریں ، نوکری سے برخواستگی اور جیل جانے کی تیاری کریں۔

بیشتر سینئر آفیسرز کی مدت ملازمت دوچار سال رہ گئی تھی،ان پر ناگہانی افتاد ٹوٹ پڑی تھی جبکہ نوجوان ڈرائیورز نے اپنی ہڑتال کیلئے اپنے علاوہ کسی اور کا اعتماد جیتنے کیلئے بھی خاطر خواہ کوشش نہیں کی تھی۔ دوسری طرف ہڑتالی ڈرائیورز کو مذاکرات کے بہانے گرفتار کرلیا گیا،انکے رشتہ داروں تک کو گرفتار کرنے کیلئے انکے گھروں میں چھاپے مارے گئے ۔

اطلاعات کے مطابق اب تک16ہڑتالی ڈرائیورز کو گرفتار کرکے ان پر دھشت گردی کے مقدمات درج کئے گئے ہیں،ریلوے ڈرائیورز دھشت گرد نہیں ہیں اور نہ ہی ہڑتال ’دھشت گردی‘ہوتی ہے، پھر اتنا سنگین مقدمہ درج کرنے کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ ریاست کھوکھلی ہو کر گھبرا چکی ہے، ایسی ہی کسی پوری تیاری سے کی گئی ہڑتال سے کیا نتائج مرتب ہوسکتے ہیں اسکا اندازہ ریاست کی بوکھلاہٹ سے لگایا جاسکتا ہے۔

پوری شدت سے پھوٹنے والی ریلوے ڈرائیور ز ایسوسی ایشن کی ہڑتال نے پوری ریاست کے درودیوار ہلاکررکھ دئے، اس ہڑتال سے دوررس نتائج مرتب ہونگے۔ تمام تر غلطیوں اور خامیوں کے باوجود نوجوان ڈرائیورز کی ہمت اور جراء ت کو داد دینا ہوگی ،جنہوں نے کہنہ مشق اور ہیوی ویٹ ریلوے مزدورراہنماؤں کو”ہڑتال کی جاسکتی ہے“ کا سبق سکھایا ہے۔ اس ہڑتال کی ناکامی میں ناتجربہ کار نوجوان ڈرائیورزکی اس ہڑتال کو تن تنہاکرنے کی مہم جوئی کی غلطی ،ماضی میں ریلوے کے دیگر حصوں میں ہونے والی تحریکوں کا ساتھ نا دینے کا جرم اور بلاتیاری کے آخری قدم اٹھانے جیسے غلطیاں موجود ہیں مگر اس سے بھی سنگین جرم ریلوے میں پچاس پچاس سال کا تجربہ رکھنے والے سینئر مزدورراہنماؤں کا بچگانہ غصہ اور ہڑتال سے فراریت کی بذدلی ہے۔

اس ہڑتال کی ناکامی کے مضمرات صرف ڈرائیورز ایسوسی ایشن کو نہیں بلکہ ریلوے کی تمام یونینز اور ملک بھر کی مزدور تحریک کو بھگتنے ہونگے۔ایک اور اہم مسئلہ بھی اس ہڑتال کرنے اور ریل مزدوروں کے دیگر حصوں کی طرف سے اسکے بائیکاٹ کرنے سے کھل کر سامنے آیا ہے کہ ریل بانوں نے مرزا ابراہیم اور فیض احمد فیض کی نظریاتی تعلیمات کو فراموش کردیا ہے۔

موجودہ مسائل کی جڑسیاسی اور نظریاتی اور انقلابی تعلیم سے لاتعلقی ہے جو ایک عہدمیں مزدورتحریک سے وابستہ ہر فرد کا لازم نصاب ہوا کرتی تھی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ1۔ ریل کے تمام سیکشنز میں سرگرم یونینز،ایسوسی ایشنز ”مزدورنظریات اور جدوجہد “کے نصاب پر مشتمل اسٹڈی سرکل تشکیل دیں۔2۔ریلوے میں صرف ایک یونین کا قیام اور اگریہ ممکن نہ ہوتو تمام سیکشنز اور ٹریڈز میں موجوددرجنوں یونینز اور ایسوسی ایشنز پر مشتمل ایک فیڈریشن تشکیل دینے کی کوشش کی جائے تاکہ فیصلہ سازی میں وحدت پیدا کی جاسکے۔

3۔یہاں پر ایک موقع ہے جس سے مزدوروں کے تمام حصے اپنی غلطیوں اور خامیوں کی تلافی کرسکتے ہیں۔ ایک ایسی جدوجہد کا آغاز جس کا بنیادی مقصد گرفتارریل مزدوروں کی رہائی اور انپر دھشت گردی کے مقدمات ختم کرانا ہو، جس میں ریل کے تمام مزدوراور انکے تمام سیکشنز کی یونیز، ایسوسی ایشنز شامل ہوں،جو ملک کی دیگر یونینز ،فیڈریشنز ،ایسوسی ایشنز کو اپنے ساتھ ملاتے ہوئے اپنی ماضی قریب کی غلطی کی تلافی بھی کریں اور مستقبل کی جدوجہد کا راستہ بھی تراشیں۔

تمام تعصبات، رنجشوں،ذاتی اغراض ومقاصد اور مفادات سے پاک جدوجہد ہی ان تما م مشکلات سے نجات دلاسکتی ہیں جو مزدور تحریک کو بالخصوص ریل مزدور کو اس وقت درپیش ہیں۔ ’تمہارے پاس کھونے کو زنجیریں ہیں اور پانے کیلئے پوری دنیا، دنیا بھر کے محنت کشو!ایک ہوجاؤ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :