معاشی دہشت گردوں کی دنیا

پیر 7 اگست 2017

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

پہلی جنگ عظیم ختم ہوچکی تھی -مستقبل میں ”عالمی برادری“کے مسائل کے حل کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرنے کی تجویزسامنے آئی اور10جنوری1920کو ”لیگ آف دی نیشنز“کا قیام عمل میں آیا-ظاہری طور پر یہ تنظیم عالمی برادری کے باہمی تنازعات اور مسائل کے حل کے لیے ایک مشترکہ فورم مہیا کرنے کی غرض سے قائم کی گئی مگر پس پردہ دنیا کے طاقتور ممالک کی معاشی بالادستی کی راہ ہموار کرنا‘مختلف شعبوں میں اجارہ داریاں قائم کرنا ‘وسائل پر قبضے سمیت کئی مخفی امور اس کے ایجنڈے میں شامل تھے-حالات واقعات ثابت کرچکے کہ یہ کوئی محض سازشی تھیوری کا اثر ہے نہ میں اشراکیت کا عمل بردار ہوں -معاشی دہشت گردوں کے سامنے سب سے بڑا سوال تھا کہ وہ اپنے ”ایجنڈے“کو نافذکیسے کریں؟غور وفکر کے بعد یونانی فکرپر مبنی نظام جمہوریت میں ”آلٹریشن“کرکے اسے ”ماڈرن ڈیموکریسی“کا نام دیا گیا اگر اس کا زور وشور سے پرچار دوسری جنگ عظیم1939سے1945کے بعد کیا گیا مگر اس کے خدوخال 1900کے اوائل میں ہی تراشے جاچکے تھے-1920لیگ آف نیشن کا قیام کے بعد”مقدس سرحدیں“وجود میں آئیں ملک تقسیم ہوئے ‘باڈرزقائم کیئے گئے‘اگرچہ 1414میں کنگ ہینری کے دور میں پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے جو کہ پاسپورٹ یا سفری اجازت نامے سے متعلق ہے مگر پاسپورٹ کا جدیدتصور بھی 1920 میں پہلی عظیم کے بعد سامنے آجائے جبکہ 1924ویزا قوانین متعارف کروائے گئے اور 1926 انسان کی فطری آزادی مکمل طور پر سلب ہوکررہ گئی اور دنیا کو ٹکڑیوں میں بانٹ کر باڈرسیکورٹی کا تصور رائج کردیا گیا-پوری دنیا میں سرحدوں کی تقدیس کے گیت گائے گئے انہیں مقدس قرار دیا گیا جس کا سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کے ایک امت کے آفاقی تصور کو پہنچا -یہ وہی سرحدوں کی تقدیس کا تصور ہے جس کے تحت مشرف جیسا آمر ”سب سے پہلے پاکستان “ کا نعرہ مستانہ مارتا ہے بنیادی طور پر یہ نعرہ اسلام کے ایک امت کے آفاقی تصور کی نفی ہے-رنگ‘نسل اور زبان کی بنیاد پر قومیتوں کے تصور کو ابھارا گیا اگر تاریخی اعتبار یہ تقسیم صدیوں سے انسانوں میں چلی آرہی تھی مگر اس بار منصوبہ سازوں نے اسے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کے لیے خصوصی طور پر ”ڈیزائن “کیا-سرحدوں کی تقدیس کسی نہ کسی صورت میں اکتوبر2001تک قائم رہی -‘نائن الیون کے بعد امریکا نے انتقام کے نام پر سرحدوں کی ”تقدیس“کو روندنا شروع کیا اور فوجی طاقت کے ذریعے افغانستان پر قبضہ کرکے سرحدوں کی تقدیس کے تصور کو ختم کردیا-اس سے قبل استعماری طاقتیں پراکسی وارزکے ذریعے حملہ آور ہوتیں یا جعلی شناختوں پر گوریلا لڑائیوں میں ان کے اہلکار اترتے(جنوبی امریکا کے ممالک تاریخ میں کئی مثالیں موجود ہیں‘جہاں ریاست ہائے متحدہ امریکا نے ریاستی دہشت گردی کے ذریعے حکومتوں کے خلاف بغاوتیں کروائیں‘وسائل پر قبضے کیئے اور قتل عام کروایا)شمالی امریکا میں بھی کینڈا کے علاوہ کوئی ملک ریاست ہائے متحدہ امریکا کے معاشی دہشت گردوں سے محفوظ نہیں رہا-جان پرکنزمعاشی تباہ کار کے طور پر کھیل کا اہم کھلاڑی رہا ہے اپنی کتابوں”دی سیکرٹ ہسٹری آف دی امریکن ایمپائر“اور ”کنفیشنز آف دی اکنامک ہٹ مین “میں بہت سارے رازوں سے پردہ اٹھاتا ہے وہ ”مقدس“ڈیموکریسی کے لیے کارپریٹوکریسی کی اصطلاع استعمال کرتے ہوئے لکھتا ہے ”پانی‘بجلی اور نکاسی کا براہ راست تعلق چونکہ عوامی ترقی سے ہے لہذا ان سہولیات کے لیے حکومتیں سبسڈی دیتی ہیں مگر آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے ذریعے نہ صرف ان شعبوں پر سبسڈیزکو ختم کروایا جاتا ہے بلکہ ٹیکسوں کا سب سے زیادہ بوجھ ان پر لاداجاتا ہے کیونکہ عالمی سود خور اداروں کو اپنے سود سے غرض ہے اور حکومتوں کے لیے یہ طریقہ سب سے آسان ہے‘ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے محرکات کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ”یورپ پریشانیوں میں گھرا ہوا تھا ‘طاعون کی وباء ‘بھوک اور افلاس انہیں بغاوت کی طرف لے جارہے تھے ان حالات میں بادشاہتوں اور چرچ نے انہیں جنگوں کی راہ دکھائی کیونکہ صلیبی جنگوں میں یہ تجربہ کامیاب رہا تھا-جان پرکنزاکیلا نہیں اس کے قبیلے کے اب بہت سارے لوگ کتابیں لکھ رہے‘مضامین اورلیکچرزکے ذریعے دنیا کو معاشی دہشت گروں کے عزائم سے آگاہ کررہے ہیں اور ڈیموکریسی کے بھیس میں چھپی کارپریٹوکریسی کے گھناؤنے چہرے کو بے نقاب کررہے ہیں -کالونین ازم کے خاتمے کے بعد سرمایہ درانہ نظام اور اشتراکیت کے درمیان سردجنگ کا آغازہوا جس کا اختتام سوویت یونین کے خاتمے اور امریکا کے دنیا کے نقشے پر بلاشرکت غیرے واحد ریاست بن کر ابھرنے پر ہوا -سرمایہ درانہ نظام اور اشتراکیت کی جنگ بھی وسائل کے لیے تھی اور آج ”جمہوریت “کے نام پر کارپریٹوکریسی کی جنگیں بھی وسائل پر قبضے کے ہیں مگر یہ جنگیں ماضی کی نسبتا زیادہ تباہ کن ہوتی جارہی ہیں کیونکہ ان جنگوں کے ذریعے دنیا بھر میں انتہا پسندی کو فروغ دیا جارہا ہے-جنونی اور انتہاپسندانہ فکر رکھنے والی شخصیات کو اقتدارکے ایوانوں پر مسلط کیا جارہا ہے-ڈیموکریسی کے جس نظام کو ”مقدس“ترین قراردیا جاتا ہے دنیا بھر میں ایک بھی ملک ایسا نہیں جہاں ”ہیرپھیر“کے ذریعے معاشی دہشت گرد اپنی مرضی کے نتائج حاصل نہیں کرتے انتخابات میں کہیں سرمائے کے زور پر تو کہیں دھاندلی کے ذریعے -فری اینڈ فیئررائے دہی صرف کتابوں تک محدود ہے کیونکہ معاشی دہشت گردوں کو گارنٹی چاہیے ہوتی ہے جو فری اینڈفیئررائے دہی کے ذریعے ممکن نہیں تمام پر ”انتظامات“کے باوجود اگر کوئی سرپھرا جیت کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ جائے تو سب سے پہلے اسے خریدنے کی کوشش کی جاتی ہے اس میں ناکامی کی صورت میں عالمی کارپریٹوکریسی کے دنیا بھر میں پھیلے ”کرائے کے قاتل“حرکت میں آتے ہیں اور اسے عبرت کا نشان بنادیا جاتا ہے یا مصر کے ڈاکٹرمرسی کی طرح رائے دہی کے ذریعے جیت کر آنے والے کے خلاف فوجی بغاوت کرواکر اسے کال کوٹھڑی میں ڈال دیا جاتا ہے -جنوبی امریکا میں کئی مثالیں موجود ہیں کہ منتخب صدور اور اعلی حکومتی عہدیدار کاپریٹوکریسی کے کرائے کے قاتلوں کی گولیوں‘بموں کا نشانہ بنے-1920سے 2017تک وقت ‘حالات اور واقعات ثابت کرچکے کہ ماڈرن ڈیموکریسی کا مقصد عام انسان کی فلاح نہیں معاشی دہشت گردوں کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے اور اس کے لیے انسانی جانوں کی کوئی قدروقیمت نہیں‘شام‘افغانستان‘لیبیاء اور افریقہ کی مثالیں پوری دنیا کے سامنے ہیں-پاکستان جیسے غریب ملکوں میں یہ تصور عقیدے کی حد تقویت اختیار کرچکا ہے کہ جمہوریت ہی تمام دکھوں کا مدوا ہے حالانکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب ”ماڈرن جمہوریت“کو جزلازم قرار دیا گیا اس وقت سے آج تک دنیا نے جتنی قتل وغارت گری اور خون ریزی دیکھی اس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی-ماڈرن ڈیموکریسی نے چنگیزخان اور ہلاکو خان کی روحوں کو شرماء دیا -عام شہریو ں کو ادراک ہی نہیں کہ ”جمہوریت کے نام پر دراصل کاپرریٹوکریسی کو فروغ دیا گیا اور غریب ممالک میں ”معاون“طبقات کو ہرطرح سے مدد فراہم کی گئی-ایسے طبقات کو ملکوں اور قوموں پر مسلط کیا گیا جو عالمی معاشی دہشت گردوں کے عزائم کو پورا کرنے کے صلاحیت رکھتے ہوں-عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے دنیا میں ”بین القوامی مالیاتی آمریت “مسلط کی گئی اور معاشی غلامی کے اس نئے دور کا آغازہوا-حصص کے بازاروں میں اعدادوشمار کے ہیرپھیر سے نہ صرف دنیا بھر کی کرنسیوں کی ویلیو طے کی جانے لگی بلکہ پوری دنیا کی معیشت کو آکٹوپس کی طرح اپنے شکنجے میں کس لیا -ملکوں میں مرضی کی حکومتیں مسلط کرنے کے لیے پیسہ ‘طاقت ‘ڈرانے‘دھمکانے سمیت ہر حربہ استعمال کیا گیا-”بین القوامی مالیاتی آمریت“دنیا میں ”جمہوریت کے لیے”وسائل مہیا کرتی ہے“-مرضی کی حکومتیں بنوانے اور نتائج حاصل کرنے کے لیے یہ قوتیں کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں- عالمی معاشی تباہ کار کسی بھی ملک کو غربت وافلاس سے نکالنے کے لیے لانگ ٹرم منصوبے نہیں بناتے بلکہ آئی ایم ایف ‘ورلڈ بنک اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے انفاسٹریکچرپر زور دیتے ہیں اور پھر عالمی طاقتوں کی تعمیراتی کمپنیاں ٹھکیوں کی صورت میں اصل زرنکال لے جاتی ہیں اور مقروض ملک اور قوم دہائیوں تک سود اداکرتی رہتی ہیں- معاشی دہشت گردوں کی خفیہ دنیا کے رازوں سے پردہ اٹھانے والا بہت سا مواد سامنے آچکا ہے مگر کیا کوئی ایک بھی موٹی عقل والا ہے جو عالمی معاشی دہشت گردوں کا طریقہ واردات کو سمجھ سکے اور ان ”مہروں“کی حقیقت جان سکے جو ملک پر اربوں ڈالر کے قرضے لاد کر ”مثالی ترقی “کے نعرے مارتے ہیں‘جو موٹرویز‘اورنج لائن اور میٹرو کو ترقی وخوشخالی کی علامت قرار دیتے ہیں یہ راہزان تو اپنی واردات ڈال کر چلے جائیں گے مگر پاکستانی قوم شاید اگلے پچاس ‘سوسال تک ان قرضوں کے بوجھ تلے دبی سسکتی رہے-امریکی صحافی جیمریمی سکاہل نے بھی اپنی مشہور کتاب ”بلیک واٹرز“میں پاکستانیوں سے مخاطب ہوکر انہیں آنے والے خطرات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی مگر ہم بھنگ پی کر سورہے ہیں -پاکستان معاشی دہشت گردوں کی تجربہ گاہ رہا ہے اور یہاں انہیں وافر تعداد میں سول وفوجی ”رضاکار“ہمیشہ سے میسر رہے ہیں جو پہلے ان معاشی تباہ کاروں کے ساتھ سازبازکرکے حکومتوں میں آتے ہیں اور پھر جب یہی معاشی تباہ کار ”کام پورا “ہوجانے کے بعد انہیں کچرے دان میں پھینک دیتے ہیں تو یہ سازشوں کا رونا روکر قوم کو بیوقوف بناتے ہیں-معاشی دہشت گردوں کا سب سے بڑا ہتھیار قرضے ہیں یہ عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے ہم جیسے ملکوں پر قرضوں کا اتنا بوجھ لاد دیتے ہیں جسے اتارنا ممکن نہیں ہوتا اور پھر یہ ”نجکاری “کے نام پر غریب ملکوں کے وسائل اور اثاثوں پر قبضے جمانے لگتے ہیں -

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :