طبقاتی جمہوریت میں اصلاحات کا ڈھونگ

جمعرات 10 اگست 2017

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

عام خیال ہے کہ پاکستان میں 1970ء کے علاوہ منعقدہونے والے تمام ’عام انتخابات‘ میں دھاندلی کی آمیزش شامل رہی ہے۔الیکشن میں شکست سے ہمکنار ہونے کے بعد اسکو قبول کرلینے کا حوصلہ صرف جمہوری ثقافت پروان چڑھنے سے ہی ممکن ہے۔ہمارے ہاں شکست خوردہ پارٹیاں الیکشن کے بعداپنی حزیمت چھپانے اور خود کو مقبول ظاہر کرنے کیلئے مبینہ ’دھاندلی‘ کے سیاہ بادلوں کی اوٹ میں چھپنے میں ہی عافیت سمجھتی ہیں۔

بعض دفعہ تو بہت سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ”انتخابی دھاندلی“کو ایک خطرناک ہتھیار کے طور پر استعمال میں لایا جاتا ہے ،جیسے 1977ء کے انتخابات میں فیصلہ کن شکست کو تسلیم نہ کرنے کی آڑ میں9سیاسی جماعتوں کے اتحاد ’پی این اے‘کی ایک منظم تحریک ‘جس کو مبینہ طور پر امریکہ اور خلیجی ممالک کی مالی اور سیاسی حمائت حاصل تھی۔

(جاری ہے)

دھاندلی کے نام پر اس ”نظام مصطفی “نامی تحریک کی منصوبہ بندی انتخابات سے بھی ایک سال پہلے کرلی گئی تھی ،جس کا اظہار1976ء میں( اس وقت کے عمران خاں)ائیر مارشل اصغر خاں نے برملا کرتے ہوئے کہا تھا کہ” اگر انتخابی نتائج ہمارے خلاف نکلے تو ہم تسلیم نہیں کریں گے“ ۔

11مارچ1977ء سے 4جولائی تک چلنے والی اس تحریک نے اپنے او ر اپنے سپانسرز کے دومقاصدحاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ 1۔ سامراج دشمن ذوالفقارعلی بھٹو اور اسکی حکومت کا خاتمہ2۔ پاکستان میں نوزائید جمہوریت کی جگہ پر امریکی سامراج کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کرنے والی فوجی آمریت کا قیام۔ماضی میں سیاسی عمل کے خلاف مارشلاؤں میں غیرجماعتی انتخابات اور سیاسی پارٹیوں سے بالا بلدیاتی انتخابات کے ذریعے ’غیر سیاسی افرادکی تیاری‘ سے سیاسی خلاء پر کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں،اس طرح انتخابات کے بغیر بھی دھاندلی کاعمل جاری رکھا جاتارہا ہے۔

1985ء میں بغیر پارٹی انتخابات کے بعد تقریباََ تمام انتخابات میں ’دکھنے اور نادکھنے ‘والی دھاندلی کے الزامات کا عمل جاری رہا۔عوامی مقبولیت کی دعوے دارسیاسی پارٹیوں کا خیال ہے کہ انتخابی دھاندلیوں میں ”اسٹیبلشمنٹ“ اور خفیہ ایجنسیوں کا گہر اعمل دخل ہوتا ہے، اس موقف کی تائید اصغر خاں کیس سے بھی ہوتی ہے۔آئی جے آئی بنانے کیلئے پاکستان کی طاقتور انٹیلی جنس ایجنسی کی طرف سے دائیں بازو کے پسندیدہ سیاسی پارٹیوں اور راہنماؤں کو رقم کی تقسیم اور انکو پیپلز پارٹی کے خلاف ’پی این اے ‘ کی طرح جمع کرنا’پری الیکشن رگنگ‘قراردیاجاتا ہے۔

غلط یا درست ‘عام خیال رہا ہے کہ انتخابی عمل میں پاکستان مسلم لیگ (خواہ جس سابقے لاحقے سے موجود ہو)کو ریاستی متقدر حلقوں کی حمائت حاصل رہی ہے۔اس ضمن میں ووٹر لسٹوں ، انتخابی حلقوں کی کانٹ چھانٹ ،پولنگ اسٹیشن پر دھاندلی،بوگس بیلٹ پیپرز، انتخابی نتائج کی گنتی کے دوران تبدیلی وغیرہ پر ہمیشہ انگلی اٹھائی جاتی رہی ہے۔ 2013ء کے الیکشن کے نتائج نے تحریک انصاف کے سونامی برپا کردینے کے دعووں کو باطل کردیا تو تحریک انصاف کی طرف سے چار حلقوں میں دھاندلی کے الزام پر سیاست کی گئی ۔

چونکہ 2013ء کے الیکشن کے عمل اورنتائج پر ملک کی تمام چھوٹی بڑی پارٹیوں بشمول حکومتی پارٹی نے اپنے اپنے تحفظات پیش کئے تھے ،اسلئے چالیس سال بعد ’انتخابی اصلاحات‘ کی ضرورت کو محسوس کیا گیا۔ جون 2014 ء میں قومی اسمبلی اور سینیٹ نے انتخابی اصلاحات کے قانون کی منظوری دی تھی۔حکومتی اور اپوزیشن اراکین پر مشتمل ’انتخابی اصلاحات کے اس بل کو حتمی شکل دینے کے لیے اس کمیٹی کے سو سے زیادہ
اجلاس ہوئے ،جن میں اپوزیشن کی 631 مختلف تجاویز پر غور کیا گیا۔

آٹھ قوانین کویکجا کرتے ہوئے 15ابواب پر مشتمل نئی تجاویز انتخابی فہرستوں کی تیاری، انتخابی حلقہ بندیوں، کاغذاتِ نامزدگی کو آسان اور سہل بنانے، پولنگ اسٹیشنوں پر نگرانی کے لیے کیمروں کی تنصیب، خواتین ووٹر کی شمولیت، انتخابی عملے کے اختیارات، انتخابی عذرداریوں کو جلد نمٹانے اور انتخابی قواعد و ضوابط پر عملدرآمد کو یقینی بنانے سے متعلق ہیں۔

اپوزیشن پارٹیوں کے ووٹ ڈالنے کے لیے جدید ترین کمپیوٹرازڈ مشینیں استعمال کرنے کی تجویز یا متبادل کے طور پر بیلٹ پیپر اعلیٰ معیار کے واٹر مارک کاغذ پر چھپائی، ووٹروں کی شناخت کے لیے بائیومٹرک نظام،تارکین وطن پاکستانیوں کے ووٹ کے حق اوردیگر کئی اور تجاویز بھی حزب مخالف کی طرف سے پیش کی گئیں مگر ان کو سفارشات میں شامل نہیں کیا گیا۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر حزب مخالف کی نظر انداز کی جانے والی تمام تر تجاویز جن میں سے زیادہ کا تعلق پولنگ ڈے کے موقع پر بے ضابطیوں، دھاندلی ،درست شناخت اور ایک ووٹر کے ایک ہی ووٹ کے استعمال سے متعلق ہے ‘ کو مجوزہ انتخابی اصلاحات کا حصہ بھی بنا لیا جائے تو کیا ”دھاندلی “رک جائے گی اور حقیقی جمہوری عمل کا آغاز ہوجائے گا؟ سب سے پہلے تو دیکھنا ہوگا کہ موجودہ نظام انتخابات جس کو جمہوری عمل قراردیا جاتا ہے ، اس میں جمہور یعنی عوام کتنی شریک ہوتی ہے۔

اب تک کے اعداد وشمار کے مطابق سب سے زیادہ ووٹ کاسٹنگ کی شرح 1970ء کے انتخابات میں دیکھا گیا،جو 64.6فی صد تھی، اسکے بعد یہ شرح کم ہوتے ہوتے بیس سے پچیس فی صد تک گرتی گئی،1990اور 1997ء میں یہ شرح اور بھی گرچکی تھی۔2013ء کے الیکشن کی ووٹ کاسٹنگ خاصی متنازعہ ہے مگر وہ بھی 1970ء کی کاسٹنگ سے کم ہے۔ ایک عالمی سروے کے مطابق پاکستان میں لوگوں کی دلچسپی محض 12فی صد رہ گئی
ہے۔

ایک ایسے انتخابی نظام جس میں الیکشن کی فاتح قرارپانے والی جماعت کو کل ووٹروں کے 51فی صد حصے کی بھی حمائت حاصل نہ ہو، اسکوعوامی مینڈیٹ یافتہ کیسے قراردیا جاسکتا ہے۔دوسری طرف یہ اہم معاملہ انتخابی ریفارمز کے ایجنڈے کا نقطہ نہ بنایا جانا،سیاست پر فائیز سیاسی اذہان کی نیتوں کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح انتخابی قوانین کے مطابق قومی اسمبلی کے الیکشن میں کوئی بھی امیدوار صرف 15لاکھ روپے کا خرچ کرسکتا ہے۔

اگر کوئی شخص کسی اور سیارے پر نہ رہتا ہو تو اسے معلوم ہے کہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات میں لاکھوں کا نہیں کروڑوں کا خرچ ہوتا ہے اور وہ بھی ڈبل ڈیجیٹ میں۔جب کہ امیدواران الیکشن کمیشن کے سامنے جعلی خرچ کے اعداد وشمار پیش کرتے ہیں اور انکو درست مان لیا جاتا ہے۔ یہاں پر امیدوار کی صداقت کوجانچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔

چونکہ یہ جرم سو فیصد امیدوارن کرتے ہیں ،لہذا انتخابی خرچ کے جھوٹ کو قائم رکھنے میں بشمول الیکشن کمیشن سب کا ’اتفاق‘نظر آتا ہے۔لودھراں اور لاہور کے ایک حلقے کے ضمنی الیکشن کے اخراجات میں مبینہ طور پر کروڑ کروڑ روپے کا لفظ بے معنی ہوگیا تھا۔ کروڑوں اور اربوں روپے کے اخراجات والے الیکشن میں کل آبادی کا کتنے فی صد حصہ الیکشن لڑنے کا مالی طور پر اہل ہے ؟کسی دانشوری کی ضرورت نہیں ہے، کل آبادی کا ایک فیصد حصہ ہی الیکشن میں امیدوار بننے کی مالی اہلیت رکھتا ہے۔

پھر اس نظام کے انتخابی عمل کو ’عوامی یا جمہوری‘قراردیا جاسکتا ہے ؟یقینا نہیں۔ یہ اقلیتی سرمایہ داروں، جاگیر داروں، جرنیل زادوں،کالے دھن کے حاملین اورمافیاز سے متعلق کروڑپتیوں کی حاکمیت کا نظام ہے،جس میں ووٹ دینے کی بظاہر 100فی صد ووٹروں کو اجازت ہے اور ووٹ لینے کا حق ایک فی صدی طبقے کو ہے۔یہی وجہ ہے کہ کسی انتخابی حلقے میں صف آرا بظاہر مختلف پارٹیوں کے امیدواران کا طبقہ، کردار اور مفادات ایک جیسے ہوتے ہیں۔

بعض اوقات ایک ہی خاندان کے دوافراد باہم الیکشن لڑرہے ہوتے ہیں۔ یہی لوگ الیکٹ ایبل ہیں اور پارٹیاں بدل بدل کر یہی الیکشن لڑتے چلے آرہے ہیں۔ بظاہر کوئی ’قانونی‘ رکاوٹ عام آدمی کے الیکشن لڑنے کی راہ میں مزاحم نہیں مگر ایسے کرنے پر الیکشن لڑنے کی بجائے عام آدمی صرف ’مذاق ‘بن سکتا ہے، سنجیدہ امیدوار بننے کی فیصلہ کن شرط کروڑ وں روپے کی انتخابی سرمایہ کاری کرنا ہے۔

ایسے حالات میں جب ووٹرز(خواہ انکی شرح کتنی ہی کم زیادہ ہو)اپنے طبقے کا اور اپنے جیسا امیدوار سامنے نا پاکر اپنا ووٹ تک بیچنے کو جائیز سمجھتے ہیں۔انکا موقف ہے جب ”الیکٹ ایبل “ان سے ووٹ لیکر بک جاتا ہے تو وہ ’مفت‘ میں اپنا ووٹ کیوں ضائع کریں۔ موجودہ انتخابی اصلاحات بھی ایک فیصدی طبقے کے باہمی اختلافات کو حل کرنے کیلئے ہیں۔

جب تک ووٹ دینے والا اکثریتی طبقہ ووٹ لینے کی مالی، سماجی اہلیت حاصل کرلے گا تب انتخابات کو جمہوری عمل اور نظام کو عوامی نظام قراردیا جاسکے گا۔ موجودہ سرمایہ داری نظام کی موجودگی میں منصفانہ انتخابات اور جمہوریت ایک یوٹو پیائی خواب ہے۔یہ ایک طبقاتی جمہوریت ہے اور اسکے مفادات اور دائرہ کار بھی اقلیتی طبقے تک ہی محدود ہے، یہی وجہ ہے کہ 88فی صداکثریتی آبادی، اس نظام کی سیاست سے خود کو الگ کرچکی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :