سیاسی انتشار کا کردار

ہفتہ 12 اگست 2017

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

ستر سالوں سے بحرانوں کے دائروں میں سفر کرنے والے ملک عزیز کو پھربحران کے ’ایک اور دریا کا سامنا ہے‘۔ملکی سیاست کبھی بھی پرسکون نہیں رہی،بلکہ رکاوٹوں والی دوڑ کی طرح اسکو ہر اگلے قدم پر کسی رکاوٹ، دکھنے یا نا دکھنے والی کسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑاہے۔ہر دفعہ کے سیاسی بھونچال کی طرح موجودہ ’سیاسی انتشار‘کو بھی ’ملکی تاریخ کا سب سے سنجیدہ اور پرخطر بحران‘ قراردیا جارہا ہے۔

موجودہ بحران جو بحران سے زیادہ نظام اور ریاست کے اندرونی خلفشار کا بیرونی اظہار ہے‘نے پچھلی دھائیوں میں شعوری طور پر دبائے جانے والے بہت سے قضیوں کو عوام کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے۔بنیادی طور پر پچھلے ستر سالوں سے ’معاشی سائیکلز‘ طرز کے سیاسی اور ریاستی بحرانوں کایہ ناختم ہونے والا سلسلہ اس ’نظام‘کی فرسودگی اور بانجھ پن کی نشاندہی کررہا ہے ،جس کے تحت مملکت خداداد پاکستان کو چلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

(جاری ہے)

وردی اور بغیر وردی،اکیلی اور ہمہ قسم کی پارٹیوں کے اشتراک والی حکومتوں کی ناکامیوں کا اختتام بالآخرا یک ایسی مایوسی کی شکل میں نکلتا ہے ،جو بڑھ کر ایک انتشار کی شکل اختیار کرجاتی ہے،بالکل ایسا ہی جیسے آج کل نظر آرہا ہے۔ جس نظام کے تانوں بانوں پر اس ریاست کو چلایا جارہا ہے ، وہ تاریخی طور پر ناکام ہوکر سماج کو آگے بڑھانے کی سکت کھوبیٹھا ہے،اس نظام کی موجودگی میں کسی قسم کی کامیابی کی سوچ ہی دراصل وہ لاعلاج بیماری بن چکی ہے ،جس کا شکار پاکستان کا حکمران طبقہ دکھائی دیتا ہے۔

درست تشخیص کے بغیر علاج ممکن ہی نہیں ہے۔ پھر حکمران طبقے کے اپنے مجرمانہ کردار کی وجہ سے متبادل دیکھنے کی سکت تک موجود نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے ابہامات ہیں جن کو شعوری طور پر پروان چڑھا کر مطلوب نتیجے پر پہنچنے سے پہلو تہی کی جاتی ہے۔ یہ سوال کبھی بھی زیر بحث نہیں لایا جاتا کہ صرف سویلین حکومتیں ہی ناکامی سے دوچار نہیں ہوتیں بلکہ طویل دورانیے کی ”غیر سول“ حکومتوں کا اختتام بھی انکی ناکامیوں اور نامرادیوں کی وجہ سے ناخوشگوار ہی ہوتاچلاآیا ہے۔

عمومی رائے مستحکم ہے کہ ، فوجی حکومتوں کے دوران پیدا ہونے والے مسائل پاکستان کے ’پچیدہ امراض‘بن چکے ہیں۔مگرپھر یہ معاملہ فوجی یا غیر فوجی حکومتوں تک ہی محدود کردینا دراصل ”پاکستان کے ریاستی انتشار“کی مبہم تعبیر ہوگی۔اسی طرح ہمہ قسم کی سیاسی پارٹیوں اور قیادتوں کی پے درپے ناکامیوں سے ثابت ہوتا ہے کہ معاملہ کچھ اور ہے اور پیش کسی اور طرح سے کیا جارہا ہے۔

ابھی تک حکمران طبقے کے تمام حصے ”ناکامیوں،بحرانوں اور انتشار“ کو’ افراد‘یا طریقہ حکمرانی جیسے ثانوی معاملات کے ساتھ منسوب کرتے چلے آرہے ہیں،یہ انکے ایسے خوف کا اظہار ہے جو انکو حل کی بجائے ایک اور ’ناکام حکومت‘ یا پھر سے پٹ جانے والے ’غیر سیاسی‘تجربے کی طرف لے جاتا ہے۔یوں ایک کے بعد دوسری حکومت، سول کے بعد غیر سول حکومتوں کی ناکامیوں کا سلسلہ ہائے دراز قائم ودائم ہے۔

سول اورغیرسول حکومتیں کی معاشی پالیسیاں، سامراجی کاسہ لیسی،طبقاتی نقطہ نگاہ میں کہیں فرق دکھائی نہیں دیتا ۔ اس طرح انکو ایک ہی سکے کے دورخ قراردیا جاسکتا ہے۔ ایک اور واہمہ پچھلے کچھ عرصے سے پوری جانفشانی سے بنا یاجارہا ہے،کہ ”قیادت“ دیانت دارہو تو نظام کی بددیانتی گدھے کے سینگوں کی طرح غائب ہوجائیگی ،دراصل بددیانتی کی اساس کو جاری وساری رکھنے کی ہی ایک سازش ہے۔

شخصی دیانت داری سے پورے نظام کی بدیانتی ختم کرنے کا دعوی، بچوں کی کہانیوں کے ہیروکے ناقابل فہم کارناموں سے مشابہت رکھتا ہے۔فردکے کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ’برصغیرکی ثقافت ‘ کا ایک منفی اور تاریخی پہلوہے۔مبالغہ آمیزی سے مزین فرد کی دیانت داری کو نظام پر حاوی کرکے ثابت کیا جاتا ہے کہ ”نظام تو ٹھیک ہے ،مگر چلانے والے ٹھیک نہیں ہیں “۔

نظام ہے کیا ؟ہر نظام سب سے پہلے ایک معاشی نظام ہوتا ہے۔موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کا بنیادی وصف ہی ’اکثریتی طبقے کی محنت کے حاصل کو اقلیتی طبقے کے سرمایہ داروں کی جیبوں میں انڈھیلنا ہی‘۔یہیں سے بدعنوانی کا آغاز ہوکر پورے سماج کے تمام قوانین اور ضابطوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ پورے نظام کی بدعنوانی کو ’ذاتی دیانت داری‘سے ٹھیک کرنے کا دعوی‘ سمندر کے کھارے پانی کو چینی کی ایک بوری سے میٹھا کرنے کے دعویے سے مماثلت رکھتا ہے۔

پاکستان اور اسی جیسے سابق نوآبادیاتی ممالک میں کچھ چیزیں شائد مختلف ہوں مگر ایک گہری مماثلت ہے کہ یہ ممالک تاریخ سے پچھڑے ہوئے ہیں۔ سرمایہ داری نظام کے ارتقائی عمل اور عمومی دھارے کے برعکس‘ ان ممالک میں ”قومی جمہوری انقلابات“ یا صنعتی انقلابات نہ ہوسکے۔نا تو یہاں سرمایہ دارانہ انفراسٹرکچر تعمیر ہوسکا اور نہ ہی یہاں بننے والے اداروں کی ارتقائی ہیئت ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک جیسی بن سکی۔

ترقی یافتہ ممالک میں سرمایہ داری کی تعمیر اور نشوؤ نما کے دو تین سو سال کے عرصہ کے برعکس یہاں عدم موجود جاگیر داری کو مصنوعی طور پر مسلط کیا گیا۔ جیسا کہ 1948ء میں مسلم لیگ کی زرعی کمیٹی کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ 1857ء سے قبل برصغیر میں جاگیر داری کا کہیں وجود نہیں تھا اور نوزائد جاگیر داری کی بنیاد بھی انگریز سامراج کی حاشیہ برداری، اپنے ہم وطنوں سے غداری اور آزادی کی تحریکوں کو کچلنے میں مد دینے کے انعام کے طور پر دی گئیں تھیں۔

تقسیم کے بعدپاکستان کہلوانے والے خطے میں انگریز سامراج کے تابعدار اور نومولود جاگیرداروں کی ’حاکمیت ‘کیلئے کی جانے والی کاوشوں کو انکی اپنی نااہلیت اور انگریزسامراج کے تربیت یافتہ دیسی بیوروکریسی کی موقع پرستی نے پنپنے نہیں دیا،یہ بنیادی مسئلہ نہیں تھا بلکہ مسئلے کو اور زیادہ مسخ کرنے کا باعث بنا۔اگر سازشیں اور بغاوتیں نہ بھی ہوتیں تو تب بھی ترقی یافتہ ممالک کے سرمایہ دارجو‘ اب پیداواری سبقت کی بنا پرملٹی نیشنل کی شکل اختیار کرچکے تھے ، انکا مقابلہ ممکن نہیں رہا تھا۔

تاریخ سے پیچھے رہ جانے کا خمیازہ ”گماشتہ سرمایہ داری“ کی شکل میں ہی نکلنا تھا، ایسا ہی ہوا۔ ابتداء ہی میں سامراجی گرفت نے ”حکمران طبقے “ سمیت جس قسم کے بھی ادارے تخلیق کئے انکاکردار نا تو قومی بن سکا اور نہ ہی انکا ارتقاء آزادانہ ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ9/11کے مضمرات بھگتنے اور سامراجی گماشتگی کی کڑی سزا اٹھانے کے بعد ، سامراجی گرفت سے نکلنے کی کاوشیں محض سامراج بدلنے کی جسارت تک ہی محدود ہیں۔

وہ مادی وجوہات موجود ہیں جن کی وجہ سے دست نگر رہنے کی سوچ حکمران طبقے کے شعور کا لازم جزو بن چکی ہے۔قرضوں کی معیشت اور محکوم خارجہ پالیسی میں اپنا نقطہ نظر لاگو کرنے سے کس قسم کے نئے اور گھمبیر مسائل درپیش ہوسکتے ہیں ، اسکا نظارہ ہم پاکستان میں دیکھ سکتے ہیں۔ مختلف قسم کی پراکسی جنگوں کی موجودگی میں سول اور غیر سول بالادستی کی کشمکش کے مناظر شعور کو دھندلادینے کی طاقت رکھتے ہیں۔

تاثر خواہ کسی قسم کا ہی کیوں نہ بنایا جارہا ہو،حقیقت میں اصل نظام ہی گل سڑ کر انہدام کی طرف جانب بڑھ رہا ہے جسکی مسخ شدہ شکل یہاں پر پچھلے ستر سالوں سے رائج ہے۔بحران اور اسکی انتشاری شکلیں تب تک جاری رہیں گی جب تک موجودہ ’اقلیتی طبقے ‘کی حاکمیت کانظام نہیں بدلتا۔بس ایک بحران سے کسی دوسرے بحران کی طرف مراجعت کی جاسکتی ہے۔

حکومتیں بدلنے سے حکمران طبقے کو کچھ سانس لینا نصیب ہوتا ہے اور کچھ اور دیر تک عام لوگوں کے شعور کر گمراہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ نورا کشتی کرنے والا موجودہ مراعات یافتہ طبقہ حقیقی تبدیلی سے خوف زدہ ہے۔ موجودہ نظام کی گنگا میں اشنان کرنے والے حکمران کہاں چاہیں گے کہ انکا تعفن زدہ نظام خاک میں ملے اوراکثریتی طبقہ غالب ہو۔یہ کام اسی اکثریتی محنت کش طبقے کو ہی سرانجام دینا ہوگا جو اس نظام کی ذلت کا شکار ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :