بنگلہ دیش ماڈل پر ایک نظر

بدھ 16 اگست 2017

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

آپ اکثر ہمارے کچھ دانشوروں سے بنگلہ دیش ماڈل کا ذکرسنتے رہتے ہونگے۔یہ دانشور حضرات پاکستان کے لئے امریکہ، برطانیہ ، جرمنی، فرانس، آسٹریلیا جیسے ترقی یافتہ ممالک کے ماڈلوں کے بجائے پاکستان سے بھی پسماندہ ملک بنگلہ دیش کو مشعل راہ سمجھتے ہیں۔ آئیے بنگلہ دیش ماڈل پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
بنگلہ دیش نے دسمبر ۱۹۷۱ میں آزادی حاصل کی۔

اور شیخ مجیب الرحمن بنگلہ دیش کے مختار کُل بن گئے۔۱۵ اگست ۱۹۷۵ کو بنگلہ دیش آرمی کے چند افسران نے میجر فاروق رحمٰن اور میجر رشید کی قیادت میں بنگلہ دیش کے بابائے قوم اور وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمن کی سرکاری رہائش گاہ پر مسلح یلغار کردی ۔اس حملے میں شیخ مجیب الرحمن اپنے خاندان کے تمام افراد سمیت ہلاک ہو گئے، اُن کی دو صاحبزادیاں شیخ حسینہ اور شیخ ریحانہ بیرون ملک ہونے کی وجہ سے محفوظ رہیں۔

(جاری ہے)

میجر فاروق رحمٰن ، میجر رشیداور خوندکر مشتاق احمد حکومت پر قابض ہوگئے۔
۳ نومبر ۱۹۷۵ کو ایک اور ملٹری بغاوت کے نتیجے میں بریگڈئر خالد مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔بریگڈئر خالد مشرف نے اس وقت کے آرمی چیف میجر جنرل ضیاالرحمٰن کو گھر میں نظر بند کر دیا۔ بعض مبصرین کے خیال میں میجر جنرل ضیاالرحمٰن کی جان بخشی کی وجہ اُن کی بریگڈئر خالد مشرف سے ذاتی دوستی تھی۔

بریگڈئر خالد مشرف کا اقتدار اور جان تین دن بعد ہی ایک اور بغاوت کے نتیجے میں ختم ہوگئے۔ اس نئی بغاوت میں ریٹائرڈ کرنل ابو طاہر نے جو کہ سوشلسٹ پارٹی کے سربراہ تھے اہم کردار ادا کیا۔ کرنل ابو طاہر نے میجر جنرل ضیاالرحمٰن کو قید سے رہا کر وایا مگر چند دن بعد ہی میجر جنرل ضیاالرحمٰن نے کرنل ابو طاہر کو گرفتار کر لیا۔ ایک فوجی عدالت نے کرنل ابو طاہر کو پھانسی کی سزا سنادی اور ۱۹۷۶ میں اس سزا پر عمل درآمد کر دیا گیا۔

میجر جنرل ضیاالرحمٰن جو کہ ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طور پر پسِ پردہ حکومت چلا رہے تھے ، ۱۹۷۷ میں بنگلہ دیش کے صدر بن گئے۔ میجر جنرل ضیاالرحمٰن نے اپنے دورِ اقتدار میں اکیس ( ۲۱) فوجی بغاوتوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا۔ ان میں ایک بغاوت ایسی بھی تھی جو ائر فورس کے ائر مینوں نے کی تھے۔ ایئر مینوں کی بغاوت کے د وران باغی فوجیوں نے ڈھاکہ ریڈیو اسٹیشن پر قبضہ کر لیا ۔

اِس بغاوت کے نتیجے میں ا ئر فورس اور آرمی کے تقریباً ڈھائی ہزار جوان ہلاک ہوئے جن میں کئی افسران بھی شامل تھے۔
میجر جنرل ضیاالرحمٰن (جو کہ اب ایک سِولین صدر کا روُ پ دھار چکے تھے ) کی خوش قسمتی نے ان کے خلاف ۱۹۸۱ میں ہونے والی بائیسویں فوجی بغاوت کے موقع پرانکا ساتھ نہ دیا اور وہ اپنے چھ باڈی گارڈوں اور دو ساتھیوں سمیت چٹاگانگ میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

بغاوت کے سرغنہ چٹاگانگ کے جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل ابوالمنظور نے اقتدار پر قبضے کا اعلان کر دیا۔تاہم ڈھاکہ میں تعینات آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل حسین محمد ارشاد نے اس بغاوت کو تسلیم نہیں کیا اور حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔جنرل ارشاد کے حامی فوجی دستے اس بغاوت کو کچلنے میں کامیاب رہے اور میجر جنرل ابوالمنظور چند گھنٹوں بعد اپنے کچھ ساتھیوں سمیت بھارتی سرحد کی طرف فرار ہوتے ہوئے ہلاک کر دئے گئے۔


لیفٹیننٹ جنرل حسین محمد ارشاد زیادہ دنوں تک سِولین حکومت برداشت نہ کرسکے اور ۱۹۸۲ میں اقتدار پر قبضہ کر لیا۔۱۹۹۰ میں ہونے والے زبردست عوامی احتجاج اور تحریک کے نتیجے میں جنرل ارشاد کو مستعفی ہونا پڑا اور بنگلہ دیش میں خالدہ ضیاء کی بنگلہ دیش نیشلسٹ پارٹی اور حسینہ واجد کی عوامی لیگ کے جمہوری ادوار کا آغاز ہوا۔ تاہم جنرلوں اور انکی حامی ’صاف شفاف‘ اشرافیہ کو یہ صورتحال کبھی بھی پسند نہی آئی۔

چناچہ سیاسی افرا تفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ۲۰۰۷ میں فوج نے ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ایک نگراں (قومی) حکومت قائم کردی۔ اس حکومت کا کام سیاسی جماعتوں کے پھیلائے ہوئے ’گند‘ کو صاف کرنا ،کرپشن کا خاتمہ کرنا اور معیشت کو بہتر کرنا تھا۔ اس دوران آرمی چیف معین الدین احمد (جوکہ اپنے آپ کوخود ہی جنرل کے رینک پر ترقی دے چکے تھے ) نے اپنے ٓپ کو ایک سال کی توسیع بھی دے ڈالی۔

نگراں حکومت والا یہ نسخہ ’نیک مقاصد‘ کے حصول میں بری طرح ناکام رہا اور اگلے الیکشن میں پھر عوام نے انہی دو بیگمات کی پارٹیوں کو ووٹ دئے۔
۲۰۰۹ میں پیرا ملٹری فورس بنگلہ دیش رائفلز نے اپنے ہی افسران کے خلاف ( جوکہ آرمی سے بنگلہ دیش رائفلزمیں تعینات ہوتے ہیں) بغاوت کردی۔ اس بغاوت کے نتیجے میں فورس کے کمانڈر میجر جنرل شکیل احمد اپنے ۵۷ فوجی افسران اور ۱۶ سیکٹر کمانڈروں سمیت ہلاک ہوگئے۔

یہ بغاوت چند دنوں میں کچل دی گئی اور شیخ حسینہ حکومت بچنے میں کامیاب رہی۔
جنوری ۲۰۱۲ میں بنگلہ دیش آرمی ، درمیانے رینکس کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسروں کی طرف سے تیار کئے گئے بغاوت کے ایک اور منصوبے کو ناکام بنانے میں کامیاب رہی۔
حسینہ واجد کی حکومت نے شیخ مجیب الرحمٰن کے قاتلوں کا ساری دنیا میں پیچھا کیا اور ان کو گرفتار کرکے بنگلہ دیش لاکر پھانسیوں پر چڑھایا، کِسی بنگلہ دیشی ادارے کو چوں چراں کی بھی ہمت نہیں ہوئی۔

۱۹۷۱ میں بنگلہ دیش کے قیام کے خلاف پاکستانی فوج کا ساتھ دینے والے تمام سرکردہ افراد کو بھی شیخ حسینہ کی حکومت نے پھانسی کے پھندوں پر لٹکا دیا۔ بنگلہ دیش ماڈل کے تحت رچائی گئی ان صفائی مہمات کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج کی بنگلہ دیش حکومت مکمل طور پر بھارت کی غلامی اختیار کر چکی ہے اور بنگلہ دیشی فوج کی نکیل بھارت کے ہاتھ میں ہے۔
باوجود اتنی زبردست صفائی مہمات کے آج بھی بنگلہ دیش کا شماردنیا کے چند انتہائی غیر ترقی یافتہ (Least (developed ) ممالک میں ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ بنگلہ دیش کا جی ڈی پی اور لوگوں کی اوسط آمدنی پاکستان کے مقابلے میں تقریباً آدھی ہیں۔
تو جناب یہ ہے بنگلہ دیش ماڈل۔ اور یہ بھی واضح رہے کہ بنگلہ دیش ماڈل کے نفاذ کے لئے پاکستان توڑنا پڑا تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :