جمہوریت نہیں غربت کاپہلاشہید

بدھ 16 اگست 2017

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

بدقسمت ماں کی وہ چیخ وپکار۔۔ دل کو چیرنے والی غم میں ڈوبتی آواز۔۔ آنکھوں سے بہنے والے سیلاب کی طرح رواں دواں آنسو اور ماتم پرماتم کاوہ غمناک منظر باوجود پوری کوشش کے میری آنکھوں کے سامنے سے نہیں ہٹ رہا ۔۔وائے میرے سو ہنے پتر۔۔ وائے میرے سوہنے پتر کے یہ الفاظ اٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھرتے ہر وقت میرے کانوں میں گونج رہے ہیں۔۔ جب بھی میں تھک ہارکرسونے کی کوشش کرتا ہوں ۔

۔ وہ بد قسمت ماں معصوم اور پھول جیسے بیٹے کی خون آلود لاش ہاتھوں میں اٹھائے میری آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں ۔۔ بھوک کے ہاتھوں مجبور ہوکر جب میں منہ میں نوالہ ڈالتا ہوں تب اس کی چیخ وپکار ۔۔ غم میں ڈوبتی وہ آواز مجھے اس قدر تیز سنائی دینے لگتی ہے کہ ہزار کوشش کے باوجود میں روٹی کا ایک نوالہ بھی حلق سے نیچے اتارنے میں کامیاب نہیں ہوتا۔

(جاری ہے)

۔ بچے تو سب کے لاڈلے اور سانجھے ہوتے ہیں ۔۔ بچے کو معمولی بخار ۔۔ سردرد یا کھانسی ہو تو ماں باپ کی نیندیں ہی اڑ جاتی ہیں ۔۔ انسان اپنے وجود پر آنیوالے درد اور تکلیف کو تو برداشت کرلیتا ہے لیکن اولاد کاغم کسی بھی انسان کو جیتے جی مار دیتا ہے ۔۔ بچے کو معمولی تکلیف میں بھی دیکھ کر ماں باپ کے جسم سے سانس تک نکلنے لگتی ہے ۔۔ میں سوچتاں ہوں لالہ موسیٰ کی اس بدقسمت ماں اور باپ نے جب اپنے لخت جگر اور دل کے ٹکڑے کو خون میں لت پت دیکھا ہوگا اس وقت ان پر کیا گزری ہوگی۔

۔؟ ماں تو اس معصوم وجود پر پانی کے چھینٹے بھی نہ پڑنی دیتی ہونگی مگر اسے تو ظالموں نے خون میں ہی نہلا دیا ۔۔ وہ معصوم بچہ جس کے سر درد پر بھی ماں کانپ اٹھتی تھی اورباپ گہری نیندسے بیدارہوکردوڑتاچلاجاتاتھا وہ جی ٹی روڈ پر بے یار ومدد گار دردو تکلیف سے کراہتا رہا لیکن شاہی قافلے تلے کچلنے والے وحشی درندوں نے اسے ہاتھ تک بھی نہیں لگایا۔

۔ کیا غریب ہونے کی وجہ سے غریبوں کی جانوں کی بھی کوئی قیمت نہیں۔۔؟کیاغریبوں کے بچے بچے نہیں ہوتے۔۔؟ انسان تو مرغی کے تڑپنے پر بھی خوف سے کانپ اٹھتا ہے لیکن یہاں تو ظالم ایک انسان کے تڑپنے ۔۔ رلنے اور مرنے پر بھی ٹس سے مس نہیں ہوئے۔۔ نواز شریف کے قافلے میں شامل جس شخص نے لالہ موسیٰ میں غریب ماں کے لخت جگر کو گاڑی تلے روندا کیا وہ انسان نہیں تھا ۔

۔؟کیااس کے سینے میں کوئی دل نہیں۔۔؟ کیا اس کے اپنے کوئی بچے نہیں ۔۔؟ اس ظالم کا اگر اپنا بچہ اس طرح گاڑی تلے روندا جاتا تو کیا وہ اس کو اس طرح خون میں لت پت اور تڑپتا چھوڑتا ۔۔؟ مانا کہ شاہی قافلے تلے روندا جانیوالا بچہ غریب تھا لیکن آخر وہ بھی مریم نواز ۔۔ حسین نواز کی طرح کسی کی آنکھوں کا تارا اور سب سے پیارا تو تھا ۔۔؟ اس بچے سے بھی ان کے ماں باپ اتنا ہی لاڈ پیار کرتے ہوں گے جتنا نواز شریف مریم نواز اور حسین نواز سے کرتے ہیں ۔

۔ وہ بدقسمت بچہ غریب ضرور تھا لیکن وہ بھی اپنے ماں باپ کا حسین نواز تھا۔۔ حادثات اور واقعات اللہ کی طرف سے ہے۔۔ اس پر کسی انسان کا کوئی بس نہیں لیکن گاڑی تلے روند نے والے معصوم حامد کا سرگود میں رکھنا یا اس کی خون آلودنعش کو ہاتھوں میں اٹھانا یہ تو اس درندے اوروحشی کے ہاتھ میں تھا ۔۔ نواز شریف کا وہ نوکر جس نے بچے کو گاڑی تلے روند اتھا اگر وہ گاڑی روک کر بچے کو گود میں اٹھاتا اس سے بچہ تو نہ بچتا لیکن ان کے ماں باپ کا غم ضرور ہلکا ہوجاتا ۔

۔ بچہ تو چلا گیا لیکن اب ان کی بدقسمت ماں اورباپ کی آنکھوں کے سامنے ہر وقت اس کا وہی جی ٹی روڈ پر تڑپنے کا منظر ہوگا ۔۔ مین روڈ پر پڑی اس معصوم کی خون میں لت پت نعش اب نہ ماں کو جینے دے گی نہ ہی باپ کاپیچھاچھوڑے گی۔۔ وہ دونوں لاکھ کوششوں کے باوجود بھی اب اس منظر کو آنکھوں کے سامنے سے ہٹا نہیں سکیں گے ۔۔ن لیگ کے بڑوں نے بدقسمت باپ کے سرپرہاتھ رکھنے اورغمزدہ خاندان کے غم میں شریک ہونے کی بجائے بچے کی المناک موت کوجمہوریت کی پہلی شہادت سے تعبیرکردیاہے۔

۔کہتے ہیں حامدجمہوریت کاپہلاشہیدہے۔۔ان سے کوئی پوچھے توسہی کہ جمہوریت کیلئے تمہیں غریبوں کے علاوہ کوئی نہیں ملتا۔۔جمہوریت کے نام پرلوٹ مارتوسیاستدان۔۔جاگیردار۔۔سرمایہ داراورامیرطبقہ کرے لیکن جب قربانیاں دینے کاوقت آئے توپھربے چارے غریبوں کے سواکوئی نہ ہو۔۔اسی نام نہادجمہوریت کے لئے تواب تک چوکوں ۔۔چوارہوں ۔۔گلی ۔۔محلوں۔

۔جلسے ۔۔جلوسوں اوردھرنوں میں لاٹھیاں اورگولیاں غریب ہی کھاتے رہے ہیں ۔۔آپ تاریخ اٹھاکردیکھیں ۔۔جب بھی کوئی جلسہ۔۔جلوس یاکوئی مظاہرہ ہوااس میں اس ملک کے یہی غریب ہی سب سے آگے رہے۔۔بات نوازشریف پرکسی مشکل کی ہو۔۔زرداری پرکسی آفت کی ہو۔۔عمران خان پرکسی آزمائش کی ہو۔۔فضل الرحمن کے کسی مشن کی ہویاسراج الحق کے مسئلے کی ۔۔یہی پھٹے پرانے کپڑوں والے غریب ہی ہرلیڈرکی ذات اورمفادکے ایندھن بنے ۔

۔آپ لاہورکے سانحہ ماڈل ٹاؤن کودیکھیں یااسلام آبادکے ڈی چوک میں تحریک انصاف کے طویل دھرنے کوپرکھیں ۔۔آپ کوسانحہ ماڈل ٹاؤن میں جمہوریت پرقربان ہونے والے غریبوں کی ایک لمبی فہرست اورپی ٹی آئی کے دھرنے میں لاٹھیاں۔۔مکے اورلاتوں سے گزرنے والے غریبوں کے بے شمارنام ضرورملیں گے لیکن تاریخ کی کسی کتاب میں آپ کوعلامہ طاہرالقادری اورعمران خان پرکسی ایک خراش کابھی کوئی ذکرنہیں ملے گا۔

۔جلسے ۔۔جلوس اوردھرنوں میں لاٹھیوں ۔۔مکوں۔۔آنسوگیس اورگولیوں کے لئے توبے چارے غریب پہلے ہی وقف تھے لیکن ظالم حکمرانوں نے اب شاہی قافلوں کے نیچے کچلنے کے لئے بھی غریبوں کوخاص کردیاہے ۔۔لالہ موسیٰ میں شاہی قافلے تلے کچلنے والامعصوم حامدجمہوریت نہیں بلکہ غربت کاپہلاشہیدہے ۔۔اب اس ملک کے ہرغریب کے بچے کوجمہوریت کے نام پرگاڑیوں اورقافلوں تلے اسی طرح بے دردی سے کچلاجائے گا۔

۔ظالم حکمران اورسیاستدان جوصبح شام جمہوریت جمہوریت کی راگ الاپتے ہوئے تھکتے بھی نہیں انہیں اگرجمہوریت سے اتناپیارہے تووہ اپنے بچوں کوجمہوریت کیلئے شہیدکیوں نہیں کرواتے۔۔؟کیااس ملک میں جمہوریت بچانے کے لئے بھی اب صرف غریبوں کے بچے ہی رہ گئے ہیں ۔۔معصوم حامدکے والدین کوجمہوریت اورآمریت سے کوئی لینادینانہیں ۔۔اس ملک کے غریبوں کوبھی جاگیرداروں ۔۔سرمایہ داروں اورامیروں کی طرح اپنے بچوں سے حدسے زیادہ پیارہے ۔۔نام نہادجمہوریت میں تمہاری بقاء ہے غریبوں کی نہیں ۔۔خداراغریبوں کے صبرکامزیدامتحان نہ لیں ۔۔کہیں ایسانہ ہوکہ یہی غریب اپنے کسی حامدسے پہلے آپ کے کسی حامدکوزندہ دفن نہ کردیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :