ملک کو اسلحہ سے پاک کرلیں،جرائم خود بخود ختم ہوجائیں گے!!

بدھ 16 اگست 2017

Sahibzada Asif Raza Miana

صاحبزادہ آصف رضا میانہ

اِنسٹی ٹیوٹ آف اکنامِکس اینڈ پیس ایک گلوبل تھِنک ٹینک ہے۔ یہ پوری دنیا میں مختلف ممالک کے اندر جرائم اور تشدد کے واقعات اور معیشت پرا س کے اثرات کو مانیٹر کرتا ہے اور پھر ان ممالک کی امن وامان کے حوالے سے درجہ بندی جاری کرتا ہے۔ یہ سب ماہرین کا ایک پینل کرتا ہے جِس میں دنیا کے صف اول کے تعلیمی ادارے اور ان کے پروفیسر ز ، حکومتی ادارے،یونیسیف NATO,UNDP ورلڈ بینک اور انٹرنیشنل افیئرز کے ماہرین شامل ہوتے ہیں۔

یہ ادارے اور ماہرین پوری دنیا سے ڈیٹا اکھٹا کرتے ہیں اور اس ڈیٹا کو مختلف کیٹیگریز میں بانٹ کر اور مختلف انڈیکٹیرز کی چھلنی سے گزار کرپوری دنیا کے ممالک کی امن وامان کی ایک درجہ بندی ”گلوبل پیس انڈیکس“کی صورت میں لندن واشنگٹن اور اقوام متحدہ کے ہیڈ آفِس نیو یارک سے جاری کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

کون سا ملک کتنا پُر امن ہے اور وہاں کے شہری کِس قدرپُرامن زندگی گزار رہے ہیں یہ سب اسی گلوبل پیس انڈیکس کی ریٹنگ میں پہلے نمبر پر رکھتے ہوئے اسے دنیاکا سب سے پُرامن ملک قراردیا۔

مگر ہمارے لئے شرم کی بات یہ ہے کہ دنیا کہ 163 ممالک کی اس فہرست میں امن وامان کی درجہ بندی میں پاکستان 152 ویں نمبر پر ہے ہم اس درجہ بندی میں صرف سوڈان،یمن،عراق،افغانستان اور شام جیسے ممالک سے آگے ہیں لیکن دنیا کے 151 ممالک امن وامان کے اعتبار سے ہم سے آگے ہیں۔
پاکستان کی اس عالمی درجہ بندی میں سب سے پیچھے ہونے کی دیگر کئی وجوہات میں سے سب سے اہم اور بنیادی وجہ اسلحے کی فراوانی اور اسلحے بارے مئوثر قانون سازی اور موجودہ قوانین پر عمل درآمد کا نہ ہونا ہے۔

پاکستان میں اسلحے بارے کوئی سنجیدہ کوشش اور ٹھوس قانون سازی نہ ہونے کے سبب ملک کے طول وعرض میں اسلحہ باسانی دستیاب ہوتا ہے اور پھر اسی باسانی دستیاب اور میسر اسلحے کا ملک بھر میں دہشت گردی،مسلح ڈکیتی راہ زنی قتل، اقدام قتل،اغواء برائے تاوان،ریپ،خاندانی دشمنی اور سیاسی و مذہبی ٹارگٹ کِلنگ میں آزادانہ استعمال ہوتا ہے۔ پورے ملک میں روزانہ ہونے والے سینکڑوں ہزاروں جرائم کے پیچھے سب سے بڑی وجہ اور برائی کی جڑ اسلحہ ہے۔

آپ ایک لمحے کیلئے اگر تصور کریں کہ ملک سے قانونی اور غیر قانونی اسلحے کا صفایا ہوجائے تو ملک میں جرائم کی شرح کس حد تک کم ہوجائے گی۔ ملک میں موبائل سِم خریدنے کیلئے تو ضابطہ اور قانون موجود ہے مگر ناجائز اسلحہ کیلئے کوئی مئوثر حکمتِ عملی موجود نہیں ہے۔ پاکستان کو اس سلسلے میں جاپان کے ماڈل کو کاپی کرنا چاہیے۔
جاپان دنیا کے چند ایک ایسے ممالک میں سے ہے جہاں سب سے پہلے آتش اسلحے کا استعمال شروع ہوا۔

تیرہویں صدی عیسوی میں چین سے آتشیں اسلحہ اور گولہ بارود کا استعمال جاپان منتقل ہوا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان نے جہاں دیگر بہت سے نئے اصول اور ضابطے وضع کئے ہیں اسلحے بارے انتہائی سخت قوانین نافذ کردیے تا کہ لوگ اسلحہ کے آزادانہ اور غلط استعمال سے دوسروں کیلئے نقصان کا باعث نہ بن سکیں۔ 1965 سے لاگو قانون کے تحت جاپان میں عام شہری کیلئے سیمی آٹو میٹک رائفل پستول اور ہمہ قسم کے آٹو میٹک اسلحہ کے لائسنس کے اجراء پر پابندی ہے۔

یہی نہیں عام شہری عام پستول اور بندوق رکھنے کے بھی مجاز نہیں ہیں۔ ہلکا اسلحہ رکھنے کی اجازت صرف”شکار“ اور باقاعدہ شکاری حضرات کیلئے ہے اور عام عوام کا ہلکا اسلحہ حاصل کرنا نا ممکن ہے۔ شکار کے مقصد کیلئے اسلحہ کا لائسنس اور اجازت حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ سب سے پہلے تحریری ٹیسٹ پاس کرنا ضروری ہے اور اس ٹیسٹ سے پہلے باقاعدہ کلاسز لینا اور پھر اس کے ٹیسٹ میں 95/% نمبر حاصل کرنا ضروری ہے۔

کامیاب امیدوار اس کے بعد ہسپتال جاتے ہیں جہاں ان کا مینٹل اور ڈرگ ٹیسٹ ہوتا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جائے کے اسلحے کا خواہش مند شخص ذہنی طور پر صحت مند ہے اور کسی نفسیاتی بیماری کا شکار نہیں اور نہ ہی کسی نشے کا عادی ہے۔ میڈیکل ٹیسٹ کے بعد اس شخص کا مکمل کریمینل ریکارڈ شدت پسند گروہ یا کسی جرائم پیشہ گروہ سے تعلقات تو نہیں کہ یہ اسلحہ لے کران گینگ دائرہ مذکورہ شخص کے خاندان، محلہ داروں، عزیز واقارب اور ساتھ کام کرنے والے لوگوں تک پھیلا دیا جاتا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جائے کہ اسلحہ کا خواہش مند شخص کوئی مجرم نہیں اور نہ ہی اس کا پس منظر کسی جرم سے داغ دار ہے۔

اس تمام پچیدہ اور صبر آزما رعمل سے گزرنے کے بعد ہی اس شخص کو اسلحہ رکھنے کا لائسنس دیا جاتا ہے مگر اسی پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ اسلحہ کے مالک کو مقامی پولیس اسٹیشن کو اپنے گھر میں اسلحہ محفوظ رکھنے کی جگہ کا باقاعدہ تحریری طور پر بتانا پڑتا ہے اور پولیس کو ہراستعمال شدہ گولی کا خول مع اس کے استعمال کی وجہ کے جمع کروانا پڑتا ہے
اور پولیس ہر سال میں ایک بار کسی بھی وقت مذکورہ اسلحہ کی جانچ پڑتال کرسکتی ہے۔

اور ہر تین سال بعد اسلحہ کے لائسنس کی تجدید ہوتی ہے جس میں مذکورہ بالا تمام مراحل امتحان ، میڈیکل چیک اپ ، کریمنل چیک اپ کے بعد ہی اسلحہ کا لائسنس جاری کیا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اتنے کڑے معیار کے باعث حکومت یہ یقینی بناتی ہے کہ اسلحہ کسی غلط اور غیر محفوظ ہاتھ میں نہ جائے۔ اسی وجہ سے جاپان میں اسلحہ کے ذریعے قتل کی شرح پوری دنیا میں سب سے کم ہے۔

2014ء میں امریکہ میں جہاں 13 ہزار 6 سو افراد اسلحہ کے ذریعے قتل ہوئے وہیں اسی سال 2014ء میں جاپان میں صرف ”چھ لوگ“ اسلحہ کے استعمال سے قتل ہوئے ۔ ان آپ اس کے مقابلے میں پاکستان کا موازنہ کریں۔ پاکستان میں اسلحہ بارے کوئی سنجیدہ اور مئوثر قانون موجود نہیں ہے جو جاپان کے قانون اور طریقہء کارکی طرح یہ یقینی بنائے کہ اسلحہ صرف اور صرف ایک ذمہ دار، ذہنی طور پر صحت مند اور صاف شفاف کردار کے حامل شخص کو ہی دیا جارہا ہے بلکہ اس کے برعکس جو شخص جس قدر جرائم پیشہ، منشیات کا عادی، مجرمانہ پس منظر ، جیل کا سزریافتہ ہوتا ہے وہی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اسلحہ کے لائسنس رکھتا ہے بلکہ اکثر تو لائسنس کے اس جھنجھٹ میں ہی نہیں پڑتے۔

اقوام متحدہ کے اعددو شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت کم از کم 2 کروڑ قانونی اور غیر قانونی اسلحہ ہے۔ دنیا کے 178 ممالک میں پاکستان کا چھٹا نمبر ہے جہاں پرائیوٹ اسلحہ سب سے زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یو این آفِس فار ڈرگ اینڈ کرائم کے اعدادوشمار کے مطابق اس قدر عام اسلحہ کے باعث پاکستان میں ہر سال تقریباََ 25 ہزار 500 افراد اسلحہ کے استعمال سے ڈکیتی ، قتل ، دشمنی اور دیگر وجوہات کے باعث قتل ہو جاتے ہیں۔

صرف کراچی میں ہر سال 200 افراد ٹارگٹ کلنگ میں قتل ہوئے ہیں۔ یہ تو صرف اسلحے کا جانی ضیاع ہے۔ جائزہ لیا جائے تو یہی نقصان اربوں روپے سے زائد ہوگا۔ یوں یہ اسلحہ جہاں ہمارے ملک میں بدامنی اور جانی نقصان کی سب سے اہم وجہ ہے ۔ روزانہ درجنوں گھراور ان کے اہل خانہ اسی اسلحے کے بے رحمانہ استعمال سے جان کی بازی ہار جاتے ہیں اور کئی گھرا جڑ جاتے ہیں اور کئی بچے یتیم ہوجاتے ہیں اور کئی لوگ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزاردیتے ہیں۔

خاندانی دشمنیاں زمین کے تنازعے فائرنگ اور قتل گھروں کے گھر اور خاندان کے خاندان نگل جاتے ہیں۔ تعلیم کی کمی اور شعوری آفلاس اسلحے کی فروانی ہر سال ہزاروں زندگیاں اور اربوں روپے اور اس ملک کا چین اور سکون نگل جاتے ہیں مگر ہم بنیاد کو ٹھیک کرنے کی بجائے اور بنیادی ڈھانچے کو بہتر کرنے کی بجائے ناقِص منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم دنیا کی مہذب قوموں سے سیکھتے ہوئے ان کے نقشِ قدم پر چلتے اور جس طرح جاپان نے اپنے قانون سے اسلحہ کے پھیلاؤ پر قابو پایا اور اسلحہ سے اموات کو تقریباََ صفر کردیا ہم بھی ویسا کچھ کرتے ہم نے اس کے اُلٹ کرنا شروع کردیا۔

اسلحہ کے پھیلاؤ کو سنجیدگی سے نہیں لیا کوئی سخت قانون سازی نہیں کی، اسلحہ کے کلچر کو فیشن بننے سے نہیں روکا۔ یہی سبب ہے کہ آج ہمارے گھر،دفتر،دکان،فیکٹری، بازار، پلازے ائیرپورٹ ہسپتال اور اے ٹی ایم مشین تک محفوظ نہیں ہیں۔ ہمیں ہر جگہ مسلح سیکیورٹی گارڈ کی ضرورت ہے ہم اچھا موبائل لے کر بے دھڑک سڑک پر نہیں چل سکتے کہ کب کون فون ایک پسٹل دکھا کر لوٹ لے۔

ہم نئی گاڑی لے کر رات کے بارہ بجے گھر سے باہر نہیں نکل سکتے کون کب ایک پستول دکھا کر چھین لے۔ ہم اچھی دکان،اچھا شاپنگ پلازہ، اچھا پٹرول پمپ بغیر سکیورٹی گارڈ کے ایک دن نہیں چلا سکتے کہ کب کون کس طرح سے کلاشنکوف لئے ہوئے آئے اور سب کچھ لوٹ کر فرار ہو جائے۔ ہم اچھا کھا نہیں سکتے اچھا پین نہیں سکتے کہ کب کس وقت کسی کی نظروں میں آجائیں اور وہ مسلح ہوکر ہمیں لوٹ لے یا اغواء کرکے لے جائے بے یقینی اور عدم تحفظ کا احساس روز بروز بڑھتا جا رہا ہے اور حکومت کے اقدامات میں بھی بظاہر اضافہ ہورہا ہے۔


آپ اندازہ لگائیں کہ اس وقت صرف پنجاب کی پولیس کا مجموعی بجٹ88۔ ارب 25 کروڑ روپے ہے۔ اب اگر اس میں وفاقی ایجنسیوں کا بجٹ شامل کرلیا جائے تو یہ رقم کم از کم 100 ارب روپے سے زائد ہوگی۔ ہماری حکومت ہمارے ملک اور صوبہ پنجاب کیلئے اتنی خطیر رقم خرچ کررہی ہے مگر جرائم ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ حکومت نے جرائم کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر پنجاب سیف سٹی پراجیکٹ کا آغاز کیا ۔

اس پروگرام کا مقصد پنجاب کے چند ایک بڑے شہروں سے جرائم کا خاتمہ ہے۔ جس کے تحت، لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، ملتان، بہاولپور، سرگودھا اور راولپنڈی میں تین ہزار نئے اہلکار اور 32 ہزار کیمرے لگائے جائیں گے تاکہ کیمروں کی مدد سے جرائم پر قابو پایا جاسکے۔ اس نئے پنجاب سیف سٹی پراجیکٹ کی مالیت 57 ارب 10 کروڑ روپے ہے جس کا آغاز ہو چکا ہے۔

یوں اس میں پولیس کا بجٹ بھی شامل کریں تو اگلے سال تک صوبہ پنجاب کا امن وامان کا بجٹ ایک سو ساٹھ ارب روپے سے زائد ہوگا۔
سیف سٹی پراجیکٹ ایک اچھا آغاز ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا کیمرے لگانے سے جرائم واقعی ختم ہوجائیں گے؟ آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا قتل کرنے والا یا گولی چلانے والا جب گولی چلائے گا تو کیا سیف سٹی کا کیمرہ اس چلتی ہوئی گولی کو روک لے گا؟ یقینا نہیں تو پھر کیوں نہ ایسا نظام اور قانون لایا جائے جو اس شخص کے ہاتھ سے وہ اسلحہ چھین لے تاکہ نہ اسلحہ ہوگا اور نہ ہی جرم ہوگا نہ رہے گا بانس اور نہ بجے کی بانسری، کیا ہم جاپان ماڈل کاپی نہیں کرسکتے؟
کیا ہم ملک کو اسلحے کی لعنت سے پاک نہیں کرسکتے؟ کیا ہم درہ آدم خیل کی اسلحہ ساز فیکٹریاں بند نہیں کرسکتے؟ کیا ہم اسلحہ کو صرف فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں تک محدود نہیں کرسکتے؟ اگر کرسکتے ہیں تو پھر سیف سٹی پراجیکٹ بھی خوش آئند ہیں اور کار آمد ہوسکتے ہیں اور پولیس اورعدالتوں کے کام کا بوجھ بھی ہلکا ہوسکتا ہے اور ملک میں امن وامان اور احساس تحفظ بھی قائم ہوسکتا ہے اور اگر ہم اس ملک کو اسلحے سے پاک نہیں کرتے نئے اور سخت قانون نہیں لاتے اور اسلحے کی فراوانی اور دستیابی کو بریک نہیں لگاتے تو پولیس کو 88 ارب کیا 188 ارب بھی کم پڑجائیں گے۔

سیف سٹی کے کیمرے ڈکیتوں اور قتل کی فوٹیج لے لے کر تھک جائیں گے ہمیں ہر گلی ہر محلے پر گھر پر دکان،پٹرول پمپ پر مسلح محافظ درکار ہوگا ہمیں پر نئے آئی فون اور نئی گاڑی کے ساتھ پرائیوٹ گارڈ کا انتظام بھی کرنا پڑے گا اور شاید تب بھی ہم خود کو محفوظ نہ سمجھ سکیں۔ ہم اسلحہ کے پھیلاؤ کوروک نہیں رہے اور سیف سٹی پراجیکٹ بنا رہے ہیں۔ ہم ایسا برتن بھرنا چاہ رہے ہیں جس کے پیندے میں ہی چھیدیں ہیں۔

ایسے برتن میں ساتھ سمندر کا پانی ڈال دیں تو بھی وہ خالی رہے گا۔
ہمیں اپنی بنیاد درست کرنا ہوگی ہمیں اسلحہ کے فیشن اور اس کے پھیلاؤ کو روکنا ہوگا۔ ہم اپنی بنیاد ہی درست نہیں کر رہے اور آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہم سر کندھوں کی بنیاد پر ”آئفل ٹاور“ کھڑا کرنا چاہ رہے ہیں ہم کیسے نادان لوگ ہیں!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :