انتخابی اصلاحات ، ایک خواب

بدھ 23 اگست 2017

Mubashir Mir

مبشر میر

اگست 2014ء میں دھاندلی کے خلاف تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے احتجاجی تحریک شروع کی اور پھر اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کیا، ان کے ساتھ عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر علامہ طاہر القادری بھی مساوی طور پر اپنا دھرنا چلا رہے تھے، ان کا موقف دھاندلی نہیں بلکہ پورے نظام میں تبدیلی تھی، وہ پہلے بھی 2012ء میں اسلام آباد میں دھرنا دے چکے تھے۔

126 دن کے دھرنے کے بعد تمام سیاسی پارٹیاں انتخابی اصلاحات کرنے پر متفق ہوگئی تھیں، وفاقی وزیرخزانہ محمد اسحاق ڈار کی قیادت میں 29 رُکنی کمیٹی تشکیل دیدی گئی جس نے سفارشات تیار کی ہیں۔ انتخابی اصلاحات کا بل قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد ایوان بالا میں جائے گا اور صدر مملکت کے دستخط کے بعد یہ بل نافذ العمل ہوسکتا ہے۔

(جاری ہے)

باخبر ذرائع سے مجوزہ بل کے جو مندرجات سامنے آرہے ہیں۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انتخابی اصلاحات کا یہ بل ایسے ہی تھے، جسے پاکستان میں صدر ایوب خان اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں جاگیرداری کے خاتمے کیلئے زرعی اصلاحات کی گئیں۔ لیکن آج تک جاگیرداری ختم نہیں ہوتی، ان انتخابی اصلاحات کے باوجود انتخابات میں اجارہ داری کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ انتخابی عمل کی اصل روح اس سے غائب ہے، کسی سیاسی جماعت نے کوئی ایسی شق نہیں رکھنے دی جس سے ان کی نشستوں پر فرق پڑے یا ان کے پارٹی سربراہ کے اختیارات میں کمی ہو یا پھر جمہوری روایات فروغ پائیں ، اس عمل سے یہ تو ممکن ہی نہیں کہ ملک کو بہتر اور متبادل قیادت میسر آئے۔


جمہوریت کی جو شکل اس وقت ہمارے ملک میں موجود ہے اس سے عوام کا استحصال کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اجارہ داری زیادہ مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ عوام کے مسترد کیے ہوئے لوگ کسی اور راستے سے پارلیمنٹ کا حصہ بن سکتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ سیاستدان اکثر یہ بات کہتے ہیں کہ عوام کی عدالت بہترین عدالت ہے اور انتخابات ہی عوامی عدالت ہے۔

لیکن عام انتخابات میں عوام جسے منتخب نہیں کرتے وہ خصوصی نشست پر یا پھر سینٹ کا رُکن بن کر پارلیمنٹ کا حصہ بن جاتا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ جیتنے والی پارٹی اپنے ہارنے والے منظور نظر امیدواروں کو مشیر، معاون خصوصی یا کسی ادارے کا سربراہ بناتے وقت شرم تک محسوس نہیں کرتی اور بننے والے بھی بے شرمی کی حد سے گزر جاتے ہیں ۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ ایک شخص ایک سے زائد نشستوں پر امیدوار ہوتا ہے اگر وہ چار میں سے تین پر شکست سے دو چار ہو اور ایک نشست پر جیت جائے تو کیا اُسے عوام کا منتخب نمائندہ تصور کیا جائے یا اکثریت کا مسترد کیا ہوا ۔

محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے بڑے بھائی میر مرتضی بھٹو 19 نشستوں پر امیدوار تھے۔ صوبائی اسمبلی سندھ کی ایک نشست پر جیتے جبکہ ان کی ضمانت کئی نشستوں پر ضبط تھی، لیکن کامیاب قرار دیئے گئے اور رکن سندھ اسمبلی بنے ۔
مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین قومی اسمبلی کی نشست پر ہارنے کے بعد ایوان بالا (سینٹ) کے رُکن منتخب ہوگئے۔ چھ برس تک ایوان بالا کے رکن رہے۔


موجودہ حکومت میں محترمہ ماروی میمن ٹھٹھہ سے قومی اسمبلی کی نشست پر ناکام رہیں ، ضمانت ضبط ہوئی لیکن خواتین کی مخصوص نشستوں پر رُکن اسمبلی بن گئیں ۔
ایسی کئی مثالیں ہیں جو موجودہ جمہوریت کے علمبرداروں کے سامنے رکھی جاسکتی ہیں۔ ایوان بالا کے گذشتہ الیکشن میں تو حد ہی ہوگئی۔ ڈاکٹر راحیلہ گل مگسی اور ظفر اقبال جھگڑا اچانک اسلام آباد کے رہائشی قرار دے دیئے گئے اور وہاں سے رکن سینٹ بن گئے پھر ظفر اقبال جھگڑا خیبرپختونخواہ کے رہائشی بن گئے ۔

بلکہ واپس چلے گئے اور کے پی کے کے گورنر بنادئے گئے۔۔
کراچی کے سلیم ضیاء اور نہال ہاشمی بھی پنجاب کے رہائشی قرار دیئے گئے ۔ ایم کیو ایم نے بھی اس گنگا میں ہاتھ دھوئے اور اپنے پنجاب کے صدر میاں عتیق الرحمن کو سندھ کا رہائشی قرار دلوایا اور وہ بھی ایوان بالا کے معزز رکن بن گئے، پتہ نہیں کہ ان معزز اراکین نے سچ بولا کہ نہیں 63/62 ان پر لاگو ہو گی یا نہیں ؟
یہ وہ کھلے نقائص ہیں جو کھلے عام، اس کیس کا حصہ ہیں ۔

مردم شماری کے بعد یہ توقع کی جارہی تھی کہ پاکستان میں پہلی مرتبہ شہری آبادی، دیہی آبادی سے بڑھ جائے گی۔ قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ ہوگا اور ملک میں پہلی مرتبہ اقتدار کا فیصلہ شہری آبادی کرے گی۔ لیکن الیکشن کمیشن کے اعلان کے بعد یہ خواب بھی چکنا چور ہوگیا۔ 2018ء کے الیکشن 1998ء کی آبادی کے تناسب سے نشستوں پر ہی کروانے کا اعلان کیا گیا ہے، گویا جاگیرداری ، زمینداری ، سرداری وغیرہ وغیرہ آئندہ الیکشن میں فیصلہ کن قوتیں ہونگی۔


اوورسیز پاکستانی اگر ووٹ کا حق حاصل کرلیں تو وہ بھی ایک بہت بڑی تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں لیکن ابھی تک اس کا فیصلہ نہیں ہوسکا۔ لہذا یہ بھی ایک خواب ہی نظر آرہا ہے
ایک اور خواب پاکستان کا ہر ذی شعور شہری دیکھ رہا ہے کہ الیکشن میں شفافیت کیلئے بائیومیٹرک نظام متعارف کروایا جائے۔
ہم نے بینک اکاؤنٹ ، شناختی کارڈ ، پاسپورٹ اور موبائل فون سم بائیو میٹرک کرلی ہے جو نادرا کا بڑا کارنامہ ہے۔

لیکن حیرت ہے کہ الیکشن کمیشن کو ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے بائیو میٹرک سسٹم پسند نہیں آرہا۔ بھارت میں عام انتخابات تقریباً سات مراحل میں مکمل کیے جاتے ہیں، اگر بائیو میٹرک مشین کم ہیں تو الیکشن کمیشن کو عام انتخابات مرحلہ وار مکمل کرنے کا عمل اپنا لینا چاہیے۔
ایران کے انتخابات اس لحاظ سے اہم ہوتے ہیں کہ وہاں امیدواروں کی ا سکروٹنی بہت سخت ہوتی ہے۔

عوام کو نمائندے منتخب کرنے کیلئے بہتر امیدواروں میں سے بہترین کا انتخاب کرنا ہوتا ہے جبکہ ہم کم برائی کو قبول کرنے کی روایت پر چلے آرہے ہیں
پاکستانی عوام کو جمہوریت پر اعتماد اور ایمان پختہ نہیں رہا۔ لیکن ہمیں اسی نظام میں بہتری پیدا کرنی ہے جس کیلئے ضروری ہے ووٹ کا تقدس اس لحاظ سے تسلیم کیا جائے کہ جو حقیقی نمائندہ ہو وہی اسمبلی تک پہنچنے، جعلی ڈگری، جعلی کاغذات ٹیکس چور وغیرہ وغیرہ الیکشن میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہونے چاہیے۔

اقربا پروری نے بھی عوام کا جمہوریت پر یقین متزلزل کردیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو خود دیکھنا پڑے گا کہ آخر کتنے رشتہ داروں کو نسل در نسل امیدوار بنانے پر بضد رہیں گی۔ خصوصی نشستوں پر خواتین کا انتخاب کب تک اقربا پروری کے اثر میں رہے گا۔ اگر اس کو نہ روکا گیا تو جمہوریت وسائل کو کھا جائے گی اور مسائل کی وجہ قرار دی جائے گی۔ یہ بات طے ہے کہ جس معاشرے میں اختیارات اور دولت کی تقسیم منصفانہ نہیں ہوتی وہاں کبھی امن قائم نہیں ہوسکتا۔

اس ملک کی ترقی کے امکانات محدود ہوتے جاتے ہیں، قوم کا تصور ماند پڑنے لگتا ہے ۔
اس کا واحد حل متناسب نمائندگی کا طریقہ انتخاب ہے۔ جسے پاکستان میں ضلعی سطح پر قابل عمل بنایا جاسکتا ہے۔ صوبہ پنجاب کی اجارہ داری باقی تین صوبوں میں تناؤ کی کیفیت پیدا کیے ہوئے ہے، پورے ملک میں نئے صوبوں کی تشکیل کیلئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ایوان بالا کا الیکشن ایک مذاق ہے جسے براہ راست انتخاب میں تبدیل کرنا ضروری ہے اگر ملک کیلئے صدارتی نظام بہتر ہے تو اس کیلئے ریفرنڈم کروایا جاسکتا ہے۔

جبکہ ایک فعال بلدیاتی نظام ہی وہ واحد راستہ ہے جو ملک میں نچلی سطح تک کے اختیارات اور وسائل کی تقسیم ممکن بنا سکتا ہے۔
تجاویز اس قدر ہیں کہ دفتر کے دفتر بھرے ہیں۔ عمل کا پہلے بھی فقدان تھا سو آج بھی ہے۔ مینا و ساغر موجود ہے، بڑھ کر اٹھانے والے تذبذب کا شکار ہیں۔ جرأت نظر نہیں آتی تو کہیں فہم و فراست کی کمی ہے۔
انقلابی انتخابی اصلاحات کیلئے قوم تیار ہے لیکن باگ دوڑ سنبھالے ہوئے لوگ، گھبراہٹ کا شکار ہیں۔ افسوس قائد ندارد اور حقیقی جمہوریت ایک خواب ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :