مزید کبھی نہیں…!!

جمعہ 25 اگست 2017

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

امریکی صدر ٹرمپ کے آرلینگٹن کے فوجی اڈے سے امریکی قوم سے کئے گئے خطاب کا‘ جس میں انہوں نے پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا اور اسے اسی تناظر میں سخت نقصان اٹھانے کی دھمکی دی‘ تقریباً تمام قومی‘ سیاسی اور عسکری قیادتوں سے سخت نوٹس لیا ہے کیونکہ ٹرمپ کا یہ پالیسی بیان پاکستان کیلئے کھلے اعلان جنگ کے مترادف ہے۔

دوسری طرف پاکستان اور چین نے دوطرفہ مشاورت کے عمل کو جاری رکھنے اور سٹرٹیجک ڈائیلاگ کے جلد انعقاد پر اتفاق کیا ہے۔ دفتر خارجہ کے مطابق سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ اور چین کے معاون وزیرخارجہ کونگ ڑوان ڑو کے درمیان بیجنگ میں دوطرفہ مذاکرات ہوئے ہیں۔ تہمینہ جنجوعہ نے معاون وزیرخارجہ سے مذاکرات میں علاقائی و بین الاقوامی امور بشمول جنوبی ایشیا کی صورتحال و افغانستان پر بات کی۔

(جاری ہے)

پاکستان اور چین کے دوطرفہ تعلقات کے تمام پہلووٴں بشمول دفاع، سکیورٹی تعاون، تجارت، سی پیک پر تفصیلی تبادلہ خیال بھی ہوا۔ دونوں اطراف نے دوروں کا سلسلہ جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ سیکرٹری خارجہ اور معاون وزیرخارجہ نے کثیر جہتی فورموں بشمول اقوام متحدہ اور شنگھائی تعاون تنظیم میں پالیسی رابطوں اورقریبی کوآرڈینیشن جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔

سیکرٹری خارجہ نے چین کی شنگھائی تعاون تنظیم کی چیئرمین شپ اور اگلے سال بیجنگ میں منعقد ہونے والی ایس سی او سربراہ کانفرنس کے دوران پاکستان کی طرف سے بھرپور تعاون کی پیشکش کی۔ چین نے امریکی صدر کی پاکستان پر الزام تراشی کو یکسر مسترد کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں عظیم قربانیاں دی ہیں‘ عالمی برادری کو پاکستان کی قربانیوں اور کردار کا اعتراف کرنا چاہیے۔


امریکی صدر کے بیان پر”پوری قوم“ متحد ہے، پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے بھی یہی باور کرایا ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنی ناکامیوں کا بوجھ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کررہا ہے۔ انکے بقول اب امریکہ سے یہ کہنے کا وقت آگیا ہے کہ اب ”مزید کبھی نہیں“۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان کے حوالے سے گز تقریر پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ امریکہ ہمیں ڈرا دھمکا کر دہشت گردی کیخلاف جنگ نہیں جیت سکتا‘ پاکستان کی مدد ہی اس جنگ میں فیصلہ کن امر ہے۔

دہشت گردی کیخلاف پاکستان نے اپنے خون اور پیسے سے جنگ لڑی ہے‘ امریکہ سے کوئی پیسے نہیں لئے‘ جتنی قربانیاں ہم نے دیں‘ کسی قوم نے نہیں دیں‘ ہم نے اپنے علاقہ سے تمام دہشت گردوں کا صفایا کر دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کو جہاں دہشت گردوں کی موجودگی کا شک ہے‘ وہ ہمارے ساتھ چل کر اسکی نشاندہی کریں‘ ہم ان دہشت گردوں کا صفایا کرینگے۔

ایسا نہیں ہو سکتا کہ امریکہ ہمیں کہے کہ انہیں مارو اور ساتھ ہی یہ بھی کہے کہ ان سے ہماری بات کراوٴ۔ یہ دونوں متضاد کام بیک وقت کیسے ہو سکتے ہیں۔ امریکہ اور درجنوں دوسرے ملکوں کی افوج کی جدید ترین ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کے ساتھ افغانستان میں موجودگی کے باوجود اس ملک کے 42 فیصد حصے پر طالبان کا کنٹرول ہے تو یہ ان ممالک کی ناکامی ہے۔

ہم پاک افغان سرحد پر باڑ لگا رہے ہیں اور 8 سو سے زائد چوکیاں قائم کرچکے ہیں۔ ہم امریکی اتحادی ہیں تو وہ ہمیں اپنا اتحادی ہی سمجھے اور ہمارے ساتھ مل کر جنگ لڑے۔جبکہ پاکستانی وفاقی وزیر داخلہ نے بھی ٹرمپ کی تقریر پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے باور کرایا کہ پاکستان ٹرمپ کی اعلان کردہ جنوبی ایشیائی و افغان پالیسی کی پروا کئے بغیر دہشت گردی کیخلاف جنگ جاری رکھے گا۔

پاکستان امریکہ یا کسی اور کی خوشنودی کیلئے نہیں بلکہ ملک کی سلامتی اور قیام امن کیلئے دہشت گردی کیخلاف جنگ لڑ رہا ہے جس کی اس نے بہت بڑی قیمت ادا کی ہے۔
امریکی نئی انتظامیہ اگرکسی جارحانہ پالیسی کی بنیاد پر حیلے بہانے سے پاکستان پر حملہ آور ہونا چاہتے ہیں تو ہمارے عسکری اداروں اور حکمرانوں نے بھی ملک کی سالمیت کے تحفظ و دفاع کے تقاضے بہرصورت نبھانے ہیں جس کیلئے ٹرمپ کے بیان کی بنیاد پرآج پوری قوم اتحاد و یکجہتی کا عملی نمونہ بن گئی ہے۔

گزشتہ روز جہاں پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ٹرمپ کے پاکستان پر دہشتگردوں کی حمایت کے الزام کو مسترد کیا اورباور کرایا کہ دہشتگردی کی جنگ میں سب سے زیادہ پاکستان نے ہی قربانیاں دی ہیں جسکے 73 ہزار شہری اور سکیورٹی اہلکار اس جنگ میں شہید ہوئے ہیں‘ وہیں سابق صدر مملکت اور پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر آصف علی زرداری نے بھی ٹرمپ کو باور کرایا کہ وہ ہمیں دھمکیاں نہ دیں‘ ہم پائی پائی کا حساب کرینگے۔

ہم نے سخت جدوجہد اور ذہانت سے پاکستان کو بچانا ہے۔ اگر ٹرمپ کو دہشت گردی کی جنگ لڑنی ہے تو وہ افغانستان میں یہ جنگ لڑیں۔ یہی وقت ہے ہمیں قومی یکجہتی کے تحت امریکہ کے اس دہرے کردار کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔ اس تناظر میں اب مناسب یہی ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں اپنی جنگ خود لڑنے دی جائے جہاں طالبان آج بھی اسکی مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں اور ٹرمپ انتظامیہ کو باور کرارہے ہیں کہ اگر اس نے افغانستان سے اپنی فوجیں نہ نکالیں تو افغانستان کو امریکی فوج کا قبرستان بنا دیا جائیگا۔ ہمیں اس پرائی آگ میں خود کو مزید جھلسانے کی کیا ضرورت ہے۔ ہمیں صرف دفاع وطن کے تقاضے نبھانے سے ہی سروکار ہونا چاہیے جو مثالی قومی اتحاد و یکجہتی کا متقاضی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :