کتابیں اپنے آباء کی

اتوار 27 اگست 2017

Sajid Khan

ساجد خان

پاکستان میں آج کل ہماری سیاست اور ریاست جمہوریت کے لیے سرگرم عمل ہے۔ ہماری ستر سال کی تاریخ میں اب جمہوری دور زیادہ نظر آتا ہے۔ اگرچہ جمہوری دور میں ہی شخصیت پرستی کو جمہوری اقتدار میں شامل کرلیا گیا۔اب تک سب سے کامیاب جمہوری دور سابق صدر آصف علی زرداری کے زمانہ صدارت میں رہا۔ انہوں نے اپنے دو وزیراعظموں کو شاہراہ جمہوریت پر قربان کردیا اور جمہوری طرز حکومت کے فروغ میں اپنی حیثیت منوالی۔

ستر سال کی تاریخ میں آمریت کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ محسوس کیا گیا اوردوسری طرف سیاسی اشرافیہ جواب جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا مضبوط سیاسی گروہ بن چکا ہے وہ بھی جمہوریت کی جنگ میں بڑی سنجیدگی سے غیر سنجیدہ سیاسی کردار ادا کررہا ہے۔ جمہوریت ایک معاشی نظریہ نہیں یہ ایک سماجی رویہ ہے۔

(جاری ہے)

اس سماج میں بدلا تو نظرآتا ہے مگر ہمارے سماجی اورجمہوری رویئے مثبت نظر نہیں آتے۔


آج کل کے جمہوری دور میں ہماری سینٹ جس کو عوام کے قومی اسمبلی کے ممبران منتخب کرتے ہیں پھراکثریت کے تناظر میں چیئرمین کا چناؤ ہوتا ہے۔ اس وقت پاکستان کے سینٹ کے چیئرپرسن رضاربانی ہیں۔ پرانے جیالے ہیں اور ان کی انفرادیت کتاب پرستی ہے۔ ان کی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کے بارے میں کچھ کچھ جانکاری تو ملتی ہے۔ اس سے پہلے ”یادِ جمہوریت“ اور ”دستور گلی“ کے لیے سینٹ کے ممبران نے تقریب کا انتظام کیا اورنیک نامی کمانے کی کوشش کی۔

دوسری طرف ان کی پارٹی کے صدابہار لیڈر اور سیماب صفت سابق صدر آصف علی زرداری ان کو نظریاتی نہیں مانتے اور نظریہ کے حوالہ سے سینٹ میں اپنے سنیٹر اعتراز احسن کو فوقیت دیتے نظر آتے ہیں۔ آصف علی زرداری کی شخصیت کافی پراسرار سی ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کی جنگ بھی پراسرار سی ہے۔ ہماری جمہوریت پر ہمارا پرانا مہربان امریکہ کبھی بھی خوش نہیں ہوا۔

وہ ہمارے سیاسی لوگوں میں نیک لوگوں کی تلاش میں رہتا ہے۔ وہ امداددینے کے بعد اخباروں میں اشتہار بھی لگواتا ہے کہ اگر ان کی امداد میں خوردبرد ہو تو براہ راست امدادی ملک کو خبردو۔ وہ کبھی بھی اطلاع پر کارروائی نہیں کرتا۔ اس کے اپنے ملک میں جمہوریت کے ساتھ جو ڈرامہ ہورہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ صدر امریکہ کو غیرجمہوری شخص کے طور پر شناخت کیا جارہا ہے اور کوشش ہورہی ہے کہ ان کو نااہل قرار دے دیا جائے۔


کمال کی بات ہے جمہوری دور میں عوام کی اکثریت مرحوم مہربانی نظرآتی ہے۔ ہمارے ہمسائے میں دنیا میں بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی مودی سرکار جس طرح سے سرکار چلا رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے وہ کتنا جمہوریت دوست عمل ہے۔ ایک طرف انتخابات ہوتے ہیں اور لوگوں کے نمائندے اسمبلی میں آتے ہیں۔ دوسری طرف لوگ آزادی اور خودمختاری کے لیے گرفتاریاں دے رہے ہیں۔

ریاستی انتظامیہ تشددکررہی ہے تو وزیراعظم بھارت کوخیال آتا ہے کہ کشمیری جنتا کو محبت کی ضرورت ہے۔ ہائے یہ ضرورت ہی تو مار دیتی ہے اور جمہوریت کی ضرورت ہی عوام کو بے بس اور پریشان کرتی ہے۔ امریکہ بہادر کو کشمیر کے لوگ نظر نہیں آتے۔ وہ ان کے لئے غیر جمہوری عینک استعمال کرتا ہے اور پاکستان کے لئے اس کے پاس ایک اور طرز کی جمہوری نظر ہے ۔

اب کی بار افغانستان کے حالات نے امریکی فوج کوویت نام کے بعد سب سے زیادہ کام دکھا یا ہے اور اس کو غصہ پاکستان پر ہے اور ہم بھی مفت میں اس کے غصے کو اہمیت دے رہے ہیں۔ سینٹ کے چیئر مین رضا ربانی نے بھی امریکی ناراضی پر ردعمل دیااور موصوف نے بیان جاری کیا”امریکہ نے غلطی کی تو پاکستان ان کے فوجیوں کا قبرستان بنے گا“ ان کو کون بتائے، پاکستان امریکہ سے جنگ نہیں کررہا اور امریکہ کوہلہ شیری دینے کی ضرورت بھی نہیں۔

جمہوری دور میں ایسا بیان دینا ضروری ہوتا ہے اور چیئرمین نے اپنا حصہ ڈال دیا خواہ اس کا کوئی بھی نتیجہ نکلے۔ بس ہم سب لوگوں کے لیے امتحان دنیا ضروری ہوتا ہے۔ خواہ تیاری ہو یا نہ ہو۔ امتحان ہی تو عوام کو صبر اور ہمت دیتا ہے۔ نئی امریکی پالیسی پر ہماری سرکار مسلسل غوروفکر میں مبتلا ہے اور امریکی پالیسی کے آتے ہی ہمارے وزیراعظم جناب شاہد خاقان عباسی نے اپنے پہلے غیر ملکی دورہ کا آغاز کیا۔

اگرچہ اس دورہ کا منصوبہ تو اس ہی دن شروع ہوا تھا جب آپ جناب کو میاں نواز شریف کی جگہ وزیراعظم بنایا گیا۔ ہمارے وزیراعظم جناب عباسی زندگی کے ابتدائی عملی سال سعودی عرب میں گزار چکے ہیں اور سعودی اہم لوگوں سے تعلق خاطر بھی ہے۔ اب نئی امریکی پالیسی کے بعد دفتر خارجہ کے مشورے کے بعد سعودی عرب سے بات چیت ضروری ہوگئی تھی دوسری طرف سعودی عرب کو بھی قطر کی وجہ سے امریکی پالیسی پر تحفظات ہیں۔

میاں نواز شریف کی سرکار کے آخری دنوں میں سعودی عرب سے گرم جوشی کمزوری کا شکار تھی کچھ غلط فہمیاں جنرل راحیل شریف کے حوالہ سے بھی تھیں۔ اب نئے وزیراعظم کو موقع مل گیا ہے کہ ان تعلقات میں تجدید نوکی جائے ۔ اگرچہ امریکی امداد کی بندش کے بعد ہم کواپنے اخراجات کے بارے میں خودکفالت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب سے مالی امداد کی ضرورت نہیں مگر وزیر خزانہ کے سابقہ اقدامات کے بعد ملکی معیشت شدید خدشات سے دوچار ہے۔

نئے وزیراعظم کے لیے حالات اتنے آسان نہیں ہیں۔ ایک طرف ملکی سیاست طوفانی کیفیت سے دوچار ہے اور ملکی عدالتی نظام سیاست کی نظر ہورہا ہے اور سب کچھ ایک جمہوری دور میں ہورہا ہے۔ ہمارے سیاسی لوگوں میں سے صرف کپتان عمران خان اور سابق صدر آصف علی زرداری نے واضح طور پر امریکی پالیسی پر اظہار خیال کیا اور شاہد خاقان عباسی کی سرکار کو اخلاقی مدد فراہم کی ہے اور حوصلہ دیا ہے کہ امریکی پالیسی کا جواب دینا ضروری نہیں اور ایک ہی جواب کافی ہے اگر وہ دوبارہ کہتے ہیں ڈومور تو بس آپ کو جواب ہونومور (Do more Sory no more )ہمارے قومی اسمبلی کے سپیکر صاحب کو معاملات کا اندازہ نہیں ہوتا۔

اس دفعہ جب اجلاس شروع ہوا تو ممبران کی تعداد بہت ہی کم تھی اور چار درجن سے زیادہ کابینہ کے ممبران کی اکثریت غیر حاضر تھی اور ایسی صورت میں مسلم لیگ سرکار کے چیف ویپ کو شدیدشرمندگی کا سامنا تھا۔حزب اختلاف کے لیڈر خورشید شاہ کا بیانیہ بہت ہی پر آشوب تھا اور سپیکر عزت مآب ایاز صادق کا چہرہ ندامت سے بھر پور لگا مگر اشرافیہ اور سیاسی لوگوں کا گروہ اسمبلی کی اہمیت کو ہمیشہ ہی نظر انداز کرتا آیا ہے۔

اس اسمبلی نے آج تک عوامی مسائل کو اہمیت نہیں دی اور اس نئی امریکی پالیسی پر اجلاس بلانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی چیئر مین سینٹ نے حالیہ دنوں میں ایک کتب خانہ کے لیے تقریب کا اہتمام بھی کیا۔کوشش اور عزم تو کمال ہے کیونکہ جناب کتاب پرست اور اصول پرست ہیں اس لیے کتب خانہ کی تقریب ایک سنگ میل ہوسکتا ہے۔ ہماری سینٹ کے تمام ممبران کو مشہور کتاب”کتابیں اپنے آباء کی“ پڑھنے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے کچھ روشنی سی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :