تاحیات نااہلی اور 12 سوالات

منگل 29 اگست 2017

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کے فیصلے کیخلاف سابق وزیراعظم نوازشریف کے بعد انکے بچوں حسین و حسن نواز، مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر نے بھی نظر ثانی درخواستیں دائر کر دی ہیں۔ حسین، حسن، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی جانب سے دو نظرثانی درخواستیں دائر کی گئیں۔ کی ایک درخواست پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کیخلاف اوردوسری تین رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی۔

درخواست میں موقف اپنایاگیا ہے کہ جے آئی ٹی تحقیقات انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔ عدالتی فیصلے میں ججز کی آبزرویشنز سے متعلقہ فورم پر کارروائی متاثر ہو گی، درخواست میں کہاگیا ہے کہ ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ نیب اسکیم کے برعکس ہے،درخواست میں سابق وزیر اعظم کے بچوں کی جانب سے کہاگیا ہے کہ جے آئی ٹی تحقیقات نا مکمل تھی،تحقیقات اس قابل نہ تھیں کہ جس پر ریفرنس دائر ہو سکے،حسین نواز، حسن نواز اور مریم نواز کی جانب سے درخواست میں 28جولائی کے فیصلے سے متعلق کہاگیا ہے کہ فیصلے میں سقم ہیں۔

(جاری ہے)

سابق تاحیات نا اہل وزیراعظم نے مطالبہ کیا ہے کہ پانامہ کیس کا فیصلہ واپس لیا جائے۔ کیس کے حوالے سے وکلا کے سامنے 12 سوالات رکھ دئیے۔ نواز شریف کے مطاقب وہ عرصہ سے پاکستان، جمہوریت اور عوام کا مقدمہ بڑی عدالت میں لڑ رہے ہیں۔ پانامہ پیپرز کا مقصد ملک میں سیاسی بحران پیدا کرنا تھا۔ وکلا ہمیشہ قانون کی حکمرانی کے علمبردار رہے اور عدلیہ کی آزادی کیلئے انہوں نے جاندار تحریکیں چلائیں، سختیاں برداشت کیں۔

وکلا پر آج بھی بھاری ذمہ داری ہے۔ یہ جدوجہد کسی فرد واحد یا چند افراد کیلئے نہیں بلکہ آئین کی بالادستی کیلئے ہے۔ پانامہ کیس کا ایک فیصلہ 20 اپریل دوسرا 28 جولائی کو سامنے آیا۔ پہلے فیصلے میں درخواستوں کو بے بنیاد قرار دیا گیا جبکہ دوسرے میں وہی درخواستیں بامقصد ثابت ہو گئیں۔ چند سوال ایسے ہیں جو عام شہری کو بھی پریشان کرتے ہیں۔ میں آپ کے اور قوم کے سامنے یہ سوال رکھ رہا ہوں۔

پہلا سوال یہ کہ کیا آج تک کبھی ایسا ہوا کہ واٹس اپ کال کے ذریعے تفتیش کرنے والوں کا انتخاب کیا گیا ہو؟ دوسرا سوال کہ کیا آج تک اس قسم کے الزاات کی تحقیق کیلئے سپریم کورٹ نے اس طرح کی جے آئی ٹی تشکیل دی؟ تیسرا سوال کہ کیا قومی سلامتی اور دہشت گردی سے ہٹ کر کسی معاملے کی تحقیق کیلئے خفیہ ایجنسیوں کو ذمہ داری سونپی گئی؟ چوتھا سوال یہ ہے کہ کیا آج تک سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے جے آئی ٹی کی ہمہ وقت نگرانی کی؟ پانچواں سوال ہے کہ کیا کسی بھی درخواست گزار نے دبئی کی کمپنی اور میری تنخواہ پر نااہلی کی استدعا کی تھی؟ چھٹا سوال ہے کہ کیا کوئی عدالت واضح قوانین کو نظرانداز کر کے مطلب کے معنی نکالنے کیلئے کسی ڈکشنری کا سہارا لے سکتی ہے؟ ساتواں سوال ہے کہ ہماری 70 سالہ تاریخ میں کبھی ایسا ہوا کہ ایک مقدمے میں چار فیصلے سامنے آئے ہوں؟ آٹھواں سوال ہے کہ کیا کبھی وہ جج صاحبان پھر سے کسی بنچ میں شامل ہو سکتے ہیں جو پہلے ہی اپنا فیصلہ دے چکے ہوں؟ نواں سوال ہے کہ کیا ان جج صاحبان کو جے آئی ٹی کی رپورٹ پر فیصلہ کرنے کا حق تھا جنہوں نے جے آئی ٹی رپورٹ کو نہ دیکھا نہ اس پر بحث کی؟ دسواں سوال ہے کہ کیا عدالتی تاریخ میں کبھی ایسا ہوا کہ نہ صرف نیب کی کارروائی اور ٹرائل کورٹ کی نگرانی کیلئے سپریم کورٹ کے ایک ایسے جج کو لگا دیا گیا ہو جو پہلے ہی فیصلہ دے چکا ہو؟ گیارہواں سوال ہے کہ کیا سپریم کورٹ کے جج کی زیرنگرانی ٹرائل کورٹ آزادانہ کام کر سکتی ہے اور بارہواں سوال یہ ہے کہ کیا نیب کو اپنے قواعد و ضوابط سے ہٹ کر کام کرنے کیلئے عدالتی ہدایت دی جا سکتی ہے؟ نواز شریف نے کہا کہ غلط بنیادوں پر غلط انداز میں کیا گیا یہ فیصلہ واپس لیا جائے۔

ہم نے اس فیصلے پر عملدرآمد کرنے میں لمحہ بھر تاخیر نہیں کی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ غلط اور افسوسناک نظیر بنانے والے اس فیصلے کو دل و جاں سے تسلیم بھی کر لیا جائے۔ تمیز الدین کیس سے ظفر علی شاہ کیس تک ایسے فیصلے کس نظر سے دیکھے جاتے ہیں آپ کو معلوم ہے۔ تاریخ نے اس فیصلے کو بھی انہی فیصلوں والی الماری میں ڈال دیا جو بے توقیر ہو چکے۔ صدیوں کا مسلمہ اصول ہے کہ انصاف نہ صرف ہونا چاہئے بلکہ ہوتا ہوا دکھائی بھی دینا چاہئے۔

کہتے ہیں کہ نواز شریف کی کسی سے نہیں بنتی، ممکن ہے مجھ میں کمزوری یا کمی ہو، لیکن لیاقت علی خان سے اب تک کسی ایک کی تو بنتی۔ کیا 18 کے 18 وزیراعظم نواز شریف تھے۔ ایسے فیصلے خود عدلیہ کے وقار، ساکھ پر بھی منفی اثرات ڈالتے ہیں۔ ہمیں اس سوراخ کو بند کرنا ہے جس سے بار بار جمہوریت اور عوامی مینڈیٹ کو ڈسا جاتا ہے۔ پانامہ پر فیصلہ عوام کی پراپرٹی بن چکا جس پر عوامی رائے دی جا رہی ہے اور دی جاتی رہے گی۔

مسلم لیگ ن نے جس ڈائیلاگ کا آغاز کیا ہے اس کا مقصد یہی ہے کہ ہم بیماری کی نہ صرف تشخیص کریں بلکہ اس کا علاج بھی تجویز کریں تاکہ آئین پاکستان کی جانب سے عوام کو دیئے جانے والے ووٹ کے تقدس اور اس سے ملنے والے اختیار کے استعمال کو یقینی بنایا جا سکے۔ میری جدوجہد یا تبدیلی خواہش یا انقلاب کی آرزو کا حاصل یہی ہے کہ اس ملک کے 20 کروڑ عوام کا حق حکمرانی تسلیم کیا جائے۔

یہ صرف چند سوالات ہیں جو ہر پاکستانی قانون سے پوچھ رہا ہے ہم نے ریویو پٹیشن میں ان سوالات کو بھی اٹھایا ہے۔ ہماری 70 سال کی تاریخ میں آئین و قانون کی بالادستی سوالیہ نشان بنا رہا- 1970 میں پہلے آزادانہ انتخابات ہوئے لیکن جب ان انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کیا گیا تو ملک دولخت ہو گیا- دستور میں آئین کو توڑنے کو جرم قرار دیا گیا لیکن آرٹیکل چھ کے تحت کسی بھی آئین شکن کا ٹرائل نہیں کیا گیا- ذوالفقار علی بھٹو کو پہلے اقتدار سے نکالا گیا اور پھر پھانسی پر چڑھا دیا گیا- بے نظیر بھٹو کو دوبار اقتدار ملا مگر انہیں دونوں بار فارغ اور پھر قتل کر دیا گیا- مجھے پہلی بار اقتدار ملا تو 58 ٹو بی کے ذریعے، دوسری بار ڈکٹیٹر نے شب خون مار کر اٹک قلعہ میں ڈال دیا، پھر تیسری بار قوم نے منتخب کیا تو عدالت نے عدالتی فیصلہ کے ذریعے مجرم قرار دے کر نااہل کر دیا گیا-جمہوری اداروں کی مضبوطی میں کردار ادا کرنا ہوگا۔

ووٹ کے تقدس کے مشن میں میرا ساتھ دیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :