”بیانیہ، بہانہ“ اور عام نتخابات 2018

جمعرات 31 اگست 2017

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

عوامی بجٹ 2018 پاکستان مسلم لیگ ن کے جدید عباسی وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کی”کابینہ“ پیش کرے گی یا ”پھر“…، اس سوال پر گفتگو سے پہلے عام انتخابات مئی2018 میں ہو سکیں کے نہیں پر کچھ بات کر لی جائے،الیکشن کمیشن جس کے اختیارات اور حدود پہلے ہی متنازعہ ہے نے اب ایک اور”بیانیہ“ جاری کرکے قوم کو پریشان اور موجودہ ”اسمبلی“ کو خوش کر دیا ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق مردم شماری کے نوٹیفکیشن میں تاخیر پر حلقہ بندیاں نہیں ہو سکیں گی،پاکستان کی پہلی سوشل میڈیا نیوز ایجنسی میڈیا ڈور کی ایک رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ متعلقہ اداروں کو اگاہکیا گیا ہے کہ مردم شماری کے نتائج جلد جاری نہ ہوئے تو اگلے سال عام انتخابات سے پہلے نئی حلقہ بندیاں مشکل ہو جائیں گی۔

(جاری ہے)

جاری مراسلے کے مطابق الیکشن ایکٹ 2017 کی روشنی میں مردم شماری کے بعد حلقہ بندیاں کرنی ہیں، ابتدائی نتائج کے مطابق اسمبلیوں کی نشستوں میں تبدیلی ضروری ہے، مردم شماری کے حتمی نوٹیفکیشن میں تاخیر ہوئی تو نئی حلقہ بندیاں نہیں ہو سکیں گی اور انتخابات موجودہ حلقہ بندیوں پر کرانا پڑیں گے۔ کہ سیکرٹری قانون ایسے قانونی اور انتظامی اقدامات کریں کہ مردم شماری کے نتائج جلد شائع ہو سکیں، الیکشن کمیشن اس کے بعد ہی نئی انتخابی حلقہ بندیوں کی آئینی اور قانونی ذمہ داری پوری کر سکے گا۔

جہاں تک مردم شماری کی شفافیت کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں سیکرٹری شماریات رخسانہ یاسمین اور چیف شماریات آصف باجوہ نے قائمہ کمیٹی کو مردم شماری کے طریقہ کار اور نتائج کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ مردم شماری دو مراحل میں فوج کی نگرانی میں مکمل کی گئی۔ تمام فارمز کی سکینگ کا عمل جاری ہے، مردم شماری کیلئے ایک لاکھ20ہزار اینومینیٹرز کو تربیت فراہم کی گئی اور ملک کو 1لاکھ68 ہزار بلاکس میں تقسیم کیا گیا۔

ایک بلاک میں 2سو سے 250گھر شامل کیے گئے۔ گھر کے سربراہ کا شناختی کارڈ نمبر ریکارڈ کر کے تصدیق کی گئی۔42ہزار فارمز میں سے 8فیصد عملی چیک کیے گئے۔ پاک فوج کے 2لاکھ فوجی مردم شماری کیلئے متعین کیے گئے جن میں سے 44ہزار نے اینو مینیٹر کے طور پر ڈیٹا مرتب کیا۔ فوج کا کام سیکیورٹی،شفافیت اور کریڈبیلٹی فراہم کرنا تھا۔تصدیق کیلئے ہر ضلع کے فارمIIکا 8فیصد آئی سی آر کے فارم کے ساتھ موازنہ کیا گیا۔

چھٹی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 20کروڑ 70لاکھ ہے اور شرح نمو 2.4فیصد ہے۔ اسلام آباد اور بلوچستان کی شرح نمو سب سے زیادہ ہے جبکہ 1998کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 13.23کروڑ تھی۔ ملکی آبادی میں 1998کی نسبت 2017میں خیبر پی کے کی آبادی 13.4سے بڑھ کر14.7فیصد، بلوچستان کی 4.9سے بڑھ کر5.9، فاٹا کی2.4سے2.41 ، سندھ کی23.00سے23.05فیصد، اسلام آباد کی 0.61سے0.9فیصد جبکہ صوبہ پنجاب کی 55.63سے52.95فیصد پر مشتمل ہے۔

قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ لاہور کی بانڈری لائن میں بھی اضافہ کیا گیا اور دیہی آباد ی کی نسبت شہری آباد ی میں زیادہ اضافہ ہو اہے اور صوبہ سندھ کی شہری آباد ی میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی14.9ملین، لاہور کی11.1، فیصل آباد3، راولپنڈی2.1ملین پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں مردوں کی تعداد 106.45ملین، خواتین کی تعداد101.3ملین ہے۔

مردم شماری کیلئے پورے ملک کو 150ایڈمن اضلاع اور 458مردم شماری اضلاع میں تقسیم کیا گیا۔ ملک کی ایک تہائی آبادی کے پاس شناختی کارڈ نہیں۔مردم شماری کے دوران 20فیصد شناختی کارڈز کی نادرا سے تصدیق بھی کرائی گئی۔ آصف باجوہ نے کمیٹی کو بتایا کہ فوج اور وزارت شماریات کے پاس مردم شماری کا ایک ہی ریکارڈ موجود ہے۔ مردم شماری میں خود کو خواجہ سرا ظاہر کرنے والوں کو شامل کیا گیا ہے۔

مردم شماری کے حوالے سے نتائج پر جذباتی طور پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں اگر کسی کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں تو آگاہ کریں ان کی تصدیق کرائی جائے گی۔ اعتراضات دور کیے جائیں گے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ مردم شماری کے دوران بلوچستان میں 63 بچوں والا شخص بھی سامنے آیا تھا۔مردم شماری میں بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کو شمار نہیں کیا گیا۔ سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ شرح نمو میں کمی دکھائی جارہی ہے جبکہ حقیقت میں آبادی کو کنڑول کرنے کیلئے کسی بھی حکومت نے اقدامات نہیں اٹھائے۔

اراکین کمیٹی نے آبادی میں اضافہ کی شرح پر تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 42ملین گھروں کے سربراہوں کے شناختی کارڈز میں سے 6.5ملین کی تصدیق بھی کرائی گئی۔ سینیٹر زمحسن عزیزاور سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ہم سے رابطہ کیے بغیر ہمارے ملازمین سے معلومات حاصل کی گئی ہیں جس پر چیف شماریات نے کہا کہ گھر کے کسی فرد کے پاس شناختی کارڈ کی موجودگی میں معلومات حاصل کی گئی ہیں۔

دوسری طرف خورشید شاہ نے کہا پاک فوج کے پاس مردم شماری کے الگ نتائج ہیں، کراچی کی آبادی کے بارے میں کہا گیا 2 کروڑ ہے لیکن اب کہا جا رہا ہے کہ کراچی کی آبادی کم ہوگئی ہے۔ جنوبی وزیرستان میں خانہ شماری کے بلاکس تھے جس کے تحت وہاں مردم شماری کی گئی ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں نتائج پیش کیے تب کسی وزیر اور صوبے کی جانب سے اعتراض نہیں اٹھایا گیا یہ اعتراضات بعد میں سامنے آئے ہیں۔

آصف باجوہ نے کے مطابقہم نے صرف 65لاکھ افراد کے شناختی کارڈز کی تصدیق کروائی۔ نادرا کے پاس صرف13کروڑ افراد کا ڈیٹا ہے، باقی سات کروڑ افراد کا ڈیٹا نادرا کے پاس نہیں۔ چیف شماریات کا کہنا تھا کہ مردم شماری نتائج میں خواجہ سراوٴں کی تعداد اس لیے کم ہے کہ یہ رسپانڈنٹ بیس ہے ، چیف شماریات کا کہنا تھا ہم نے ان تمام افراد کو شمار کرنا ہے جو پاکستانی ہیں اور یہاں کے مقامی ہیں، بلا تفریق شہریت، قانونی و غیر قانونی تمام افراد کو شمار کیا گیا ہے جبکہ بیرون ملک مقیم پاکستانی اس مردم شماری میں شمار نہیں کئے گئے۔

مردم شماری کے عمل میں صوبائی حکومتوں کے ملازمین نے کام مکمل کیا ہے،چیف شماریات کا کہنا تھا کہ جب آپ نتائج کو مسترد کر رہے ہیں تو ہم یہ جاننے کیلئے حق بجانب ہیں کہ کس بنیاد پر مسترد کر رہے ہیں؟ چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ 24 بلاکس کو بطور نمونہ چن لیا جائے، کمیٹی نے 1680 بلاکس میں دوبارہ سروے کی سفارش کر دی۔دو شہروں میں شہری اور دیہی آبادی کے ضابطوں کی وجہ سے فرق آ سکتا ہے لیکن اپوزیشن جماعتوں نے شکایت کی ہے رگنگ اگلے برس ہونے والے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کو اکثریت کی وجہ ہو سکتی ہے۔

قارئین محترم اس سلسلے میں راقم الحروف کا موقف ہے کہ نئی حلقہ بندیاں” نہ ہو سکنے“ مردم شماری کے حتمی نوٹیفکیشن کے ”بیانیہ، بہانہ“ کو ”اصلی“ رنگ دے کرآئندہ عام انتخابات کو لیٹ کر دیا جائے گا جو کہ قوم کے ساتھ غداری کے مترادف ہوگا ۔ مردم شماری جس پر17ارب سے زائد خرچ ہوئے اور نتائج پر بے شمار اعتراضات اٹھائے گئے ہیں کے حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ حتمی رپورٹ”شاید“ اپریل 2018تک مرتب کر لی جائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :