پی پی پی: گردش زمانہ بھی نہ سنبھال سکا جسے

جمعہ 15 ستمبر 2017

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

سیاسی پارٹیوں کے تحلیل ہونے کا عمل ایک دوسرے اور خود اپنے آغاز سے بالکل مختلف بھی ہوسکتا ہے۔ ایسے مظاہر بھی دیکھے گئے ہیں کہ بعض پارٹیاں بننے کے عمل کی طوالت کے نذر ہوکرپوری نشوونما اورتکمیل کے بغیر ہی تحلیل ہونے کے مراحل پر پہنچ جاتی ہیں اور بعض پارٹیاں بہت ہی قلیل وقت میں توانا اور طاقتور بن کر لوگوں کو حیران کردیتی ہیں۔

پارٹیوں کے بننے یا تحلیل ہونے کا عمل مختلف محرکات،واقعات،ضروریات اور بہت سے عوامل کے تال میل یا ٹکراؤ کے ردعمل کی بنا پر مختصر ترین یا طوالت اختیار کرجاتا ہے،بعض اوقات کچھ پارٹیوں کی تحلیل یا خاتمے کا وقت اتنی طوالت اختیار کرجاتا ہے کہ سیاسی،سماجی ماہرین، مشاہدین اور سیاسی کارکنان بار بارغلط فہمیوں کے ہچکولوں میں ڈوبتے ابھرتے رہتے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ کوئی قانون نہیں ہے کہ کہ اپنے جنم پر ایک خاص تاثر اور کردار کی حامل سیاسی پارٹی پھر اگلے تمام عرصہ میں اسی ڈگر کی طرف گامزن رہے جہاں سے اسکا جنم ہوا ہو۔بعض اوقات تو پارٹیوں کا آغاز اور پھر مختلف مدارج پر انکا کردار بالکل ہی متضاد بن جاتا ہے ۔ایسے تضاد ت کبھی بہت مختصر اور کبھی ایک طویل ترین عرصے میں پارٹیوں کی اتھل پتھل اور انجام کے مراحل طے کرتے ہیں۔

ایسے ہی کسی سیاسی دھماکے یا سانحے پر سماجی،عوامی اور سیاسی ردعمل یکساں نہیں ہوتا کیونکہ متذکرہ بالا عوامل بھی اپنی ساخت کے اعتبار سے کسی اکائی کی نشاندہی نہیں کررہے ہوتے۔یقینی طور پر کشمکش کے عالم میں جب مختلف نظریات،سوچ کے دھارے اور طبقاتی مفادات باہم برسرپیکار ہوں تو یہ سارا عمل اپنے تاثر کے اعتبارسے بھی پچیدہ ہوجاتا ہے۔ مایوسی اور امید‘دن رات کی طرح منظر بدلتے رہتے ہیں۔

ہمیشہ قوتوں کا توازن اور انکے اثرات ہی فیصلہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ پاکستان میں جہاں سیاسی پارٹیوں کی نظریاتی تقسیم کا معاملہ اب تاریخ کے اوراق میں دبتا جارہاہے،کا سیاسی منظر نامہ ہمیشہ سے ایسے نہیں تھا، خاص طور پر محنت کش طبقے کے تحرک اور عوام کی اعلی شعور کی حامل پرتوں کے عمل کے میدان میں ہونے کی صورت میں کیفیت یکسر مختلف تھی۔کسی عہد کا تعین بھی تو کوئی مافوق الفطرت قوت نہیں کرتی ،محنت کش طبقے کی فکری،ذہنی ، سیاسی ،سماجی ،سیاسی اور عملی کیفیات کے مدوجذر ہی کسی سماج کے ارتقاء پر فیصلہ کن اثرات مرتب کرتے ہیں۔

یقینا یہ بھی ایک پچیدہ عمل ہوتا ہے اور اسکا ردعمل بھی۔ حکمران طبقے کی سوچ اور انکے مفادات کے لئے کام کرنے والی سیاسی پارٹیاں ہماراموضوع نہیں ہیں ، ہمارے ارتکاز کا محور ایک ایسی پارٹی ہے جس کا جنم اور موجودہ کردار کسی طور مماثلت رکھتاہے اور نا ہی وہ اپنے جنم اور انقلابی ارتقاء کی(مدت کے اعتبار سے مختصرترین مگر اثرات کے اعتبار سے طویل ) تاریخ کو اپنے موجودہ کردار سے جوڑنے کی خاصیت رکھتی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی ایک طویل عرصہ تک پاکستان کے محنت کش طبقے کی روایتی پارٹی کے طور پر اکثریتی مزدوروں،کسانوں اور سماج کی نچلی پرتوں کے لئے کشش کا باعث رہی ہے۔ یقینی طور پر اسکی وجہ 68-69ء کی انقلابی تحریک اور اسکے اثرات تھے۔اگلے عرصے میں محنت کش طبقے کی پرتوں کے شعور پر‘انکی نجات اور پیشرفت کیلئے پیپلزپارٹی کا تصور ہی ابھرتارہا ہے۔

اگر چہ محنت کش طبقے کی ایڈوانس پرتوں کو ستر کی دھائی کے ابتدائی سالوں میں اپنے تصور کو (ناگوارہونے کے باوجود )بدلنا پڑا تھا۔تب جب پیپلز پارٹی اپنے ابتدائی پروگرام اور مقاصد سے روگردانی کررہی تھی ،ایک ہی وقت میں دو مختلف سوچیں ایک ہی نتیجے پر پہنچی تھیں۔ایک طرف پیپلز پارٹی بنانے والے اے ۔جے رحیم،ڈاکٹر مبشر حسن خاں، معراج محمد خاں، شیخ رشید احمد تھے جو پاکستان میں انقلاب کے کردار کا تعین کرنے میں ناکام ہوکر سرمایہ دارانہ ریاست کی طرف دوبارہ مراجعت( کی تنزلی) میں کوئی خاص رکاوٹ بننے میں ناکام ہوگئے تھے اور دوسری طرف انہی متذکرہ راہنماؤں کی دی ہوئی طاقت کا مرکزہ بن جانے والی شخصیت ذوالفقار علی بھٹو کی سوچ تھی جو انکے اپنے بقول ”متضاد مفادات کے درمیان مفاہمت “پیدا کرنا چاہتی تھی ۔

اس مفاہمت کا نتیجہ خود ذوالفقار علی بھٹو کے کہنے کے مطابق انکے خلاف فوجی بغاوت اور بعد کے اقدامات کی شکل میں نکلا۔ بھٹو کے قتل کے بعد کی قیادتیں بھٹو کی تسلیم شدہ غلطی کی تقلید کرتے کرتے اس دائرے سے بھی نکلتی گئیں ،جس میں بھٹو نے تمام تر انحرافات کے باوجو د خود کو محدود کیا ہوا تھا۔ آج کی پیپلز پارٹی بے نظیر بھٹو کی عملیت پسندی اور’نئی مفاہمت ‘کی کی پیروی کرتے ہوئے اپنے جنم کے مقاصد سے بہت دورنکل چکی ہے۔

ظاہر ہے ہر عمل کا ردعمل ہوتاہے۔ اگر پیپلز پارٹی کی قیادت کی سیاست کا محور اقتدار تک پہنچنا اور اسکے لئے محنت کش طبقے کی بجائے سیاسی لوٹوں پر انحصار کرتے ہوئے،موقع پرستی اور ہر طرح کی پینترے بازی کا طریقہ کار اختیار کرنا ہے‘ تو اسکے جواب میں محنت کش طبقے کے پاس خود کو سیاست سے الگ کرنے کے سوا کونسا راستہ بن جاتا ہے! محنت کش طبقے کے اس ردعمل نے پورے پاکستان کی اکثریتی اور مقبول ترین پارٹی کو سندھ اور اکے دکے علاقوں تک محدود کرکے رکھ دیا ہے ۔

بھٹو اور بے نظیر کے ریاست اور انکے گماشتوں کے ہاتھوں قتل کے انجام کے پیچھے اگر مفاہمت اور مصالحت اور پھر اس سے بغیر تیاری کے روگردانی تھی تو دوسری طرف مرتضی بھٹو جیسے دلیر اور آلائشوں سے مبرا راہنما کی دن دیہاڑے ریاست کے ہاتھوں ہلاکت بھی ایک واضع سبق ہے کہ سرمایہ دارانہ ریاست کو شکست بندوق اور انتہاپسندی سے نہیں بلکہ طبقاتی جدوجہد اور عوامی ابھار سے ہی ممکن ہے۔

موجودہ پیپلز پارٹی ویسے بھی اٹھارویں اور انسویں صدی میں بہت سے راجواڑوں میں بٹے برصغیر کا منظر پیش کررہی ہے۔ ایک طرف اسکے وجود کا بڑا حصہ ’سب سے بھاری‘پتھر کے نیچے دبا ہواہے،جو اپنے ہی جیسے غیر نظریاتی اور موقع پرست وڈیروں،مخادیم ،ایوان صنعت وتجارت کی سیاست کرنے والوں اور پراپرٹی ڈیلروں کی فوج ظفر موج کے ذریعے ’جوڑ توڑ‘ اور نئے ’حکمرانی معاہدوں‘ کی طرح رکھنے میں محو ہے، اسکے لئے محنت کش طبقہ، عوام پارٹی اور پارٹی کارکنان فاضل اشیاء ہیں ۔

اس کے نذدیک بین الاقوامی قوتوں اور ریاست کے مقتدر حصوں سے بھاؤ تاؤہی اقتدار تک پہنچنے کا اصل لانچنگ پیڈ ہے۔ یہ سوچ کسی حد تک درست اور عملیت پسندی کی درست تفسیر ہے،اگرچہ اسکے مابعدالاثرات ہمیشہ ذلت آمیز اور تحقیر پر مبنی ہوتے ہیں۔اس طریقہ کار کو اپنا کر اقتدر میں حصہ داری کا مطلب ذاتی مفادات ،خزانوں ،مراعات میں اضافے کی حد تک تو ہوتا ہے مگر ایک طرف اس اقتدار کو عوام اور محنت کش طبقے کی وسیع پرتوں کے مفادات کے لئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تو دوسری طرف ہر لوٹ مار اور ہیرا پھیری کا ’ریکارڈ‘ بھی رکھا جاتا ہے اور بعد ازاں کٹھ پتلی کھیل میں اس’ ریکارڈ‘ کو استعمال کیا جاتا ہے۔

ایسا ہر اقتدار پارٹی کو کمزور کرتے ہوئے اسکے محنت کش عوام سے رشتے کو گھٹانے کا سبب بنتا ہے۔ عوام سے مسلسل کٹنے کے بعد پارٹی ایک ایسی نہج پر پہنچ جاتی ہے جہاں سے اس کو بے عزت کرکے اقتدار سے نکالنا یا اس سے بھی آگے جاکر حملہ کرنے کی گنجائش بن جاتی ہے۔ اس صورتحال کا حل موقع پرستوں کی دوسرے درجے کی ٹیم جس کو ’ اناڑی ماہرین ‘کہا جاسکتا ہے ‘پوری تن دہی سے ”جگاڑ بازی“ میں مصروف ہے۔

وہ نظریاتی کی بجائے نظریاتی جملہ بازی، انقلاب کی بجائے انقلابی جملوں کا استعمال،کسی پروگرام کی بجائے ’پنجابی فلموں‘ کی بڑھکوں کے ذریعے عام شعور کو نشانہ بنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے نذیک محنت کش طبقہ بھی انہی کی طرح فہم وشعور سے عاری ہے اور خالی لفاظی سے بہل سکتا ہے۔ان کے نذدیک سماج کے سنگین معاشی اور معاشرتی مسائل کا حل پارٹی راہنماؤں کی طنزیہ گفتگو اور لہجوں کا مضحکہ خیز اتارچڑھاؤہے۔

اگر چہ اس قسم کے ناٹکوں سے پارٹی کی تنزلی سے مکمل انہدام تک سفر میں کسی حد تک ٹھہراؤ آتا رہا ہے مگر اس ٹھہراؤ کی اصل وجہ محنت کش طبقے کی تحریک میں تاخیر ہے۔ لیکن جس طرح شروع میں بیان کیا گیا ہے غیر مرئی قوتوں پرانحصار کا مطلب جمود کو تقویت دینا ہے۔ معروضی تبدیلیوں کے لئے موضوعی عناصر کی مداخلت اور شعوری اقدامات کے بغیر از خود کسی طوفانی انقلابی لمحات کا انتظار بھی بے عملی اور انحصار کی سوچ کو تقویت دیتا ہے۔

انقلابی قوتوں کی تعمیر کیلئے کئی حوالوں سے کٹھن مگر بہت سے حوالوں سے موجودہ عہد بہت ہی سازگار ہے،خاص طور پر جب دھوکہ دہی کے تمام مراکز بالکل ننگے ہوکر عام اذہان کے سامنے بے نقاب ہوچکے ہیں۔ میدان اور صاف ہوچکا ہے ‘ماضی میں انقلاب کے نام پر قوم پرستی، وطن پرستی اور ممالک کی حدود کے اندر بند کردینے والا‘ سٹالن ازم تاریخ کے’عجائب گھر‘میں صرف مقام عبرت کی نشاندہی کیلئے موجو د رہ گیا ہے۔

اب انکا کام گالی گلوچ اور دشنام طرازی تک محدود ہوچکا ہے۔تاریخ کی پیش رفت کو سائنسی اور جدلیاتی قوانین کے بغیر جانچنے کا نتیجہ ”سویت یونین کے انہدام “ کا تجزیہ جھنجھلاہٹ اور بے بسی کی شکل میں ہی نکلتا ہے اور انکے منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہوجاتی ہے۔ جبکہ محنت کش طبقے کی تحریک کو سرمایہ داری کے جھانسے کی طرف موڑنے کی اہلیت خاص طور پر پیپلزپارٹی کھو چکی ہے۔

اگر پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ سے ساز باز کرکے اقتدار تک رسائی کو ممکن بھی بنا لیتی ہے تو اسکے اثرات بدترین اور مضمرات سے بھرے ہونگے۔موقع پرستوں کی ایک چھوٹی سی جمعیت جو ہر دور اور عہدمیں کسی نہ کسی ’مردے کا گوشت‘ نوچ ہی لیتی ہے‘کو اس دفعہ چوسی ہوئی ہڈیوں کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ایک اور ناکامی کے بعد قیادت اور بے نقاب ہوگی اور محنت کش طبقے کی کچھ پرتوں کے واہمے مذید ٹوٹ پھوٹ جائیں گے۔

دھوکہ خواہ کتنا طویل ہو بالآخر اختتام کوپہنچتا ہے۔ شائد عمومیت کے قانون کو ماننے والوں کے سامنے ہر مسئلے کا بس ایک ہی حل ہو ، مگر وہ ایک ہی حل اگر بار با ر ناکام ونامراد ہوچکا ہو تو ایسا حل اور اسکو پیش کرنے والے مذاق بن جاتے ہیں۔ہماری آنکھوں کے سامنے ہونے والی پیپلزپارٹی کی ’بدبودارتحلیل اور انہدام کی طرف پیش رفت ‘کی تاریخ سے انقلابی قوتوں کو سیکھنے کا وہ سبق مل سکتا ہے جو کو دھندلکوں کو چیر کر انقلاب کی منزل کو بالکل واضع اور غیر مبہم کردے ۔

ان تازہ دم انقلابیوں کی پیش قدمی کو ناقابل تھکان ہمت اور حوصلہ عطا ہوگا جن کے پیش نظر اس فرسودہ سرمایہ داری کا خاتمہ اور ایک استحصال سے پاک سماج کی تعمیر کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔تاریخ واضع کرے گی کہ پارٹیوں ،قیادتوں کے انحراف اور غداریوں سے طبقاتی جدوجہد کو اوجھل کیا جاسکتا ہے ،مٹایا نہیں جاسکتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :