ایک حقیقت !

پیر 25 ستمبر 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

یونیورسٹی کی کلاس ختم ہوتی تو ہم سیدھا کیفے چلے جاتے ، ہمارا گروپ چار افراد پر مشتمل تھا ۔ میں ، اسامہ سعد ، کسابی جوشی اور لکشمی لامہ ۔ اسامہ کا تعلق لیہ سے تھا ، اس نے ماس کمیونیکیشن کے بعد لیہ میں گورنمنٹ جاب شروع کر دی اور یہ آج کل لیہ کے گورنمنٹ اسکول میں ٹیچنگ کر رہا ہے۔ لکشمی لامہ اور کسابی جو شی کا تعلق نیپال سے تھا، پنجاب یونیورسٹی ہر سال نیپال کے دو اسٹوڈنٹس کو ماس کمیونیکیشن میں اسکالر شپ پر داخلہ دیتی ہے ، ان اسٹوڈنٹس کی فیس، رہائش اور ماہانہ اخراجات یونیورسٹی اپنی جیب سے برداشت کر تی ہے ، لکشمی لامہ اور کسابی جوشی بھی اس اسکالرشپ اسکیم کے تحت ہمارے کورس کا حصہ تھیں ۔

کلاس ختم ہو تی توہمارا یہ گروپ سیدھا کیفے چلا جاتا ، میں روزانہ کیفے جانا اور وہاں دیر تک بیٹھ کر گپیں ہانکنا افورڈ نہیں کر سکتا تھا ، میری ایک لگی بندھی روٹین تھی اور میں اپنی اس روٹین سے باہر نہیں نکل سکتا تھا۔

(جاری ہے)

لیکن کبھی کبھار اسامہ بھائی کا اصرار مجھے کیفے جانے پر مجبور کر دیتا اور پھر کیفے کی میز پر بیٹھ کر اسامہ اور نیپالی دوستوں سے مختلف موضوعات پر خوب بحث ہوتی۔

میری نیپال سے دلچسپی کی اہم وجہ گوتم بدھ تھا ، گوتم بدھ کا تعلق نیپال سے تھا اور میں نیپالی دوستوں سے گوتم بدھ کی حقیقت جاننا چاہتا تھا ۔ کیفے میں ہماری بحث کے موضوعات میں سے ایک اہم موضوع ”آرڈر“ ہوا کرتا تھا ۔ ہم جب بھی کچھ کھانے کے لیے آرڈر دیتے تو نیپالی دوست چائے اور سبزی کے سوا کچھ طلب نہیں کرتے تھے ، پورے دو سال انہوں نے چکن یا کسی اور چیز کا گوشت نہیں کھایا ، اس کی وجہ بڑی دلچسپ تھی ، ان کا کہنا تھا ہمارے مہاتما بدھ کا فرمانا ہے کہ کسی جاندار چیزکو نقصان پہنچانا گناہ ہے ، ہمارے مذہب میں کسی چیز کا گوشت کھانا حرام ہے کیونکہ گوشت کسی جانور کو ذبح کر کے حاصل کیا جاتا ہے اور ہمارے مذہب میں کسی جانور اور پرندے کو تکلیف پہنچانا گناہ ہے اور ہم اس گناہ کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔

پورے دو سال انہوں نے کسی قسم کا کوئی گوشت نہیں کھایا ، ان کی پسند چائے سے شروع ہوتی تھی اور سبزی پر جا کر ختم ہو جاتی تھی۔
یہ حقیقت کا ایک رخ ہے ، حقیقت کا دوسرا رخ بڑا تلخ اور تکلیف دہ ہے ، یہ وہ رخ ہے جو دنیا پچھلے چار پانچ سال سے میانمار اور رخائین میں دیکھ رہی ہے،میانمار کی اکثریت بدھ مت کی پیرو کار ہے اور بدھ مت کی اصل تعلیمات کیا ہیں وہ آپ جان چکے ہیں ۔

میانمار کے اس حادثے سے ایک بات بڑی اچھی طرح واضح ہو گئی اور دنیا کو اب یہ حقیقت مان لینی چاہیے، اٹھاون مسلم ممالک ، ان ممالک کے علماء اور دانشور پچھلے سولہ سال سے اس حقیقت کا اظہار کر رہے ہیں لیکن دنیا یہ حقیقت ماننے کے لیئے تیار نہیں ، لیکن اب شاید دنیا کویہ حقیقت مان لینی چاہئے ۔ وہ حقیقت کیا ہے ؟ وہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں آج تک کسی مذہب نے قتل و غارت کی اور نہ اس کا حکم دیا ، مذہب بذات خود معصوم ہے ،کوئی بھی مذہب اگر وہ اپنی اصل بنیادوں اور تعلیمات پر کھڑا ہے تو وہ معصوم ہے اور وہ کسی بھی انسان کو تکلیف پہنچانے کا روادار نہیں ،مسئلہ صرف یہ ہے کہ کچھ لوگ مذہب کی بنیاد پر قتل و غارت کا بازار گرم کرکے مذہب کو بدنام کردیتے ہیں۔

دنیا کو اب یہ حقیقت مان لینی چاہیے کہ دہشت گردی اور تشددپسندی کا کسی بھی مذہب سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ ایک مائنڈ سیٹ ہے اور دنیا کے مختلف خطوں میں بیک وقت موجود ہے اور اس کے مظاہر ہم آئے روز دیکھ رہے ہیں ۔ مذہب کی ضروت انسانی جبلت کا حصہ ہے اور میرے خیال میں جنس اور بھوک کے بعد مذہب انسان کی تیسری اہم جبلت ہے ۔اس لیے اب دنیا کو کھلے دل سے یہ حقیقت سمجھ لینی چاہئے کہ پچھلے سولہ سالوں سے اسلامی دہشت گردی کی جو اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے وہ سراسر غلط ہے ۔

اسلامی دہشت گردی اور اسلامی شدت پسندی کا اس کرہ ارض پر کوئی وجود نہیں ، اگر کچھ لوگ ایسی کاروائیاں کر رہے ہیں یا انہوں نے ماضی میں ایسا کیا ہے تو اس کا دوش مذہب اسلام پر نہیں بلکہ یہ ان کا اپنا مائنڈ سیٹ ہے۔میانمار میں بھی یہی ہو رہا ہے بدھ مت کی اصل تعلیمات کے مطابق انسان تو دور کسی جانور اور پرندے کو بھی تکلیف پہنچانا بہت بڑا پاپ ہے لیکن آج اس مذہب کے پیرو کار جو کر رہے ہیں اس نے ساری دنیا کو ہلا کر دکھ دیا ہے ، انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا ہے اور بدتہذیبی اور وحشت راخائین کی گلیوں میں ناچ رہی ہیں۔

ظلم کی سیاہ ڈائن بال کھولے راخائین کے محلوں میں گھوم رہی ہے اور مہاتما بدھ کے پیرو کاروں نے اس کے فلسفہ امن کو تباہ و برباد کر دیا ہے اور آج مہاتما بدھ کی روح بھی تڑپ اٹھی ہے ۔
میانمار ایشو نے ایک اور حقیقت کو بھی واضح کر دیا ہے اور وہ حقیقت بھی بڑی دلچسپ ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ پچھلے کچھ سالوں سے جب شام اور فلسطین پر معصوم مسلمانوں کو شہید کیا جا رہا تھا اور پوری دنیا میں کوئی ان کی آواز سننے کو تیار نہیں تھا ، پاکستانی میڈیا میں بھی ان مظلوموں کو نظر انداز کیا گیا ، میں نے اس وقت پاکستان کے چند اہم کالم نگاروں کو فون کیے اور انہیں شام کے سانحے پر لکھنے کی درخواست کی ، مجھے اس وقت مجموعی طور پر جو تاثر ملا تھا وہ یہ تھا کہ ہم نے ساری دنیا کے مسلمانوں کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے ، ہم اپنا گھر تو ٹھیک کر نہیں سکتے لیکن پوری دنیا کے مسلمانوں کے ٹھیکیدار بننے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں ، لیکن میانمار ایشو پر ایسا نہیں ہوا ، پوری دنیا کے مسلمانوں نے اس درد کو محسوس کیا اور خصوصا پاکستان میں تمام مکاتب فکر اور تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر آواز اٹھائی ، حکومتی ایوانوں میں بھی کچھ تاخیر سے ہی سہی لیکن احساس ضرور ہوا۔

مغربی ممالک کی طرف سے کی جانے والی توہین رسالت کے بعد یہ پہلا موقعہ تھا جب تمام پاکستانی ایک پیج پر تھے اور سب نے مل کر آواز اٹھائی۔ میں نے میانمار ایشو پر ان کالم نگاروں کے کالم بھی پڑھے جن کا تکیہ کلام یہ ہوتا ہے کہ ہم پاکستانیوں نے پوری امت مسلمہ کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے ۔ جن کے کالموں کا موضوع ہی یہ ہوا کرتا تھا انہوں نے بھی میانمار کے مسلمانوں کا درد محسوس کیا اور ان کے حق میں آواز اٹھائی۔

وہ لبرلز جنہیں ”امت مسلمہ “کی ترکیب سے بھی چڑ تھی انہیں بھی ”امت مسلمہ“ کا یہ درد محسوس ہوا اور انہوں نے چپ کا روزہ توڑا ۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ ہم خواہ کتنے ہی لبرل کیوں نہ ہو جائیں یا ہمیں امت مسلمہ کے تصور سے کتنی ہی چڑ کیوں نہ ہو لیکن ہمارے جینز میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے محمد ﷺ کا امتی ہونا ۔ ہم کتنے ہی لبرل کیوں نہ ہوں جائیں یا جغرافیائی سرحدوں کی بات کریں لیکن جب بھی ایسا کوئی موقع آئے گا ہمارے اندر کی مسلمانیت جاگ جائے گی اور ہم ایک امتی بن کر کھڑے ہو جائیں گے ۔

یہ بھی حقیقت ہے اور آج ہمیں اس حقیقت کو بھی مان لینا چاہئے۔ ہمارے لبرلز کو یہ سچائی بھی تسلیم کر لینی چاہئے کہ امت مسلمہ جسد واحد کی طرح ہے اور ہمیں ہرہمیں دنیا بھر کے مسلمانوں کو اسی نظراور اسی زاویئے سے دیکھنا چاہئے۔ ہم خود کو خواہ کتنے ہی دین بیزار ، لبرل یا ماڈرن ثابت کرتے رہیں لیکن اگر ہم نے کلمہ پڑھا ہے تو ہمارے جینز میں ایک حقیقت چھپی ہوئی ہوئی ہے اور وہ حقیقت ہے محمد ﷺ کا امتی ہونا اور یہ حقیقت ہم پر میانمار کے مسلمانوں نے آشکارکی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :