میں زندہ ہوں

پیر 25 ستمبر 2017

Anwaar Ayub Raja

انوار ایوب راجہ

کتنی مدت سے یہ بحث چل رہی ہے کہ پاکستان نہیں رہے گا یا پھر پاکستان ٹوٹ جائے گا ۔پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے آج تک دو قسم کی سازشوں نے پاکستان کے گرد اپنا شکنجہ مظبوط کرنے کی کوشش کی ۔ایک سازش ہمیشہ سے اندرونی تھی اور ایک سازش بیرونی ۔اندرونی سازش نے جب بھی سر اٹھایا تو قوم نے اس کا مقابلہ کیا اور اس کا سر کچلا مگر جب بیرونی سازش نے اپنا اثر دکھایا تو پاکستان کے محافظوں نے اس کا دفاع ایسی بے نظیر قربانیوں سے کیا کہ اس کی مثال پہلے کہیں نہیں ملتی ۔


آج پاکستان دنیا کے نقشے پر ہے اور ایک حقیقت ہے ، اس کے بے شمار دوست ہیں اورکچھ دشمن بھی اور ان دشمنان پاکستان نے ایک نئے انداز کی فکری جنگ پاکستان پر مسلط کی ہوئی ہے جس کا نشانہ نظریاتی سرحدیں نہیں آنے والی نسلیں ہیں ۔

(جاری ہے)

یہ دشمن پوشیدہ رہ کر بہت سی آوازوں میں زہر ملا کر نفرت کی زبان بول رہا ہے اور مایوسیاں پھیلا رہا ہے ۔تاریخ کو مسنح کر کے پیش کیا جا رہا ہے اور یہ بتایا جا رہا ہے کہ برصغیر کی تقسیم ایک غلطی تھی اور پاکستان کا معرض وجود میں آنا کوئی حادثہ تھا ۔

پاکستان کے خلاف تمام سازشوں کے باوجود پاکستان ستر سال کا ہو گیا اور آج بھی اپنے دشمنوں کی آنکھ کا بال ہے ۔
میں پچھلے کئی سالوں سے سفر میں ہوں اور پاکستان میرے ساتھ ساتھ اس سفر کا حصہ ہے ۔میں ایک برطانوی شہری ہوں مگر میری پیدائش کشمیر میں ہوئی اور مجھے میری بنیادوں پر فخر ہے ۔پاکستان بھی میرے وجود کا حصہ ہے اور جب بھی اگست کا مہینہ آتا ہے تو میرے کانوں میں آزادی کے ترانوں کی دھنیں بجنے لگتی ہیں ۔

گو کہ اب وہ دھندلی ہیں مگر ہیں ضرور ۔میرا مادر وطن کشمیر آج بھی آزادی کی نعمت سے محروم ہے مگر کشمیریوں کا دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے اور اس میں کہیں کوئی مغالطہ نہیں ہونا چاہیے کہ کشمیری پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے رضاکار محافظ ہیں اور اس پر انھیں فخر ہے ۔
میں پچھلے سترہ سالوں سے پاکستان سے باہر ہوں اور ان تمام سالوں میں میں نے پاکستان میں رونما ہوتی تبدیلیوں کا اثر بیرون ملک آباد پاکستانیوں پر دیکھا ۔

یہ وہ لوگ ہیں جو اصل پاکستان کو دل میں بسائے اس کی عظمت ، حرمت اور اہمیت کے نغمے گاتے ہیں ۔یہاں آباد کشمیریوں یا پاکستانیوں کا جذباتی لگاو ان کے والدین کے وطن کے ساتھ ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو یہ لوگ مدد میں سب سے آگے ہوتے ہیں ۔
پاکستان نے پچھلے دس سال میں اور خاص کر 9/11کے بعد جو حالات دیکھے وہ ایک کمزور ملک کے لیے برداشت کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہوتا ۔

ہر بار جہاں جہاں سے پاکستان کو نقصان پہنچایا گیا وہاں وہاں سے پاکستان مظبوط ہوا اور جذب? محبت پاکستان میں اضافہ ہوا ۔اس کے پیچھے کے محرکات کیا ہیں ؟ کیا ستر سال سے قائم یہ ملک ایک حادثہ ہے ؟ کیا یہاں کا نظام اور اقوام عالم میں اس کی موجودگی بس ایسے ہی ایک فریب نظر ہے ؟
ان سوالات کے جوابات کی تلاش میں ہمیں تھوڑا تاریخ میں جانا ہو گا اور دیکھنا ہو گا کہ آج جو لوگ پاکستان کو ستر سال بعد بھی حادثہ، سانحہ یا ایک ناکام ریاست کہتے ہیں ان کے عزائم کیا ہیں ۔

پاکستان اور انڈیا ساتھ ساتھ معرض وجود میں آئے ، آزادی کے وقت انڈیا کے حصے میں وسائل سے بھرپور علاقے ، انڈسٹری ، ہنر مند لوگ اور اہم تعلیمی ادارے آئے ، تقسیم برصغیر کے وقت بہت سی زیادتیاں کی گئیں مگر پاکستان کو الله نے جذبے سے بھرپور اور ایمان کی طاقت سے لبریز کچھ دیوانے عطا کیے جن کی آنکھوں میں آزادی کے خواب تھے ۔یہ کون لوگ تھے کہ جنہوں نے آزادی پاکستان کے فوری بعد تحفظ پاکستان کو ممکن بنایا ؟ پاکستان بنتے ہی سازشوں کے جال بننے والے اور پاکستان کو توڑنے والوں نے ہر محاذ کھولا ، زمینی محاذ کشمیر میں پہلے کھلا ، پاکستان ایک نوزائدہ ریاست تھی اور اس وقت انڈیا کی کوشش کشمیر میں گھس کر سارے علاقے کو قبضے میں لینے کی تھی ۔


یہ ایک بہت بڑی ریاست کا ایک بہت چھوٹی ریاست پر حملہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک جارحانہ سوچ کا ایک قوم کی آزادی پر حملہ تھا ۔اس حملے کو روکنا اور آزاد کشمیر کو آزاد کروانا وہ پہلی عظیم فتح تھی جس کا غم آج تک انڈیا کو ہے اور آج تک یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان ایک حادثہ تھا ۔کشمیر میں لڑی جانے والی جنگ آزادی ہی وہ پہلا میدان تھا جہاں سے ہمیں ان لوگوں کا پتہ ملتا ہے جو آزادی کے محافظ اور ''حقیقی دیدبان '' تھے اور جن کی نظروں میں سالمیت پاکستان کے خواب تھے ۔


آج ستر سال بعد انڈیا کشمیریوں اور پاکستانیوں کے درمیان نفرت کا بیج بونے کے لیے ہر حربہ اپنا رہا ہے مگر اس کا ہر وار کشمیر سے پاکستان کے رشتے کو مظبوط کرتا ہے ۔سیاست اور اہل سیاست کا اپنا سوچنے کا انداز ہے مگر عوام کے دلوں میں آج بھی اس چراغ کی روشنی ہے جسے کشمیر پر ہونے والی جنگ میں کشمیریوں نے اپنے لہو سے جلایا اور آج تک روشن رکھا کیونکہ یہ وہ لوگ تھے کہ جن کی نظروں میں ایک خوشحال پاکستان اور ایک آزاد کشمیر کا خواب تھا ۔

آج پاک فوج میں بہت بڑی تعدار میں کشمیر سے تعلق رکھنے والے ہر رینک کے افسران اور جوان موجود ہیں اور اس حقیقت کو کون بھول سکتا ہے کہ ان میں سے بہت بڑی تعداد ان افسران اور جوانوں کی ہے کہ جنہوں نے آزادی کی جنگ لڑی۔29 اکتوبر 1947 کو جب یہ معجزاتی فوج سرینگر سے صرف چار میل دور تھی تو دشمن کو پتہ تھا کہ یہ حادثہ نہیں بلکہ ایک جنون تھا جو کہتا تھا '' آج سرینگر ، کل دلی ''۔


اس جنگ میں حصہ لینے والے وہ بہادر لوگ تھے جنہوں نے کشمیر کی آزادی کی جنگ کے ساتھ تکمیل پاکستان کی جنگ میں بھی حصہ لیا ۔یہ لوگ عام لوگ نہیں تھے ، یہ برطانوی ہند کی فوج سے لوٹنے والے وہ بہادر سپاہی تھے کہ جنہوں نے اپنی ہمت کا لوہا مصر کے صحراوٴں سے افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں منوایا تھا ۔یہ کسی حادثے کی وجہ سے دفاع وطن کے لیے گھر سے نہ نکلے تھے ۔

ان میں سے کچھ تو بہت دیر تک جاپان، افریقہ اور یورپ میں جنگی قیدی رہ چکے تھے مگر پھر بھی یہ پاکستان کے دفاع میں قائم ہونے والا وہ پہلا دستہ تھا جس نے گوریلا جنگ سے کشمیر کے پہاڑوں کو دشمن کا قبرستان بنایا۔ستر سال ایک قوم کے لیے کچھ نہیں ، دنیا کی تاریخ میں تحریکیں سالوں چلتی ہیں اور بہت کم ہوتی ہیں جنھیں کامیابی ملتی ہے ، ایسی ہی کامیابی اور عظمت ان لوگوں کے مقدر بنی جنہوں نے پاکستان کو حادثہ نہیں انعام جانا اور آج تک وہ اس انعام کی حفاظت کر رہے ہیں ۔


میرے سامنے برطانوی ہند کی فوج کے ان اسیر سپاہیوں کے متعدد خطوط موجود ہیں کہ جنہوں نے بعد میں آزادی پاکستان کی جنگ لڑی اور ان میں سے بیشتر کا تعلق آزاد کشمیر سے تھا ۔مجھے یاد ہے کارگل کی جنگ کے دنوں میں جب سرحد سے پرچم میں لپٹے عظیم بیٹے اپنی ماوٴں کو غموں میں نڈھال چھوڑے مادر وطن پر قربان ہو کر واپس اپنے اپنے آبائی گھروں کو لوٹ رہے تھے تو ہر شہید کی قبر پر لہراتا سبز ہلالی پرچم ان عظیم بیٹوں کے افلاس کی قربانیوں کی تصدیق کر رہا تھا ۔

آزا دی پاکستان سے آج تک جتنے بھی عظیم بیٹے اور بیٹیاں اس ملک کی حفاظت اور آزادی کی خاطر قربان ہوئے وہ سب کے سب پاکستان تھے اور ایک حقیقت تھے کوئی سانحہ نہیں ۔آج جب میں ان عظیم سپاہیوں کی قبروں کو دیکھتا ہوں تو ایسے لگتا ہے وہ بھی مجھے دیکھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں' ' میں زندہ ہوں '' ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :