کیا واقعی ہمیں نئے سیاسی نظام کی ضرورت ہے؟

ہفتہ 14 اکتوبر 2017

Majeed Ghani

مجید غنی

آزادی کے ستر سال گزرنے کے باوجود بدقسمتی سے ہم نہ ہی آزادی کے ثمرات سے مکمل طور پر بہرہ ور ہو سکے اور نہ ملک معاشی طور پر قابلِ ذکر ترقی کر سکا۔ آج یہ عالم ہے کہ ہم غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ ملک میں بہتر نظم و نسق نامی کوئی چیز موجود نہیں۔ ہر نقصان کی جڑ کرپشن دیمک کی طرح ملک کو چاٹ گئی ہے اور یہ سلسلہ بصد معذرت ابھی بھی اپنے پورے عروج پر ہے۔

مہنگائی، بیروزگاری، عدم تحفظ، انصاف کی عدم فراہمی جیسے معاملات تو جیسے ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ ملک کی اس صورتحال پر ہر سنجیدہ پاکستانی پریشان ہے۔ نجی محفلوں سے لیکر دانشوروں کی مجالس تک ہر جگہ یہ موضوع زیربحث رہتا ہے کہ وطنِ عزیز کب وہ مملکت بن سکے گا جو اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جہاں لوگوں کو انصاف میسر ہو۔

(جاری ہے)

قانون کی حکمرانی ہو، امیر غریب کے درمیان تفاوت نہ ہو، دیانتداری کا راج ہو۔


موجودہ صورتحال کی وجوہات پر بھی بہت بحث کی جاتی ہے۔ ان مباحث میں بہت سی وجوہات بیان ہوتی ہیں لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو پاکستان کے رائج نظام کو ہر خرابی اور ترقی میں رکاوٹ قرار دیتا ہے۔ اسی حوالے سے گذشتہ دنوں پاکستان کے معروف دانشور اور کالم نگار جناب قیوم نظامی نے ”نئے سیاسی جمہوری نظام کی ضرورت“ کے عنوان سے ایک فکر انگیز مضمون لکھا جس میں انہوں نے پارلیمانی نظام حکومت کو ناکام اور فرسودہ قرار دیتے ہوئے ملک میں صدارتی نظام کے نفاذ کی بھرپور حمایت کی۔

محترم نظامی صاحب کے مضمون کی چیدہ چیدہ باتوں کا ذکر کرنے کے بعد راقم اس حوالے سے اپنی گذارشات پیش کرنے کی جسارت بھی کریگا۔ نظامی صاحب فرماتے ہیں کہ ”انگریزوں کے نافذ کردہ حکمرانی اور غلامی پر مبنی پارلیمانی نظام عوامی اور قومی مسائل حل نہیں کر سکا لہٰذا اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی جگہ صدارتی نظام کی حمایت کرتے ہوئے نظامی صاحب لکھتے ہیں کہ اس نظام میں چونکہ عوام صدر کو منتخب کرتے ہیں لہٰذا صدر عوام کی تائید سے آئین کے مطابق نظام چلاتا ہے۔

صدارتی نظام سے جاگیرداری، اجارہ داری، ہارس ٹریڈنگ، کرپشن اور برادری ازم جیسے معاملات کا خاتمہ ہو جائیگا، گڈگورننس یقینی ہوگی۔ صدارتی نظام ہمارے مزاج اور کلچر کے قریب تر ہے۔ ان کے مطابق پاکستان کا موجودہ سیاسی جمہوری نظام ناکارہ اور فرسودہ ہو چکا بلکہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شدید مایوسی اور بے چینی خدانخواستہ خانہ جنگی اور خونی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔

اس کے علاوہ مصنف نے کئی تجاویز بشمول قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کو متناسب نمائندگی کی بنیاد پر کرانے سمیت دی ہیں۔
راقم کے اپنے خیال میں جن خرابیوں کی نشاندہی کی گئی ہے ان سے انکار کی بالکل بھی کوئی گنجائش نہیں لیکن ان کا ذمہ دار یہ نظام نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک جمہوری نظام و آئین کو عوام کی بہتری اور فلاح و بہبود کیلئے استعمال کرنے کی بجائے اس کے غلط استعمال کے ذریعے صرف اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے اور دوام بخشنے کی کوششیں کی گئیں اور ہر وہ حربہ استعمال کیا گیا جس سے ملک کے تمام ادارے ایک شخصیت کے ہی زیر اثر آجائیں۔

اس کوشش میں حکومتِ وقت کو حزبِ اختلاف کی بھرپور حمایت حاصل رہی۔ ملک میں احتساب کیلئے قائم اداروں کو زیرنگیں کیا گیا اور ہر اہم عہدے پر اپنی پسندیدہ شخصیات کی تعیناتی کی گئی۔ عوام کی فلاح و بہبود کے اصل منصوبوں کو پس پشت ڈال کر اپنی پسند کے منصوبوں پر کام کیا گیا جیسا کہ عرض کیا گیا ان تمام معاملات میں چونکہ پارلیمنٹ میں موجود اپوزیشن نے حکمرانوں کا ساتھ دیا اس لئے جمہوری نظام کی رُوح کو نقصان بھی پہنچا اور صورتحال کی خرابی نے عوام کے ایک بڑے طبقے کو موجودہ نظام سے بیزار کر دیا۔

چنانچہ آج صدارتی نظام، ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام اور پارلیمنٹ کی معیاد میں کمی کی باتیں زور پکڑ رہی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پارلیمانی نظام حکومت ایک بہترین طرز حکومت ہے اور ہمیں کسی دوسرے سیاسی نظام کی ضرورت نہیں۔ اصل مسئلہ قانون کی حکمرانی کا ہے جس کیلئے قومی رہنماؤں کو اپنی ذات سے اوپر اُٹھ کر سوچنا ہوگا۔ ملک کی خدمت ایک دینی فریضے کے طور پر کرنا ہوگی۔

غریب اور امیر اور طاقتور اور کمزور کیلئے قانون کے اطلاق میں فرق کو ختم کرنا ہوگا۔ ملک میں بہتر نظم و نسق اور کرپشن فری سوسائٹی کا قیام وقت کا اولین تقاضا بن چکا ہے۔ جہاں تک نئے آئین کے مطالبے کا تعلق ہے تو نہ تو اس کی ضرورت ہے اور نہ ہی موجودہ اسمبلی کو اس کا اختیار۔ اس آئین کے بنیادی ڈھانچے کو نہیں چھیڑا جا سکتا۔ یہ کام دستور ساز اسمبلی کر سکتی ہے۔

موجودہ حالات میں ملک اس کا کسی صورت متحمل نہیں ہو سکتا۔ جن چیزوں کی اس وقت شدت سے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے ان پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے جن میں سرِفہرست ملک سے کرپشن کا خاتمہ، ایک آزاد، غیرجانبدار، بااختیار الیکشن کمشن کا قیام، نیب، ایف آئی اے جیسے اداروں سے سیاسی اور حکومتی مداخلت کا خاتمہ اور انتخابی اصلاحات، اس کے علاوہ موجودہ آئین کے دائرہ میں رہتے ہوئے چیک اینڈ بیلنس کا کوئی طریقہ کار وضع کیا جا سکتا ہے۔

اچھی شہرت رکھنے والے ریٹائرڈ ججز، ٹینکوکریٹس، اعلیٰ فوجی افسران اور بیوروکریٹس پر مشتمل ایک کونسل کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے جس کی سفارشات پر عمل کرنا کابینہ کیلئے لازم ہو تاکہ اختیارات سے تجاوز، غیرشفاف معاشی معاملات، سکیورٹی، داخلی و خارجہ پالیسی میں کسی خامی کی صورت میں حکومتِ وقت کو مشورہ اور رہنمائی دی جا سکے۔ آئندہ انتخابات کیلئے اصلاحات (جن پر کام کئی برس پہلے شروع ہو جانا چاہیے تھا) پوری دیانتداری کے ساتھ کی جائیں تاکہ بہترین نمائندوں کا انتخاب عمل میں آئے اور اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ انتخابی عمل نہ صرف شفاف ہو بلکہ اصلاحات میں ایسی شق بھی شامل کی جائے کہ ووٹ ٹرن آؤٹ کی کم سے کم شرح کا تعین ہو تاکہ ایوانِ اقتدار میں آنے والے عوام کی بھرپور نمائندگی کے ساتھ آئیں۔

سابقہ کئی انتخابات بشمول الیکشن 2013 ووٹر ٹرن آؤٹ کی شرح کم رہی۔ امیدواروں کی اہلیت کے حوالے سے آجکل آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 زیر بحث ہیں اور کچھ لوگ اپنے مخصوص مفادات کے تحت انکو ختم کرنے کی باتیں کر رہے ہیں جبکہ ان دفعات پر پوری سختی کے ساتھ عملدرآمد ہونا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :