خواجہ آصف کی ٹائمنگ خراب ہے

اتوار 15 اکتوبر 2017

Ammar Masood

عمار مسعود

آج کل ملکی اور بین الاقوامی طور پر خواجہ آصف کا نام بڑی شد و مد سے لیا جا رہا ہے۔وزیر خارجہ کے دورہ امریکہ کی تصاویر فخر سے شیئرکی جا رہی ہیں۔ ایشاء سوسائٹی میں کی جانے ولی تقریر کے ٹکڑے سوشل میڈیا کی جان بنے ہوئے ہیں۔ یونائٹیڈ اسٹیٹس انسٹیٹیوٹ آف پیس میں کیئے جانے والے خطاب پر داد کے ڈونگرے بجائے جا رہے ہیں۔ ہر طرف دادوتحسین کی بارش ہو رہی ہے۔

خواجہ صاحب کو بہادر ، جری اور شجیع کے لقب سے پکارا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں خواجہ صاحب کے ایک ایک بیان سے ہاہا کار مچ رہی ہے۔ اپنے تئیں وزیر خارجہ ہیرو بنتے جا رہے ہیں۔ قوم کو انکے خطبات عالیہ کا انتظار رہنے لگا ہے۔ لیکن اگر میری مانیں تو یقین کریں، خواجہ صاحب کی ٹائمنگ ٹھیک نہیں ہے۔ یہ درست ہے خواجہ صاحب نواز شریف کے کلاس فیلو رہے ہیں، مانے ہوئے چارٹرڈ اکاونٹنٹ ہیں ، انکو اپنی قیادت کا بھر پور اعتماد حاصل ہے لیکن خواجہ صاحب کے سیاسی کیرئیر کو اٹھا کر دیکھ لیں ہمیشہ ہی خواجہ آصف کی ٹائمنگ خراب رہی ہے۔

(جاری ہے)

بات آپکو اس طرح نہیں سمجھ آئے گی اس کو مثالوں سے واضح کرنا پڑے گا۔
بارہ اکتوبر 1999 کو جب جنرل مشرف نے ایمرجنسی نما مارشل لاء نافذ کیا توبہت سے لوگوں نے نواز شریف سے وفاداریوں بدل لیں ۔ یہی ہمارے ہاں کا رواج ہے۔ سب کو پتہ ہے مارشل لاء آیا ہے تو اب دس، بارہ سال تو رہے گا۔ اس نے کونسا جمہوری حکومتوں کی طرح سال، دو سال بعد رخصت ہو جانا ہے۔

تو اس وقت وفاداریاں تبدیل کرنے والے میں ریورڑیاں بٹنے لگیں۔ وزارتیں ، عہدے تقسیم ہونے لگے۔ وطن عزیز کے خزانے کا مال مفت کوڑیوں کے مول بکنے لگا۔یہ موقع تھا خواجہ صاحب کے ہیرو بننے کا۔ لیکن اس موقع پر خواجہ صاحب آنکھوں پر پٹی پہنے ، ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگوائے، اٹک کے قلعے میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر تے ہوئے، جمہوریت کا راگ الاپ رہے تھے۔

یہاں بھی خواجہ صاحب کی ٹائمنگ خراب رہی اور وہ چوہدری شجاعت اور پرویز الہی کی طرح قوم کے ہیرو بننے سے بال بال بچ گئے۔یہ تو کچھ بھی نہیں جب 2002 کے انتخابات سے اسمبلیاں تشکیل پذیر ہوئیں اس میں خواجہ صاحب اپوزیشن میں بیٹھ گئے۔ نہ صرف اپوزیشن میں بیٹھے بلکہ جمہوریت کے حق میں اور ڈکٹیٹر کے خلاف ایک ایسی دھواں دار تقریر بھی کر دی جو آج بھی سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے۔

حالانکہ اس وقت مارشل لاء کی طبعی عمر پوری ہونے والی تھی۔ این آر او سر پر کھڑا تھا۔ قرضے معاف ہونے والے تھے۔ مقدمے صاف ہونے والے تھے۔ ماضی بے داغ ہونے والے تھے۔کھوٹے ، کھرے ہونے والے تھے۔لیکن خواجہ صاحب نے اس موقع پر بھی دور اندیشی سے کام نہیں لیا اور ٹائمنگ کی خرابی کی وجہ سے ایک بار پھرہیرو بننے سے رہ گئے۔
اس پر مستزاد ایک دن موجودہ اسمبلی میں خواجہ صاحب نے پی ٹی آئی کی سربرآوردہ خاتون رکن کو ایک ایسے نام سے پکار دیا جس میں پہلے تو ایک طرح کی موٹر کار کا نام آتا ہے اور باقی ایک وہیکل کے پچھلے حصے کا ذکر ہوتا ہے ۔

یہ غلطی بھی شدید تھی۔ یہ وہ وقت ہے جب خواتین کے حقوق کا نعرہ فیشن ہے، جب موم بتیوں والی آرکنائزیشن کا حصہ ہونا بڑا ضروری ہے۔ جب خواتین کے احترام پر تبصرہ لازمی ہے۔ ایسے میں خواجہ صاحب کے سیالکوٹی خون نے جوش مارا اور ہیرو بننے کا ایک اور موقع گنوا دیا اور زمانے بھر کی خواتین کو اپنا دشمن بنا لیا۔سارا مسئلہ ہی ٹائمنگ کا ہے۔اور تو اور دھرنے کے بعد مر ، مر کر پی ٹی آئی والے اسمبلیوں میں داخل ہوئے۔

سب نے اسکو جمہوریت کی کامیابی قرار دیا۔ مفرور ، منفور اور منحرف اراکین کا استقبال ہوا۔مائک خواجہ صاحب کے ہاتھ میں آگیا۔ بس پھر کیا تھا جوش خطابت، کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے، والے لازوال جملے تک پہنچ گیا۔ اس جملے کا سیاق و سباق اپنی جگہ لیکن آج کی سیاست میں یہ ضرب المثل بن گیا ہے۔یہاں بھی ہمارے مدوح کی ٹائمنگ خراب رہی اور وہ جمہوریت کی بحالی پر ،اراکین کی واپسی پر کوئی گل افشانی کرنے سے قاصر رہے۔

بات ساری ٹائمنگ کی ہے۔
اب جو کچھ امریکہ میں خواجہ آصف کہہ رہے ہیں اس سے بھی انکے قومی سطح پر ہیرو بننے کے امکانات معدوم ہو گئے ہیں ۔ امریکہ کو یہ کہنا کہاں کی دانشمندی ہے کہ ہمارے ساتھ برابری کا برتاو کرو تو ہم بات سنیں گے۔ اس بات کا اعتراف کہاں کی دانشمندی ہے ہماری بھی غلطیاں ہیں لیکن غلطیاں امریکہ سے بھی ہوئی ہیں۔ اس بات کو کہنا کیا ضروری تھا کہ ہمیں اپنے گھر کو صاف کرنے کی بھی ضرورت ہے لیکن صفائی کی ضرورت امریکہ کو بھی ہے۔

بھلا یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ جن کو تم آج جنہیں دہشت گرد کہتے ہو وہ کبھی تمہارے ہی محبوب تھے۔ وائٹ ہاوس میں اٹھتے بیٹھتے تھے۔ آپ ہی کے حکم پر تخلیق پائے تھے۔ آپ ہی کے ایماء پر معرض وجود میں آئے تھے۔خود سوچیں امریکہ میں بیٹھ کر اس بات کو کہنے کی کیا تک ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی آج تک صرف پاکستان نے حاصل کی ہے۔ یہ باتیں علی اعلان کہہ کر خواجہ آصف نے ہیرو بننے کا رہا سہا چانس بھی گنوا دیا۔

ہمارے ہاں کی ریت رواج اور خارجہ پالیسی تو یہ رہی ہے کہ ہر مسئلے کا الزام وطن میں بھارت اور امریکہ پر تھوپ دو اور جب باہر جاو تو ان سے معافی مانگ لو۔ انکے تابع ہو جاو۔ ملکی اور بین الاقوامی ناظرین کے فرق کو ختم کر کے خواجہ آصف نے ڈرامے کا سارا لطف ہی ختم کر دیا ہے۔پھر یہ بات بھی کہ ان حقائق کو بیان کرنے میں ہم سے کچھ دیر ہو گئی ہے۔ اب ہمارے گھر کا کوڑا کرکٹ سب کو نظر آتا ہے۔

اب اپنی کوہتائیوں پر پردہ پوشی کی ہماری بساط ہی نہیں رہی۔ اب ہماری دوغلی پالیسی سے داغ دار ماضی سب کے سامنے ہے۔ اب بہت دیر ہو گئی ہے۔ یہ بات کہنے اور بہادری دکھانے کا موقع گذر چکا ہے۔ ہاں البتہ یہ موقع جنرل مشرف کو میسر تھا۔ خواجہ آصف والی یہ گفتگو ان کو کرنی چاہیے تھے۔شجاعت اور بے خوفی کا مظاہرہ انکی جانب سے ہونا چاہیے تھے۔ نائن الیون کے بعد جب امریکہ بہادر کا ایک فون آیا۔

واشگاف الفاظ میں دھمکی دی گئی کہ تم ہمارے ساتھ ہو یا انکے ساتھ ہو۔ تو ہمارے سپہ سالار ایک ہی دھمکی پر ڈھیر ہو گئے تھے۔ نہ امریکہ سے برابری کی بنیاد پر بات کی خواہش کی، نہ امریکیوں کو انکی غلطیاں یاد دلائیں ، نہ اپنے بہادروں کے لاشے یاد آئے، نہ قومی غیرت و حمیت کا کوئی تقاضہ ہو،ا نہ امریکہ کی اپنی دوغلی پالیسی کے بارے میں کچھ کہنے کی جرات ہوئی، نہ افغانستان کو فتح کرنے کے مشترکہ منصوبے کا کوئی ذکر ہوا، نہ روس کے خلاف جنگ میں فتح کا تمغہ سینے پر سجایا ،نہ اپنی سپاہ کی لازوال قربانیوں کا ذکر ہوا ۔

بس چپ چاپ جنرل صاحب نے ڈانٹ سنی اور پکڑ پکڑ کر اپنے بندے امریکہ بہادر کے حوالے کرنے شروع کر دیئے۔ اپنی سرزمیں پر تاک تاک کر ڈرون مارنے پر امریکی افواج کو اکسانے لگے۔اس ایک واقعے کے ہمارے سماج، سوچ، معشیت ، ثقافت پر کیا اثرات ہوں گے اس کو سوچنے کا کسی کو کوئی ہوش نہیں رہا۔ ایک ڈکٹیٹر کے حکم پرسب ہی حق خدمت جتانے لگے ، امریکہ بہادر کو وفاداری دکھانے لگے۔

کسی کی جنگ میں اپنی زمین کو جلانے لگے۔
اب جو خواجہ آصف ملکوں ملکوں پھر کر درست بیانیئے کی بات کر رہے ہیں اس میں بہت تاخیر ہو گئی ہے۔ اب کھیل سب پر عیاں ہو چکا ہے۔ اب ایک ہاتھ سے تالی بجانے کا دور گذر گیا ہے۔ اب ایک طرف قومی غیرت کا نعرہ اور دوسری طرف گھٹنے ٹیک دینے سے معاملہ بہت آگے تک پہنچ گیا ہے۔اب ہماری غلطیاں چیخ چیخ کر ہمارے قول فعل میں تضاد کی چغلیاں کھا رہی ہیں۔

سچ بولنا ہماری خارجہ پالیسی نہیں۔ اس موقعے پر گھر کا سار کوڑا کرکٹ قالین کے نیچے چھپا دینا ہی روایت ہے۔۔ خواجہ آصف جو برابری کے تعلقات کی بات کر رہے ہیں ، جو امریکہ کو امریکہ میں انکی غلطیاں یاد کرا رہے ہیں ۔ اس کا موقع ہمارے سابق بہادر سپہ سالار گنوا چکے ہیں۔ اب چاہے جتنے مرضی سچ بول لیں ، جتنی مرضی بہادری دکھا دیں اب خواجہ آصف ہیرو نہیں بن سکتے۔ ڈکٹیٹروں کی عطا کردہ ہماری قومی غلطیاں نہیں چھپا سکتے۔ شروع میں ہی کہا تھا سارا مسئلہ ٹائمنگ کا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :