یہ عدم استحکام زیادہ عرصہ نہیں چل سکتا

اتوار 15 اکتوبر 2017

Muzzamil Soharwardi

مزمل سہروردی

ملک میں عدم استحکام پانامہ کی وجہ سے سے چل رہا ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ اب فریقین کو بھی انداذہ ہو تا جا رہا ہے کہ وہ معاملات کو زیادہ عرصہ اس طرح نہیں چلا سکتے۔ یہ عدم استحکام ہمارے لئے زہر قاتل ہے۔ ہم لمبے لمبے میچ کھیلنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس لئے اب گیم کو ختم کرنے میں ہی ملک کی بہتری ہے۔ آرمی چیف نے کراچی میں اپنے خطاب میں ملک کی معیشت کے حوالہ سے خطرہ کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔

انہوں نے برملا کہا ہے کہ ملک کی معاشی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ قرضے آسمان کو چھو رہے ہیں۔ ان کا مقدمہ سادہ ہے کہ فوج نے ملک کا امن و امان ٹھیک کر دیا ہے لیکن سیاسی قیادت ملک کی معیشت ٹھیک نہیں کر سکی ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہو ئی بلکہ اگلے دن ڈی جی آئی اسی پی آر نے آرمی چیف کی تقریر کے فالو اپ میں کہا ہے کہ ملک کی معاشی حالت ٹھیک نہیں لہذااس پر مل بیٹھ کر بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)


مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ ملک کی معیشت اتنی نازک تھی کہ صرف ایک شخص کے نا اہل ہونے سے پورے معیشت نااہل ہو گئی ہے۔ خیر سے حکومت بھی اسی پارٹی کی ہے۔ وزیر خزانہ بھی وہی ہے۔ معاشی پالیسیوں میں بھی تسلسل ہے۔ وزیر اعظم بھی اسی پارٹی سے ہیں۔ پھر کیا ہوا ہے کہ غبارہ میں سے ہوا نکل گئی ہے۔ ایک دم خزانہ کے خالی ہونے کی آوازیں آنے لگ گئی ہیں۔

وہی دنیا کے بہترین وزیر خزانہ اور ان کی بہترین پالیسیاں ۔اگر ن لیگ کا یہی موقف ہے کہ اسحاق ڈار سے بہترین وزارت خزانہ کوئی چلا نہیں سکتا۔ وہ ناگزیر ہیں تو پھر آج معیشت کے حوالہ سے سوالوں کے جواب بھی تو دینے ہیں۔میں تو سمجھ رہا تھا کہ آ رمی چیف کی تقریر کے جواب میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار جواب دیں گے کہ نہیں ملک کی معاشی حالت خراب نہیں ہے۔

سب ٹھیک چل رہا ہے۔ لیکن ان کی خاموشی تو کچھ اور ہی بتا رہی ہے۔ اگر اپنے کیسز کی وجہ سے انکے پا س ٹائم نہیں ہے تو وہ از خود بھی تو وزارت خزانہ سے استعفیٰ دے سکتے ہیں اس کے لئے انہیں نکالنا ضروری نہیں ہے۔
ہماری جمہوریت کمزور ہے۔ اسٹبلشمنٹ اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر اس کا بستر گول کر دیتی ہے۔ لیکن ہر بار بستر گول کروانے کے باوجود ہم اپنی جمہوریت کو مضبوط نہیں کرتے۔

میں خود پاکستان میں جمہوریت کا سب سے بڑا وکیل ہوں۔ اور سمجھتا ہوں کہ جمہوریت ہی ملک کو چلانے کا واحد طریقہ ہے۔ لیکن جمہوری اداروں اور جمہوری قیادت پر سوال اٹھانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم جمہوریت کے خلاف بات کر رہے ہیں۔ اگر اس ملک میں جمہوریت کو چلانا ہے تو جمہوریت کو خرابیوں سے بھی پاک کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر جمہوریت لانی ہو گی۔

آمریت کا شاہکار سیاسی جماعتیں ملک میں جمہوریت کے فروغ اور استحکام کی جنگ نہیں لڑ سکتیں۔آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن ہر سیاسی جماعت ایک رجمنٹ ہے جس میں اس کا لیڈر خود کو کمانڈر سمجھتا ہے۔ اور اختلاف رائے کو غداری سمجھتا ہے۔ اس میں عمران خان نواز شریف اور آصف زرداری سب شامل ہیں۔ سب کی سوچ ایک ہے۔
ملک کی معاشی حالت کیا ہے یہ بات ہمیں آرمی چیف کے بیان سے نہیں بلکہ پارلیمنٹ سے پتہ لگنی چاہئے۔

لیکن پارلیمنٹ غیر فعال ہے۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنی مرضی کے کام تو پارلیمنٹ سے کروالیتے ہیں۔ مرضی کے بل بھی ایک ہی دن میں پاس ہو جاتے ہیں۔ چیئرمین نیب کے تقرر کے لئے بھی اتفاق رائے ایک ہی ملاقات میں ہو جاتا ہے۔ لیکن ملک کی معاشی صورتحال کا پوسٹ مارٹم وہاں نہیں ہو سکتا۔ وزیر خزانہ پارلیمنٹ کو جواب دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ بیرونی قرضے لینے اور واپس کرنے میں پارلیمنٹ کا کوئی کردار نہیں۔

ٹیکس کے معاملات میں پارلیمنٹ کا کوئی کردار نہیں۔ کیاجمہوریت کے دعویدار اور وکیل بتا سکتے ہیں کہ معاشی معاملات میں ہم نے پارلیمنٹ کو ربڑ سٹمپ سے بھی بد تر کیوں بنا دیا ہے۔
آج پاکستان میں جو عدم استحکام ہے اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ میں مانتا ہوں کہ نواز شریف یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ انہیں کیوں نکالا گیا ۔ا س ضمن میں ان کی جدو جہد بھی جائز ہے۔

لیکن ساتھ ساتھ انہیں ملک کے مفاد کا بھی خیال رکھنا ہے۔ وہ اپنی ذات کو ملک سے بالاتر قرار نہیں دے سکتے۔ وہ ملک کے لیڈر ہیں۔ وہ اس وقت ایک ٹکٹ میں دو مزہ لے رہے ہیں۔ ایک طرف جنہوں نے ان کو نکالا ہے ان سے لڑ بھی رہے ہیں دوسری طرف ان کے ساتھ شراکت اقتدار بھی ہیں۔ ایک طرف سول بالادستی کا نعرہ بھی لگا رہے ہیں دوسری طرف ان کی جماعت کا وزیر دفاع آرمی چیف کو ملنے جی ایچ کیو بھی چلا جا تا ہے۔

ایک طرف وہ خود اور ان کے ساتھی قومی اداروں کے ساتھ محاز آرائی اور پوائنٹ سکورنگ کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے دوسری طرف وہی ساتھی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں قومی ادروں کے ساتھ مل کر گھنٹوں اجلاس بھی کرتے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا یہ کیسے چل سکتا ہے۔ یہ ملک ایسے کیسے چل سکتا ہے۔ گالی اور ہاتھ ملانے کی پالیسیاں بیک وقت کیسے چل سکتی ہیں۔


کیا ہی اچھا ہوتا کہ نواز شریف نے اگر محاز آرائی کا فیصلہ کر لیا تھا تو اپنی پانچوں حکومتیں ختم کر دیتے۔ کہتے کہ میں عوام کے پاس فریش مینڈیٹ کے لئے جا رہا ہوں۔ اپنا ایجنڈہ لیکر عوام کے پا س جاتے۔ اور پتہ لگ جاتا کہ عوام کا کیا فیصلہ ہے۔ لیکن آدھا تیتر آدھا بٹیر کی طرح تو معاملہ نہیں چل سکتا۔ اس طرح تو لگتا ہے کہ نواز شریف خود ہی پوری گیم ختم کرنے کے درپے ہیں۔

وہ خود ہی نظام کو مفلوج کر رہے ہیں تا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ۔اگر مان بھی لیا جائے کہ نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو اس کا بدلہ نظام اور ملک سے تو نہیں لیا جا سکتا۔ وہ حکومتیں بھی نہیں چھوڑ رہے۔ اور محاز آرائی بھی کر رہے ہیں ۔ ایسے کیسے چلے گا۔
میں سمجھ رہاہوں کہ اگر ملک کی سیاسی قیادت نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو گیم الٹ جائے گی۔

آرمی چیف نے بگل بجا دیا ہے۔ انہوں نے خطرہ کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اگر ن لیگ نے اپنی پالیسی نہ بدلی تو اس بار جمہوریت کے قتل کی ذمہ داری ن لیگ پر ہی عائد ہو گی۔ کیا ہم فرد واحد کی جنگ کے لئے جمہوریت قربان کر سکتے ہیں ۔ نہیں ہر گز نہیں بلکہ جمہوری قیادت تو خود شان سے جمہوریت کے لئے قربانی دے کر امر ہو جاتی ہے۔ کیا یہ وقت جمہوریت کی قربان کا ہے یا جمہوریت کے لئے قربانی دینے کا ہے۔


ملک میں جاری عدم استحکام زیادہ عرصہ نہیں چل سکتا۔ اگر جمہوری اداروں نے فوری طور پر خود اس پر قابو نہیں پایا۔ تو قابو پانے والوں کے پاس کوئی آپشن نہیں ہو گا ۔ وہ زیادہ عرصہ خاموش تماشائی نہیں بن سکتے۔ بہر حال ملک کی سیاسی قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہئے۔ سیاسی جماعتوں کو فریم ورک بنانا چاہئے۔ معیشت پر کھل کر جواب دینا چاہئے۔ سچ بتانا ہو گا۔ اور سچ کا سامنا کرنا ہو گا۔ اسی میں جمہوریت کا مستقبل پنہاں ہے۔عدم استحکام ختم کرنا بھی سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے۔ صرف مرضی کے معاملات پر تعاون کافی نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :