16دسمبر ایک دن دو زخم

اتوار 17 دسمبر 2017

Afzal Sayal

افضل سیال

16 دسمبر پرلکھنے کے لیے بڑا حوصلہ درکار ہے کوئی افسانہ تو نہیں لکھنے جا رہا کہ بس قلم اٹھایا اور چلا دیا۔ یہ تو اپنی ہی آپ بیتی ہے، اپنے ہی لہو کی داستاں ہے، نام نہاد اپنوں ہی کے ہاتھوں ٹکڑے ٹکڑے ہوجانے کی دردناک روداد ہے، آج کا دن میری زندگی کا بھیانک ترین دن ہے اس دن نے میری زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں مجھے یاد ہے میں آفس پہنچا تو ٹی وی پرمسلسل خبربریک ہورہی تھی کہ پشاور آرمی پبلک سکول میں دہشتگردوں نے حملہ کر دیا ہے دیکھتے ہی دیکھتے مصعوم بے گنا شہدا کے خون سے پاکستان رنگ گیا،،میں نے پہلی بار ٹی وی پر لائیو بیپر میں سخت الفاظ اور حکمرانوں کی نااہلی پر کھل کر بات کی اور اسکے بعد میرے ضمیر نے قلم کو جہاد کرنے پرگامزن کردیا ۔

۔۔۔
بد قسمتی سے ریاست پاکستان پچھلے کئی سالوں سے خون کی سوداگری کی سب سے بڑی منڈی بن چکا ہے اور بیوپاری اس خون کو بہانے کے بعد خوب ایڈوٹائزمنٹ کرتے ہیں پھر اچھے داموں فروخت کرتے ہیں ،آج کا دن( 16 دسمبر)پاکستان کی زندگی کا تاریک دن ہے ،آج کے دن قائد کا پاکستان ٹوٹ گیا اور بنگلہ دیش بن گیا ۔

(جاری ہے)

آج کے دن نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا“ آج کے دن نے سانحہ پشاور دیکھا ۔

۔۔۔
سانحہ پشاور کو تین سال بیت چکے لیکن سوالات آج بھی موجود ہیں ،آخر کون ذمہ دار ہے ہمارے بچوں کے قتل کا،انکا قصور کیا تھا ،انکی حفاظت کس کی ذمہ داری تھی ۔ دہشت گردوں کی سہولت کار کون تھے ۔ کن غداروں نے انکے ہدف کو مکمل کرنے میں مدد فراہم کی ۔ بچوں کی حفاظت میں کس نے کوہتاہی برتی ؟ کس پرمقتولین کی ذمہ داری ڈالی گئی ۔بچوں کے والدین اور قوم آج بھی ان سوالوں کا جواب کی منتظر ہے ۔

۔
سانحہ کے بعد یہ ایک رٹا رٹایا بیان سب حکمرانوں کی جانب سے آج بھی سننے کو ملتا ہے کہ بچوں نے جان قربان کرکےدہشتگردوں کے مذموم عزائم کو ناکام بنایا،
پاکستان کی خاطر بچوں نے قربانی دی ۔ نااہلو کیا دہشتگرد سی پیک اور ایٹم بم چوری کرنے آئے تھے۔ جو بچوں نے میدان جنگ میں لڑ کر قربانی دی اور انکے مذموم عزائم کو ناکام بنا دیا ۔ خون کے سوداگرو ہمارے معصوم بچوں کی قبروں سے پوچھو توصیح کہ وہ شہید ہونا بھی چاہتے تھے یا نہیں،وہ تو جینا چاہتے تھے وہ تو گھر سے پڑھنے کے لیے نکلے اور واپس نہ لوٹے،اگر یقین نہیں آتا تو تو ان پچوں کے والدین کے جذبات کو سمجھو اگر آپ بہرے ،لولے، لنگڑے اور اندھے نہیں تو نوشتہ دیوار پڑھ لو ۔

کیوں مذاق اڑا رہے ہوبے گنا بہنے والے خون کا ۔
" ہمیں دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے" کیا پڑھانا ہے جناب؟؟ وہ ہمارے بچوں کو قتل کر رہے ہیں اور ہم انکے بچوں کو پڑھانے کے گیت گا کر والدین کے جذبات کا مذاق اڑا رہے ہیں ۔۔ خون کے بیوپاریو ! بچوں نے 16دسمبر کے دن قربانی نہیں دی انکو قتل کیا گیا ۔ سکول کو مقتل بنانے میں دہشت گرودں کے ہاتھ مضبوط کرنے میں آپکی نااہلی،بددیانتی،ناکام سیکورٹی ، ناکام پالیسیی نے برابر حصہ ڈالا ہے۔

اے وقت کے حکمرانوسچ تو یہ ہے کہ آپ بے گناہ بچوں کے قتل سے ہرگزہرگز بری الذمہ نہیں ہوسکتے ۔۔
تاریخ کے جھرونکوں میں ”میں نے آج ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا“ہاں ہاں قوم نے حقیقتا ڈھاکہ کو ڈوبتے دیکھا.آج کے کالم کے دوران کئی بار آنکھیں دھندلائیں، کئی بار الفاظ آپس میں گڈ مڈ ہوئے، کئی بار دل اپنوں کے ہاتھوں اپنوں کے اس خون ناحق پر اس زور سے نوحہ کناں ہوا۔

مگر وہ نوحے کون سنتا؟ غلطیوں، زیادتیوں، اور ناانصافیوں کے شور میں ایسے نوحے دب جایا کرتے ہیں ۔۔۔۔
مسّودہ میز پر رکھا ہے، جنرل نیازی کا ہاتھ آگے بڑھتا ہے اور ان کا قلم مسودے پر اپنے دستخط ثبت کر دیتا ہے۔ پاکستان کا پرچم سر زمین ڈھاکہ میں سرنگوں ہوگیا۔ جنرل نیازی اپنا ریوالور کھولتے ہیں اور گولیوں سے خالی کر کے جنرل اروڑا کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں۔

جنرل نیازی کے تمغے اور رینک سر عام اتارے جاتے ہیں۔ہجوم کی طرف سے گالیوں کی بوچھاڑ شروع ہوتی ہے۔ جنرل نیازی اپنی جیپ کی طرف آتے ہیں جس کا بھارتی فوجیوں نے محاصرہ کر رکھا ہے۔”قصاب، بھیڑیے اور قاتل“ کا شور اُٹھتا ہے، جنرل نیازی اپنی گاڑی میں بیٹھنے والے ہیں، ایک آدمی محاصرہ توڑ کر آگے بڑھتا ہے، اور اُن کے سر پر جوتا کھینچ کر مارتا ہے۔

ہائے ! یہ رُسوائی ، یہ بے بسی اور یہ بےچارگی، یہ ذلّت اور اور یہ ہزیمت ، ہماری تاریخ نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ وہ جوتا آج کے دن دراصل قائد کے پاکستان کو مارا گیا تھا، کاش میں یہ منظر نہ لکھ رہا ہوتا کاش ایسا کوئی واقعہ مجھے تاریخ میں نہ ملتا کاش آج کا دن کا پاکستان میں کوئی وجود نہ ہوتا ۔۔۔
16دسمبر پر لکھنے کو بڑا حوصلہ درکار تھا کوئی افسانہ تو نہیں لکھنے جا رہاتھا کہ بس قلم اٹھایا اور چلا دیا۔

یہ تو اپنی ہی آپ بیتی تھی، اپنے ہی لہو کی داستاں تھی، نام نہاد اپنوں ہی کے ہاتھوں ٹکڑے ٹکڑے ہوجانے کی دردناک روداد تھی،
یاد رہے جو قومیں اپنے ماضی سے سبق نہیں حاصل کرتیں اور فراموش کردیتیں ہیں تو اُس قوم کو وقت اور تاریخ کے اوراق میں بھی جگہ نہیں دیتے۔
کرسی ہے ،تمھارا یہ جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :