پیپلز پارٹی کی پنجاب میں دبنگ انٹری

ہفتہ 20 جنوری 2018

Mian Ashfaq Anjum

میاں اشفاق انجم

ماڈل ٹاؤن لاہور کے شہدا کو انصاف مہیا کرنے کے مطالبے کے حوالے سے 17جنوری کو مال روڈ پر ہونے والا متحدہ اپوزیشن کا احتجاجی جلسہ کتنا کامیاب تھا کتنا ناکام اس پر بحث مقصود نہیں ہے۔ شرکاء کی تعداد بھی میڈیا گروپس نے اپنی اپنی پسندکے مطابق شائع اور نشر کی ہے اس سے بھی اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ نئے سال کے شروع میں بننے والے اس غیر متوقع اتحاد نے نئی بحث ضروری چھیڑ دی ہے۔

ڈاکٹر طاہر القادری کو نئے انوسٹرز مل گئے ہیں یہی وجہ ہے 17جنوری کے جلسے کی پنجاب میں بالعموم اور لاہور میں بالخصوص جو تشہیری مہم چلائی گئی اس میں عوامی تحریک نظر نہیں آئی۔ مقابلہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف میں نظر آیا۔ واقفان حال کا کہنا ہے ایک دوسرے کے خون کے پیاسوں کو ایک اسٹیج کی فراہمی کے ساتھ ان کے لئے ذمہ داریوں کا تعین بھی کیا گیا تھا جلسے میں شرکت کرنے والی جماعتوں کے نام بھی دے دیئے گئے تھے مقررین کے نام بھی طے تھے اسٹیج سیکرٹری کے پاس فہرست بھی موجود تھی طے پایا تھا پنڈال کی 30ہزار کرسیوں کا کرایہ ایک جماعت دے گی اسٹیج ساؤنڈ سسٹم کا کرایہ دوسری پارٹی دے گی جلسے کی تشہیری مہم میں سب آزاد ہوں گے یہی وجہ ہے لاہور میں عوامی تحریک کا کم از کم مجھے تو کوئی فلیکس یا ہولڈنگ یا بینر نظر نہیں آیا البتہ عرصہ سے پنجاب میں جگہ بنانے کی خواہش مند پیپلزپارٹی نے خوب انٹری ڈالی لاہور میں پیپلزپارٹی کے جھنڈوں آصف علی زرداری، بلاول ، بے نظیر کی تصاویرپرچموں پرخوب سماں باندھے رکھا۔

(جاری ہے)

اس میں کوئی دو رائے نہیں ۔ پیپلزپارٹی پنجاب میں صفر ہو چکی تھی اس کو نئی زندگی دینے میں پیپلزپارٹی پنجاب کے نئے صدر قمر الزمان کائرہ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ کہا جاتا ہے لیڈرشپ وہی ہوتی ہے جو دوراندیش ہو اور بروقت موثر فیصلے کر سکے۔ پیپلزپارٹی نے اس کا خوب فائدہ اٹھایا الیکشن کے نتائج جو بھی ہوں گے، 17جنوری کے احتجاجی جلسے کی تیاریوں میں لاہور جلسے کے پنڈال میں ان کی انٹری دبنگ تھی۔

پیپلزپارٹی کے بیشتر بینرز پر تحریر کئے گئے نعرے نہ صرف متنازعہ تھے بلکہ اس کی زبان بھی درست نہیں تھی 17جنوری کے جلسے کی حاضری 5ہزار تھی یا ڈیڑھ لاکھ کتنا کامیاب کتنا فلاپ جلسہ تھا، یہ الگ بحث ہے البتہ ایک بات ماننا پڑے گی پیپلزپارٹی کی فتح کا دن تھا لاہور سمیت پنجاب میں انتخابی مہم کا آغاز خوب تھا۔ شیروں کے شکاری آصف زرداری کی سیاست کیا رنگ دکھاتی ہے یہ تو وقت بتائے گا اس وقت طاہر القادری کو بالعموم اور آصف زرداری کو بالخصوص داد دینا پڑے گی انہوں نے موجودہ سیاست میں کارنامہ کر دکھایا ہے۔

آصف زرداری کو ملک دشمن قرار دینے والے عمران خان زرداری کو کرپشن کا بادشاہ قرار دینے والی جماعت اسلامی زرداری کو بیماری قرار دینے والی دیگر پارٹیوں ،ابوالخیر کی جماعت ہو، قاری زوار بہادر کی پارٹی ہو، ناصر عباس کا گروپ سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا اور پھر ایک استیج سے تقریریں کروانا ایک لائن میں بٹھانا واقعی کارنامہ تھا۔ متحدہ اپوزیشن کے جلسے کے مقررین کی تقاریر بھی متاثر کن نہیں تھے اگر کہا جائے تو صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکم حاکم والی بات تھی۔

یہ گفتگو کی شکایت کا ذمہ دار شیخ رشید کو قرار دینے سے پہلے رانا ثناء اﷲ کی طرف سے گزشتہ ایک ماہ میں کی گئی گفتگو کو بھی حوصلہ افزا قرار نہیں دیا جا سکتا۔شکوہ اگر کیا جا سکتا ہے تو وہ پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے کا کیا جا سکتا ہے ایک دوسرے کو مارشل لاء کی پیدوار کا طعنہ دینے اور اپنے آپ کو جمہوریت کا عملبردار قرار دینے والوں کی طرف سے پارلیمنٹ پر سو دفعہ لعنت بھیجنے کا عمل نیک شگون نہیں ہے۔

شیخ رشید کا استعفیٰ بھی لطیفے سے کم نہیں ہے کیونکہ 15جنوری کے بعد اب ضمنی الیکشن نہیں ہو سکتا۔ اس لئے شیخ رشید نے جلسے میں واہ واہ ضرور کروالی مگر عملی طور پر صرف سیاسی شعبدہ بازی کے سوا کچھ نہیں۔ عمران خان پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنے میں تو شیخ رشید کے ہمنوا رہے مگر اپنے استعفیٰ کا اعلان گول کر گئے۔
17جنوری لاہور مال روڈ کا جلسہ عوامی تحریک کا کم اور پیپلزپارٹی کا زیادہ نظر آیا عمران خان کی بے ربط تقریر، باڈی لینگوئج نے بھی بہت سے سوالات اٹھائے ہیں اگر کہا جائے عمران خان جو تقریر کرنے آئے تھے وہ کر ہی نہیں سکے تو غلط نہ ہوگا۔

اعتزازاحسن نے اپنی تقریر میں مردان کی صائمہ کے قتل کا سوال کر ڈالا عمران خان کی ساری تقریر کے پی کے کی پولیس کی کارکردگی تک محدود ہو کر رہ گئی۔ نئے سال میں بنتے نئے ڈھیلے ڈھالے اتحاد کے ممبران اضطراب کا شکار نظر آئے ایسا لگا جیسے سب مجبوری میں حاضری لگانے آئے ہیں۔ گزشتہ ایک ہفتے سے دی جانے والی شہبازشریف اور رانا ثناء اﷲ کے استعفیٰ تک دھرنا ختم نہ کرنے کی دھمکیوں کی بازگشت بھی سنائی نہیں دی۔

محسوس ہو رہا تھا متحدہ اپوزیشن کے اتحاد میں اختلافات واضح ہیں سب مجبور ہیں چپ ہیں ایک شخصیت تھی جس نے سارے جلسے میں انجوائے کیا وہ تھے آصف علی زرداری، ان کی باڈی لینگوئج سے لگ رہا تھا وہ پی ٹی آئی سمیت دیگر جماعتوں کا مذاق اڑا رہے ہوں ۔پیپلزپارٹی کو کامیاب شو پر مبارک باد دیتے ہوئے ن لیگ کو بھی مبارکباد دینی ہے آپ کو طاہر القادری کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جس نے آپ کے ایک ایک مخالف کو ایک ساتھ جمع کرکے مستقبل کا سیاسی نقشہ کھینچ دیا ہے۔

پہلے پاکستان میں سیاست چل رہی تھی دائیں بائیں کی اب دائیں بازو اور بائیں بازو کی سیاست ایک ہو گئی ہے۔ اب آئندہ الیکشن ہوگا میاں نوازشریف بمقابلہ دایاں بازو بائیاں بازو کی جماعتیں، یہ معمولی بات نہیں ہے۔ قوم انتظار کرے جاتی امراء کے اعلان اور گھیراؤ کا اور اسمبلیوں سے استعفوں کا، اپوزیشن کے نئے پتے رواں ہفتے شو ہونے جا رہے ہیں ہو سکتا ہے پیر سیالوی کے 20جنوری کے دھرنے کے بعد پیر خادم رضوی کا دھرنا اور طاہرالقادری اور اس کے اتحادیوں کے دھرنے کا مقام بھی ایک ہو جائے زیادہ دور کی بات نہیں جلد ہونے کو ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :