محترم سہیل وڑائچ کے کالم کے جواب میں

منگل 13 فروری 2018

Zaheer Ahmed

ظہیر احمد

سہیل وڑائچ صاحب نے اپنے کالم میں نواز شریف کے ہٹائے جانے کو حضرت عیسی ،سقراط اور ابن رشد کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے ساتھ تشبیہ دینے کی کوشش کی ۔سقراط کا موازنہ نواز شریف سے کیا گیا سمجھ میں نہیں آیا سقراط ایک فلاسفر کا موازنہ تین بار وزیر اعظم رہنے والے سیاستدان سے کیسے کیا جا سکتا ہے؟؟کیا صرف ایک قدر کا مشترک ہونا کہ سقراط کو اس وقت کی عدلیہ نے سزا دی تھی یہ ثابت کرتا ہے کہ نواز شریف کو عدلیہ نے نااہل کیا ہے تو دونوں کو ایک پیرائے میں دیکھا جا سکتا ہے ؟کیا سقراط اس لیے امر ہوا کہ عدلیہ نے سزا دی تھی ؟ سقراط اور نواز شریف کا موازنہ کا جملہ بھی لکھتے ہوئے خود پر ہنسی آرہی ہے مگر حقائق جاننے کے لیے موازنہ ضروری بھی ہے سب سے پہلے تو سہیل وڑائچ کے دنیا اخبار میں دس ماہ پہلے لکھے گئے کالم سے کچھ جملے یہاں حاضر ہیں ’کہاں نواز شریف کہاں سقراط دونوں مین زمین آسمان کا فرق ہے وہ فلاسفر تھا یہ سیاستدان اور بزنس مین سقراط پر الزام کہ وہ ریاست کے خداؤں کو تسلیم نہیں کرتا اور یہ بوڑھی سیاست کا نقیب سقراط پر اپنے عقائد اور فکر پھیلانے کا الزام اور نواز شریف پر کرپشن کا الزام ‘ آگے جا کر محترم لکھتے ہیں کہ نواز شریف سقراط تو نہیں مگر علم نہیں انھیں کون ایسا بنانا چاہتا ہے‘ تو محترم سے گذارش ہے کہ جو سوال دینا اخبار میں آپ نے اٹھایا کہ نواز شریف کو کون سقراط بنانا چاہتا ہے تو جنگ اخبار میں آکر آپ نے ثابت کیا کہ کوئی اور نہیں آپ ہی انھیں سقراط بنانا چاہتے ہیں ۔

(جاری ہے)

۔اب ذرا سقراط کا موازنہ نواز شریف سے کر لیا جائے ۔۔سقراط فلاسفر اپنے زمانے کے استحصالی نظام کے خلاف تھا اور نوجوانوں کے تعاون سے اسکو تبدیل کرنا چاہتا تھا
نواز شریف تین بار کا وزیر اعظم اور روایتی نظام کا استعارہ۔عدالت میں اپنے بیان میں ایتھنز کے رہنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے سقراط نے کہا’تم ہر ممکن کوشش کرتے ہو کہ دولت شہرت مقام و مرتبہ میں خوب سے خوب تر ہوجاو۔

کبھی یہ سوچا کہ سچائی دانش اور اپنے نفس کے لیے بھی کوشش اور محنت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ بھی خوب سے خوب تر ہو‘ اب نواز شریف کو اس پیرائے میں رکھ کر خود فیصلہ کریں انکی ترجیحات کیا ہیں ؟جب اپنے لیے سزا تجویز کرنے کی باری آئی تو سقراط نے کہا کہ میں زندگی بھر آرام سے نہیں بیٹھا کیونکہ میں ان چیزوں پر جن پر لوگ مرتے ہیں مال بنانے گھر بنانے خاندان سنوارنے ،عوامی خطابات ریاستی عہدوں زمینوں اور جماعتوں کو ذرا اہمیت نہیں دی اب اسکا مواز نہ بھی نواز شریف سے کر لیں ان سے کہ جن کی نہ دولت کا حساب نہ زمینوں کا ان سے کہ جن کی بیرون ملک بھی جائیدایں جن کے خاندان کا ایک ایک فرد عہدے اور حثیت رکھے ہوئے جن کا نہ صرف اپنا بلکہ بھائی بیٹی اور بھتیجوں کا بھی اگلا ٹارگٹ عہدے ہی ہیں کیا موازنہ ہے ؟؟؟سزا تجویز کرنے پر جب سقراط نے کہا کہ کیا ملک بدر کرنے کی تجویز دوں؟ اس سزا پر شائد آپ مان بھی جائیں اور اگر مجھے زندگی پیاری ہے تو یہی سزا اپنے لیے تجویز کر لوں لیکن کیا میں ایسا ہی گیا گذرا شخص ہوں آپ جو میرے ہم وطن ہیں میرا کام اور باتیں برداشت نہیں کر سکے یہ آپ کے لیے اتنی تکلیف دہ اور کڑوی ہیں آپ مجھے ملک بدر کریں تو کیا دوسرے اس کو برداشت کریں گے ؟‘ اور سقراط نے زہر کا پیالہ پی لیا۔

۔ا ب اسکو نواز شریف کے جلا وطنی کی ڈیل کے پیرائے میں دیکھ لیں تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ۔۔اب خود اندازہ لگائیں کیا ہے کوئی موازنہ ؟؟ کیا عدالت سے سزا کی وجہ سے سقراط آج بھی زندھ ہے یا اپنی سوچ کی وجہ سے زندھ ہے۔۔اصلوں کے پکے سقراط کی لندن میں جائیداد تھی؟؟ اپنے ملک میں زمینیں دولت اور جائیدا د تھی؟ وہ ایک بار بھی حکمران رہا
وہ ایک نظریہ تھا جس کا نظام کے خلاف بس نہ چلا تو حق پر چلتے ہوئے زہر کا پیالہ پی لیا ۔

۔۔اور نواز شریف جو خود نظام کا حصہ جن کا کو ئی نظریہ تھا نہ اصول جس سے اقتدار چھینا جائیداوں کے مقدمے بننے تو اصول بھی یاد آگیا نظریہ کو وجود بھی راتوں رات عمل میں آگیا ۔۔۔ہے کوئی مقابلہ سقراط سے؟؟محترم سہیل وڑائچ کے اپنے ہی کالم جودنیااخبارکے لیے انھوں نے سات آٹھ ماہ پہلے لکھا تھا جس کا عنوان تھا ’اثاثے واپس لائیں ‘ آپ نے لکھا پانامہ کیس کا فیصلہ کچھ بھی ہو بہرحال طے ہے کہ بیرون ملک اثاثے رکھنے والوں کے بارے میں قانون سازی کرنی ہو گی اگر عوامی دباو قائم رہا تو ہر اہل اقتدار کو اپنے بیرون ملک اثاثے بیچ کر پاکستان لانے ہوں گے اگر کسی نے ملک میں سیاست کرنی ہے تو اسکے بیرون ملک اثاثوں کا جواز کیا ؟ ؟؟
یہ آپ کی اپنی لکھی ہوئیں سطریں ہیں ایک لفظ کا اضافہ نہیں ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا اب بیرون ملک کے اثاثے واپس آچکے ہیں ؟؟؟
اگر نہیں تو پھر آج آپ یہ اصول کیوں بھول گئے آج آپ یہ سوال کیوں نہیں اٹھا رہے ؟؟ آپ کے نذدیک جن بیرون ملک اثاثوں والوں کو سیاست کو جواز نہیں تھا آپ آج نواز شریف کو سقراط ابن رشد اور جالب بنانے پر کیوں تلے ہوئے ہیں ؟؟ کیا اخبار یا میڈیا گروپ تبدیل کرنے سے نظریہ اصول یا سوالات تبدیل ہو جایا کرتے ہیں؟آج آپ نواز شریف کو سقراط سے جوڑنے اور تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جانے کی باتیں کر رہے ہیں آپ کو یاد کو گا دنیا اخبار میں آپ نے کہا کہ یاد رکھیں اگر اہل سیاست نے اپنے تاثر کو بہتر کرنا ہے تو سب کو بیرون ملک سے اثاثے واپس لانا ہونگے اور احتساب کا ایسا نظام تیار کرنا ہوگا جس پر سب کو اعتماد ہو ۔

اگر ایسا نہ ہو سکا تو پھر داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں‘

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :