خود نوشت کے مداری

منگل 13 فروری 2018

Hussain Jan

حُسین جان

یہ پہلے بھی عرض کرچکاہوں کہ موجودہ زمانے میں کتابیں صرف کمرشل مقاصد کے لیے لکھی جارہی ہیں۔ ایک عرصہ ہو ا بامقصد اور تعبیری مواد لکھنا اور چھپنا بند ہوچکا ہے۔ اب تو لکھا جاتا ہے کہ دکھے اور بکے تاکہ بڑئے بڑئے گھروں میں رہا جائے اور بڑی بڑی گاڑیوں میں گھوما جائے۔
ہر انسان کی بڑھنے میں اپنی اپنی پسند ہے۔ اسی طرح مجھے خود نوشتیں (آب بیتاں) پڑھنے کا بہت شوق ہے۔

یہ دعوع تو نہیں کرسکتا ہے کہ میرے پاس نادر اور نایاب آب بیتاں پڑی ہیں۔ ہاں مگر کافی حد تک موجود ہیں۔برصغیر میں ہم آب بیتوں کو تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ پہلا حصہ کلاسیکی جیسے ہم آب بیتوں کا آغاز بھی کہ سکتے ہیں بقول محمد حامد سراج پہلی آب بیتی ایک خاتون کی تھی جو نواب آف پٹودی اکبر علی خان کی دختر تھی جنہوں نے خالبا 1838میں اپنی زندگی کے حالات و واقعات قلم بند کیے۔

(جاری ہے)

اس کالم میں ہمارا مقصد آب بیتوں کی تاریخ پر ریسرچ کرنا نہیں بلکہجو جھوٹ ان کتابوں کے زریعے لوگوں تک پہنچایا گیا ہے اُس پر تھوڑٰ سی روشنی اور اپنا اظہار خیال کرنا ہے۔ اسی طرح دوسرا حصہ تقسیم سے پہلے اور تیسرا حصہ تقسیم کے بعد۔
سب سے پہلے تو تمام لوگ اپنے اپنے بچپن کے قصے کہانیاں سننایں لگتے ہیں کہ کیسے ہم پیدا ہوئے کیسے پلے بڑے کیا حالات تھے۔

مزے کی بات تو یہ ہے کہ مصنفین حضرات پیدائش کے وقت کے سیاسی اور معاشرتی حالات بھی بیان کر دیتے ہیں اور انتہائی بے شرمی سے خود کو چشم دید گواہ بھی قرار دیتے ہیں۔ پھر بات گھوما پھرا کر اپنے لڑکپن اور جوانی میں لے آتے ہیں۔ اگر آپ غور کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ آب بیتی لکھنے والے کے تمام دوست، احباب نیک سیرت ہو ہوتے ہیں۔ مبالغہ آرئی سے بہت کام لیا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں خود نوشتوں میں سچ لکھنے کا رواج نہ ہونے کے برابر ہے۔ سیاستدانوں پر خود نوشت یو یوں لگتی ہے جیسے کسی فرشتے نے لکھی ہو۔ وہ سیاستدان جن کی ساری عمر کرپشن کیسوں کی مد میں عدالتوں میں پیش ہونے میں لگ جاتی ہے وہ بھی بہتریں انسان ہونے کا ثبوت دینے کی کوشش کرتے پائے جاتے ہیں۔ سیاستدان لکھتے وقت زیادہ تر اپنے حلیفوں پر الزامات کی بارش کر دیتے ہیں۔

بہت سے سیاستدان سانحہ بنگلہ دیش کے زمہ دار فوج کو ٹھہراتے ہیں۔ جبکہ دوسرے طرف یہی الزام سیاستدانوں پر لگایا جاتا ہے۔
صحافیوں کی آب بیتی پڑھ کر دیکھ لیں تو یوں لگتا ہے جیسے ملک میں انتشار ہی انتشار تھا اور ایسے میں انہوں نے اپنی زمہ داریاں بہت احسن طریقے سے نبھائی۔ کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہاں میں نے لفافے لیے بلکہ یہی کہا جاتا ہے کہ ہمیں لفافوں کی آفرز ہوئیں جو ہم نے ضمیر کی آواز پر ٹھکرا دیے۔

کھلاڑی بھی کسی سے کم نہیں اپنی خود نوشتوں میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالٹے ہوئے انتظامیہ پر الزامات کی بارش کر دیتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک کتاب نام ور ادیبوں کی آب بیتاں پڑھ رہاہوں۔ ایسے ایسے جھوٹ لکھیں ہیں کہ عقل دھنگ راہ جاتی ہے۔ تاریخ دان بھی اکثر جھوٹ ہی لکھتے پائے جاتے ہیں۔ اپنی اپنی وفاداریوں کی تشہیر کی جاتی ہے۔

اصول نام کی چیز کسی میں موجود نہیں۔
فنکار بھی اس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں۔ فنکاروں کی زندگی میں صرف اداکاری اور سکینڈلز ہی موجود ہوتے ہیں۔ یہ عموما شادیوں کے بعد ایک بہترین خود نوشت لکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اُنہوں نے یہ مقام کتنی محنت سے حاصل کیا۔ اساتذہ کرام پہلی بات تو آب بیتی لکھتے نہیں اگر لکھ بھی دیں تو ہمیشہ اپنے فرض شناسی کا رونا روتے رہتے ہیں۔

حقیقت میں پاکستان کے میعار تعلیم سے ہی اساتذہ کرام کی کارکردگی صاف دیکھی جاسکتی ہے ۔
چلیں ادیبوں کی آب بیتاں تو ادب کا حصہ سمجھی جاسکتی ہے اور اس میں جھوٹ بھی بہترین تحریر کی آڑ میں چھپ جاتا ہے۔ مگر دوسرئے لوگوں کو کیا ضرورت ہے جھوٹ بولنے کی۔ کل کو میاں صاحب بھی جب اپنی خود نوشت لکھیں گے تو کہیں گے ہم نے بدلا تھا پاکستان ہم بدلیں گے پاکستان۔

مشرف صاحب نے بھی اپنی کتاب میں بہتریں مبالغہ آرائی سے کام لیا ہے۔ میرے خیال میں اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کا بہترین طریقہ آبے بیتی لکھنا ہی ہے۔ اس میں آپ کسی کی ذہانت کو بھی اپنے کھاتے میں ڈال سکتے ہیں۔ جو حالات دیکھیں کہیں نہ کہیں خود کو اس میں فٹ کر کے لکھ دیں۔ جن لوگوں نے پاکستان بنتے دیکھا اُنہوں نے بھی اپنی کتابوں میں قائد آعظم کے ساتھی ہونے کا دعوع کیا۔

لوگ مان بھی جاتے ہیں کہ کون سا ہم اُس زمانے میں موجود تھے۔
پیسے کمانے کے لیے بھی آب بتیاں لکھی جاتی ہیں۔ خشونت سنگھ نے تو دو دفعہ آب بیتی لکھی۔ پہلی کے بعد اُسے کافی مہلت مل گئی تھی اسی لیے دوسری بھی لکھ ڈالی۔ جب تک سچ لکھنے کے رواج کو عام نہیں کیا جائے گا اور تاریخ کو اصل شکل میں بیان نہیں کیا جاتا لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا مشکل ہے۔ اپنے مامے ،چاچے تو اچھے لکھ دیے جاتے ہیں پر دوسروں پر کیچر اُچھالا جاتا ہے۔ وفاداریوں سے بالاتر ہو کر لکھنے کو ہی اصل آب بیتی مانا جائے گا۔ یورپ کے ادیب کسی حد تک اپنی آب بیتوں میں سچ لکھ دیتے ہیں کہ آنے والی نسل سبق حاصل کر سکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :