خاموش این ار او مبارک

پیر 19 فروری 2018

Afzal Sayal

افضل سیال

نوازشریف وزیر اعظم تھا زرائع ابلاغ کے ذریعے ایسے حالات پیدا کر دیے گئے کہ ناچاہتے ہوئے بھی راحیل شریف نے مدت ملازمت میں توسیع نا لینے کا اعلان کردیا ۔ جس کے بعد انہوں نے عرب ممالک اور امریکہ بہادر کے ساتھ ملکر بھرپور کوشش کی کہ نواز شریف میری مدت ملازمت میں توسیع کا خود اعلان کرے لیکن نوازشریف ڈٹا رہا اور ایک معائدہ کے نتیجے میں جرنیل صاحب سعودی عرب کو پیارے ہوگئے ۔

لیکن انہوں نے نوازشریف کو گھر بھیجنے کا فیصلہ کر لیا قاضی کو جب مجبور کیا گیا کہ نوازکا جانا لکھ دیا گیا ہے صرف آپکی منظوری درکار ہے تو قاضی نے بجائے کرپشن ،جھوٹ ،جعلی کاغذات یا منی ٹریل کی عدم دستیابی کے باوجود ایک اقامہ پر نوازشریف کوگھر بھیج دیا ۔ سیاسی طور پر کمزور نواز شریف کو اقامہ نے جلاد بخشی اور وہ مجھے کیوں نکالا کا نعرہ لگاتے ہوئے جی ٹی روڈ پر نکل پڑا نوازشریف کے لاہور پہنچنے تک نئے خاموش این ار او کا سکرپٹ لکھا جا چکا تھا ۔

(جاری ہے)

اچانک وزیر اعظم شائدخاقان عباسی عمرہ کی سعادت کے ثواب کے ساتھ این ار او سکرپٹ کا مسودہ واپس لیکر لوٹا اور میاں صاحب سے دستخط کرنے کی درخواست کی میاں صاحب نے کہا کہ دستخط ضرور کریں گے لیکن ابھی اس پر مسٹر امریکہ کے دستخط باقی ہیں ، جس کے بعد صدر ٹرمپ سعودی عرب پہنچے سعودی ولی عہد نے پاکستانی خاموش این ار او کا سکرپٹ اپنے ضمانتی مچلکے لگا کر انکے سامنے رکھا ،جو پہلے ہی انکی منظوری سے تیار کیا گیا تھا صدر ٹرمپ نے چند الفاظ کے اضافہ کے ساتھ مہر ثبت کردی ، جس کے بعد عملدرآمد شروع ہوگیا ،اچانک نوازشریف سعودی یاترا پر چلے گئے ،تین دن بعد چھوٹے میاں صاحب کو خصوصی طیارے پر بلوایا گیا اور سعودی ولی عہد نے مسودہ پر دستخط لے لیے ۔

اب اس مسودے پر صرف ایک صاحب کے دستخط باقی تھے ۔چند ہفتے بعد وہ صاحب بھی عمرہ کرنے چلے گئے ولی عہد نے انکو مسودہ کی کاپی پیش کی اور دستخط ہولڈر کے نام کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ سب سے پہلے تو آپ اس پر دستخط کریں اور اس کے بعد پاکستان میں اس مسودے پر عمل درآمد کروانا اب آپکی ذمہ داری ہے ۔(یاد رہے کہ اس این ار او میں جوڈیشلی کا کہیں ذکر نہیں کیونکہ انکو اہم ہی نہیں سمجھا گیا ، نا تو انکے پاس بندوق ہے نا وہ بڑے بڑے بوٹ پہن کر عدالت آتے ہیں اور نا ہی انفرادی طاقت میسر ہے ) نوازشریف سعودی یاترا سے واپس آیا اور ترنک کا پتہ کھیلا ۔

۔ پلان کے مطابق عدالت کے خلاف ایک بھر پور پریس کانفرنس جڑھ دی جبکہ وردی والوں کے ماضی کا بھی ذکر کیا تاکہ جو میڈیا میں نئے این ار او کی خبریں گردش کر رہی تھیں اس کا توڑ نکالا جائے ،نواز شریف کامیاب رہا پی ٹی آئی اور نام نہاد دانشوروں نے ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا کہ انکو کوئی این ار او نہیں ملا جس وجہ سے میاں صاحب نے عدالت کے خلاف سخت زبان استعمال کی ۔

۔ اب اگرآپ نوازشریف اور مریم نواز کے بیانات اور تقریروں کا تجزیہ کریں تو وہ مسلسل پہلے عدالتوں اور اب براہ راست نام لیکر ججوں پرحملہ آور ہوچکے ہیں ۔۔۔ اس کے دو بڑے مقاصد ہیں ایک یہ کہ ججز ہماری تقریروں کے ری ایکشن میں ہمیں توہین عدالت کے جرم میں سزا دینے کی غلطی کریں اور ہم عدالت کو متنازع اور سیاسی بنا دیں، دوسرا یہ کہ عدلیہ کو اتنا متنازع بنا دو کہ اگر پانامہ کیس میں سزا ہوجائے تو ہم باآسانی عوام کی نظروں میں سیاسی و انتقامی قیدی بن جاہیں ۔

۔ کیونکہ خاموش این ار او پر عمل درآمد میں اس وقت عارضی رکاوٹ عدالت ہے اسکا مکو ٹھاپنا ضروری ہے ۔۔۔۔ خاموش این ار او پر عمل درآمد ہوتا نظر آ رہا ہے،اور مسودہ کے الفاظ اور دستخط چیخ چیخ کر اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہیں ، پارٹی ٹوٹنے ۔ اسمبلی میں فارورڈ بلاک بننے ، سینٹ الیکشن سے پہلے اسمبلیاں ختم ہونے اور حدیبیہ پیپر ملز کیس ری اوپن ہونے سمیت تمام افواہیں دم توڑ چکی ہیں اور ن لیگ کی ڈوبتی کشتی اب کنارے کی جانب گامزن ہے ۔

۔ علی ترین کی شکست این ار او کا شاخسانہ ہے ۔ بڑے بڑے دانشور نامی بھاڑے کے ٹتو اس ضمنی الیکشن کو ن لیگ کی جیت اور تحریک انصاف کی شکست کا ڈھونگ رچا رہے ہیں ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی کی ہے جوایسے دیہی حلقوں کی سیاست جانتے ہی نہیں ،علی ترین کے خلاف حلقے کے تمام سٹیک ہولڈر کو اختلافات ختم کرنے کا حکم دیا گیا اور بارہ بڑے گروپوں نے ملکر علی ترین کو شکست دی ، لودھراں حیسے حلقے میں پارٹی ووٹ زیادہ سے زیادہ دس سے پندرہ فیصد ہے جو رزلٹ پر اثر انداز نہیں ہو سکتا ۔

کیا آپ بھول گئے کہ اس حلقہ میں صدیق بلوچ 2013میں آزاد جیت گیا تھا اور یہ دونوں جماعتوں کے امیدوار ہار گئے تھے ۔
خاموش این ار او کے مطابق نواز حکومت اپنی مدت پوری کر رہی ہے اور اگلا الیکشن جیت کر حکومت بناے گی اس حکومت میں نواز شریف تو نہیں ہوں گے لیکن شہباز شریف وزیر اعظم ہوں گے ۔جبکہ مریم کو آنے والی حکومت میں ملکی لیول پر کوئی اہم رول نہیں دیا جائے گا ۔

۔ کیوںکہ ملک کے اصل حکمرانوں کو نوازشریف اس لیے پسند نہیں تھا کیونکہ وہ کبھی کبھار ضد کر جاتا تھا اور اپنے اختیارات کا رونا روتا تھا ، جبکہ وہ عمران خان کی طرح نادان بلکل نہیں تھا ۔۔ اسکے باوجود وہ نااہل ٹھہرا ۔ کیا اصل حکمران عمران خان جیسے اتھہرے لیڈر کو کیوں حکمران بنائیں گے؟؟ ۔۔ اپنے ہاتھوں سے اپنے بزنس کا قتل کوئے نہیں کرتا صاحب ۔۔ انکو اپنا پرانا ہمنوا چاہیے جسکا نام شہباز شریف ہے پوری قوم کو خاموش این ار او مبارک ہو
قارئین میرا کالم سنمبھال کر رکھیے گا تاکہ سند رہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :