عزت نفس

ہفتہ 24 فروری 2018

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

والدین غریب ہو سکتے ہیں اور وسائل کی کمی کی وجہ سے اپنے بچوں کو ضروریات زندگی بہم پہنچانے میں ان سے کمی بیشی ممکن ہے لیکن وہ اپنی اولاد کو شفقت اور محبت کی دولت دینے میں کبھی پیچھے نہیں رہتے ۔ امارت یا غربت اپنی جگہ لیکن سب ماں باپ اپنی اولاد کو شفقت ضرور دیتے ہیں اور یہ ایک ایسا جذبہ ہے جو صرف والدین کا ہی خاصا ہے۔ یتیم خانہ میں پلنے والے بچوں کو بنیادی ضروریات اور تمام آسائشیں بہت بہتر انداز میں میسر ہوسکتی ہیں لیکن انہیں ماں باپ کی شفقت نہیں مل سکتی جو انہیں صرف گھر کے ماحول میں میسر ہوتی ہے۔

والدین کی شفقت ایک ایسی قدر مشترک ہے جو دنیا کے ہر خطہ، ہر مذہب اور ہر نسل انسانی میں ہمیشہ سے ہے اور رہتی دنیا تک رہے گی۔ جن بچوں کے سر سے والدین کا سایہ اٹھ جاتا ہے، انہیں دنیا جہاں کی چیزیں لا دیں لیکن والدین کی شفقت کی کمی کوئی چیز پوری نہیں کرسکتی۔

(جاری ہے)

والدین ایک خاندان کی سطح پر اپنے بچوں کے سرپرست ہوتے ہیں تو ریاست اجتماعی سطح پر اپنے شہریوں کی نگران ہوتی ہے۔

والدین کی طرح ریاست بھی امیر یا غریب ہوسکتی ہے اور وہ اس سے اپنے تمام شہریوں کو سب ضروریات زندگی مہیا کرنے میں کمی بیشی ہوسکتی ہے کیونکہ ہر ریاست کے وسائل اور صلاحیتیں مختلف ہوسکتی ہیں لیکن ایک خوبی جو ہر ریاست میں ضرور ہونی چاہیے اور وہ اپنے ہر شہری کو "عزت نفس" دینا ہے۔ ریاست میں شہری مختلف عہدوں پر فائز ہوتے ہیں اور وہ اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں۔

ان کی مالی اور سماجی حیثیت میں بہت فرق ہوتا ہے لیکن عزت نفس سب کی ایک جیسی ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسی دولت ہے جو ہر ایک ریاست اپنے تمام شہریوں کو مہیا کرتی ہے۔ جس طرح سب والدین اپنے بچوں کو شفقت و محبت دیتے ہیں اسی طرح ہر ریاست اپنے تمام شہریوں کو عزت نفس کی لازوال دولت سے نوازتی ہے۔ ماہرین نفسیات تو یہاں تک کہتے ہیں کہ بچوں کی عزت نفس کا بھی خیال رکھا جائے اور اگر کبھی ڈانٹ ڈپٹ کی ضرورت بھی ہو تو یہ سب کے سامنے نہیں کرنا چاہیے۔

سویڈش نظام تعلیم میں یہ دیکھا گیا ہے کہ سکول سے یونیورسٹی تک امتحانی نتائج سب کے سامنے نہیں بتائے جاتے بلکہ رازداری کے اصول کے تحت صرف متعلقہ طالب علم کو ہی اس کے نتیجہ سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ یہ ہے عزت نفس کا خیال رکھنا تاکہ تعلیمی اعتبار سے کمزور طالب علم کی سب کے سامنے سبکی نہ ہو۔
حضرت عمر کے دور میں مصر کے گورنر عمرو بن العاص تھے۔

ان کے بیٹے محمد بن عمرو نے ایک قبطی مسیحی کو ایک معمولی وجہ سے بے عزت کیا اور پٹائی کی جس سے اس شخص کی عزت نفس مجروح ہوئی۔ قبطی نے خلیفہ وقت کے عدل کی شہرت سن رکھی تھی اور سیدھا شکائیت لے کر حضرت عمر کے پاس پہنچا اور عدل کا مطالبہ کیا۔ حضرت عمر نے دریافت کیا کہ ایسا کیوں کر ہوا تو مصری بولا کہ میں نے حضرت عمرو بن عاص کے بیٹے کے ساتھ دوڑ میں مقابلہ کیا۔

اس مقابلہ میں جب میں اس سے آگے بڑھ گیا تو گورنر کے بیٹے کو بہت برا لگا اور وہ مجھے کوڑے مارنے لگا۔ حضرت عمر جب معاملہ کی تصدیق کر لی کہ قبطی درست کہہ رہا ہے تو آپ نے گورنر اور اس کے بیٹے کو مدینہ طلب کیا۔ ناحق پیٹنے کے بدلے میں گورنر کے بیٹے محمد بن عمرو کو اسی قبطی سے کوڑے لگوائے اور گورنر مصر حضرت عمرو بن العاص کو بھی سختی سے تنبیہ کی کہ ایسا کیوں ہوا۔

اس موقع پر حضرت عمر نے ایک تاریخی جملہ بھی کہا کہ "تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنا رکھا ہے جب کہ ان کی ماوٴں نے انھیں آزاد جنا ہے؟" ۔
یہ ہے ریاست کا اپنے شہریوں کی عزت نفس کا خیال رکھنا جو بدقسمتی سے اب اسلامی ریاستوں میں تو ناپید ہے لیکن اہل مغرب نے اپنے ہاں اسے یقینی بنایا ہوا ہے۔ برطانیہ میں مقیم معروف صحافی، کالم نگار اور مصنف جناب احمد نظامی نے ایک دفعہ اپنی تقریر میں بہت اہم جملہ کہا تھا کہ "جب میں یورپ میں آیا اور یہاں رہنا شروع کیا تو مجھے اپنے انسان ہونے کا احساس ہوا"۔

واقعی انہوں نے درست کہا اور حقیقت بھی یہی ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ باقی معاملات اپنی جگہ لیکن مغربی ریاستوں نے اپنے شہریوں کی عزت نفس کی مکمل ضمانت دے رکھی ہے۔ کوئی بڑے سے بڑا عہدہ رکھنے والا اور اعلی افسر بھی اپنے سب سے چھوٹے ملازم کے ساتھ برا سلوک کرنا تو درکنار وہ اسے کوئی ایسا لفظ نہیں کہہ سکتا جس سے اس کی عزت پر حرف آئے۔

ملازمت ہو یا زندگی کا کوئی بھی شعبہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کو بے توقیر کرے اور اگر کبھی کسی سے ایسا ہو بھی جائے تو قانون کے تحت نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔عام شہری تو ایک طرف رہے اگر کوئی کسی جرم میں پکڑا جائے تو اس کی بھی عزت نفس کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔نفرت جرم سے ہوتی ہے انسان سے نہیں۔ جب ریاست اپنے شہریوں کو عزت اور احترام دیتی ہے تو خود بخود حب الوطنی کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے۔

جس ریاست کے شہریوں کو عزت نفس حاصل ہو ، وہاں حب الوطنی کے لیے ترانے اور جھنڈے لہرانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اب کوئی اسے مغرب کی ثناخوانی کہتا ہے تو کہتا رہے لیکن یہ سچ ہے ۔ انسان تو ایک طرف رہے ان مغربی ریاستوں میں جانوروں کا بھی خیال رکھا جاتا ہے اور کوئی بھی شخص کسی جانور کے ساتھ بھی ظلم نہیں کرسکتا۔ حضرت عمر  نے یہی فرمایا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر جائے تو اس کی ذمہ داری مجھ پر ہے لیکن بدقسمتی سے اسلامی ریاستوں آج جانور تو ایک طرف رہے ،کوئی انسانوں کی ذمہ داری بھی اٹھانے کے لئے بھی تیار نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :