مساواتی تجزیہ

ہفتہ 24 فروری 2018

Muhammad Wajid Tahir

محمد واجد طاہر

دنیا کے سارے معاشرے لبرل اور قدامت پسند سوچ پر مشتمل ہوتےہیں کوئی بھی معاشرہ مکمل طور پر لبرل اقدار اور روایات کو فروغ نہیں دیتا اور نہ ہی قدامت پسندی طرز ذ ندگی پر مکمل طور پر حاوی ہوسکتی ہے البتہ افراد معاشرہ اپنی تعلیم تجربات اور اپنے تاریخی تناظر میں اپنی سوچ کے دائرہ کار کو متعین کرتے ہیں۔ یہی سوچ سیاسات کے مختلف مراحل پر گہری طور پر اثر انداذ ہوتی ہے اور کسی بھی معاشرے کی سیاسی بصیرت کو نہ صرف جنم دیتی ہے بلکہ پروان بھی چڑھاتی ہے
تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ترقی کے مراحل مختلف انداذ سے افراد معاشرہ کی سوچ پر اثر انداذ ہوتے ہیں اس لیے کبھی لبرل اور کبھی دقیا نوسی سوچ کا سیاسی مراحل میں غلبہ ہو جاتا ہے۔

اس کے علاوہ سیاسی بصیرت کا دارومدار کافی حد تک سیاسی پارٹی کے دلپزیر لیڈر کی سوچ پر بھی ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ایک مخصوس سوچ کے حامل لیڈروں نے قومی سوچ کے دھارے بدل کر رکھ دیے فرانس اور ایران کے انقلابات اس کی بہتریں امثال ہیں
اسی تناظر میں میں آج آپ کی توجہ ایک اہم موضوع پر دلانا چاہتا ہوں
شادی کرنااورشریک حیات کا انتخاب اپنی مرضی سے کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔

جب انسان اپنی پسند سے شادی کرتا ہے تو اس چیز کے قوی امکانات ہوتے ہیں کہ وہ اپنے شریک حیات کا انتخاب اپنی سوچ (لبرل یا قدامت پسند) کو بنیاد بنا کرکرتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک مسجد کا مولوی جو کہ لبرل سوچ کر خاطر خواہ تنقید کا نشانہ بناتا ہو۔یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ایک ماڈل لڑکی سے شادی کر لے۔ لیکن اگر وہ پہلی شادی ایک برقع پوش خاتون سے کرے، دوسری ایک ڈوپٹہ اوڑھنے والی سے اور تیسری ایک انگلش میم سے تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ مولوی صاحب آہستہ آہستہ لبرل سوچ کے حامی ہوگئے ہیں۔


جماَئمہ سے ریحام سے بشری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا سفربھی ہردل عزیز سیاسی لیڈر کی بدلتی ہوئی سوچ (لبرل یا قدامت پسند)کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک پولیٹیکل سائنس کے طالب علم ہونے کے ناطے مجھے اس تبدیلی سے ضیاء حق کی نام نہاد اسلامائزیشن کی بو آ رہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :