23مارچ2018ء اور ہم

منگل 20 مارچ 2018

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

23 /مارچ ، ہاں وہی 23/ مارچ 1940ء جو تاریخ میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تحت قائد اعظم  کی ولولہ انگیز انتھک قیادت میں لاہور میں منعقد ہوا تھا۔ جس میں قراداد مقاصد پاس ہوئی تھی۔ جس نے مسلمانان برصغیرکو ایک صراط مستْقیم بتا دی تھی یعنی سیدھے راستے پر چلنے کا راستہ۔ وہ سیدھا راستہ کیا تھا۔ وہ یہ تھاکہ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہے۔ اس کا اپنا مقصد حیات ہے ۔

اس کی اپنی تہذیب، تمدن، ثقافت اور کلچر ہے۔ وہ اس مقصد زندگی پر آزادانہ چلنے کے لیے پاکستان کی مانگ کر رہی ہے۔ یہ وہ مانگ ہے جو شاعر اسلام علامہ شیخ محمد اقبال  کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ جو اس کا بنیادی حق ہے ۔ اس وقت ا یک سوال یہ بھی تھا مسلمانوں نے برصغیر پر ایک ہزار سال حکومت کی تھی۔اس ہزار سال میں برصغیر میں ہندوؤں کی کوئی بھی حکومت نہیں رہی۔

(جاری ہے)

مسلمانوں کو حکومت چلانے کا ہزار سالہ تجربہ تھا۔جبکہ ہندو اس سے نابلد تھے۔ انگریز نے برصغیر میں ہندوؤں سے حکومت چھینی تھی یا مسلمانوں سے؟۔ اس لیے پاکستان کی مانگ ایک حقیقی مانگ تھی۔ مگربرصغیر کی بڑی آبادی ہندوؤں نے پاکستان بننے کی مخالفت کی اور کہا کہ ہنددستان میں ایک ہی قوم رہتی ہے اور قومیں وطن سے بنتی ہیں۔ لہٰذ قائد اعظم  کی علیحدہ ملک کی مانگ کا خیال درست نہیں۔

اس پر کافی بحث ہوتی رہی ۔ اللہ بھلا کرے مولانا سید ابو اعلیٰ مودودی  کا کہ جس نے مسئلہ قومیت لکھ کر قائد اعظم کی آل انڈیا مسلم لیگ کی مدد کی۔مولانا نے ثابت کیا کہ قومیں وطن سے نہیں نظریات سے بنتی ہیں بلکہ مشترکہ نظریات سے بنتیں ہیں ۔ ان مسئلہ کو آل انڈیا مسلم نے خوب پھیلایا۔ جیسے علامہ اقبال نے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے بہت پہلے فرمایاتھا:۔


اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی
پہلے پہل قائد اعظم کانگریس میں شامل تھے۔پھر تنگ نظر ہندوؤں کو قائد اعظم، کانگریس میں راہ کر صحیح طرح سے سمجھ گئے تھے۔ لہٰذا اُن کی ہر چال کا بروقت توڑ کر کیا۔ پاکستان کلمے کی بنیاد پر حاصل کر لیا گیا۔ مسلمانان برصغیر نے ایک نعرہ مستانہ لگایا کہ پاکستان کا مطلب ”کیالا الہ الااللہ“ ۔

لے کے رہیں گے پاکستان اور بن کے رہے پاکستان۔مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ۔ جب یہ نعرہ قائد اعظم  کی دلیلوں کے زور کے ساتھ عام ہو گیا۔ تو اس کے سامنے ہندو اور انگریز حکمران سرنگوں ہو گئے۔ اور دنیا کے نقشے پر ایک آزاد اسلامی مملکت پاکستان قائم ہو گئی ۔
صاحبو! جس سیدھے جمہوری راستے پرچل کر بانی پاکستان قائد اعظمنے، پاکستان حاصل کیا تھا۔

اسی سیدھے راستے پر چل کر ہی پاکستان کے مقاصد حاصل کیے جا سکتے تھے۔ قائد اعظم  نے اس کی بنیاد بھی رکھ دی تھی۔ اس کی روداد کچھ اس طرح ہے۔ وقت ٹی وی کے پروگرام میں ایکر پرسن سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب سربراہ تنظیم اسلامی( مرحوم) نے جنگ اخبار میں ڈاکٹر ریاض علی شاہ جو کہ قائد اعظم کے معالج تھے کی ڈائری کے حوالے سے کہا کہ موت کے آخری دنوں میں قائد اعظم  بیماری سے بہت کمزور ہو چکے تھے اور زبان پر کچھ آتا تھا۔

مگر بول نہیں سکتے تھے ۔ہم نے اُن کو دوائی دی کہ کچھ نہ کچھ گفتگو کر لیں۔ جو کچھ بھی بولنا چاہتے ہیں وہ بول لیں۔ کیونکہ یہ قوم کی امانت ہے اور راہ جائے گی تو قومی نقصان ہو گا۔ ہم نے قائد اعظم  کو اس مقصد کے لیے داوئی دی۔ اس کے استعمال کے بعد جو قائد اعظم  نے جو جملے کہے وہ یہ ہیں۔ جواخبار جنگ کی اا/ستمبر ۱۹۸۸ء کی اشاعتِ قائد اعظم  کی چالیسویں برسی کے موقعہ پر مضمون شائع ہوا تھا میں بیان کئے گئے ہیں۔

”ڈاکٹر پروفیسر ریاض علی شاہ کی ڈائری کا صفحہ“ کے حوالے سے قائد اعظم کی گفتگو جو ڈاکٹر پروفیسر ریاض علی شاہ اور کرنل الہی بخش کی موجودگی میں قائد اعظم  نے موت سے دو دن پہلے کہا تھا وہ یہ ہے”آپ کو اندازہ نہیں ہو سکتاکہ مجھے کتنا اطمینان ہے کہ پاکستان قائم ہو گیا اور یہ کام میں تنہا نہیں کر سکتا تھا جب تک رسول ِ خدا کا مقامی فیصلہ نہ ہوتا۔

اب جبکہ پاکستان بن گیا ہے۔ اب یہ لوگوں کا کام ہے کہ خلفائے راشدین  کا نظام قائم کریں۔“ مگر قائد اعظم  کی زندگی نے وفا نہ کی اور جلد اپنے اللہ کے پاس چلے گئے۔ اس قبل جن کو قائد اعظم  نے ایک موقعہ پر کھوٹے سکے کہا تھا وہ واقعی کھوٹے سکے ثابت ہوئے۔ اور وہ صراط مستقیم گم کر دی گئی۔ اس میں وہ تمام اسلام اور پاکستان مخالف عناصر شامل ہو گئے تھے۔

جو تحریک پاکستان کے دوران دھوکے سے مسلمانوں کے بناوٹی لیڈر بن گئے تھے۔ وہ قائد اعظم  کی وفات کے بعد کھل کر سامنے آ گئے۔ کبھی کہا پاکستان مسلمانوں کی اقتصادی حالت سدھارنے کے لیے حاصل کیا گیا تھا ۔کیونکہ ہندو برصغیر کی تجارت پر قابض تھے۔ اور کبھی کہا گیا کہ سیکورلزم کی بنیاد پر پاکستان حاصل کیا گیا تھا وغیرہ ۔جھوٹ موٹ سے قائد اعظم  کو سیکولر ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زرو لگا دیا اور پاکستان کی سیدھی راہ کو گم کرنے کی کوشش کی جو کوششیں اب بھی جاری ہے۔

پاکستان کی عوام نے انتھک کو شش کر کے پاکستان کا نام دنیا میں روشن کیا۔ اگر اندرون ملک معاش نہ مل سکی تو دنیا کے ملکوں میں جا پہنچے اور کثیر زر مبادلہ کما کر پاکستان بھیجا ۔ جس سے پاکستان نے ترقی کی ۔پاکستان کی مسلح افواج نے بھی ملک کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ہر مشکل اور قدرتی آفات کے موقعے پر عوام کی خدمت کی شامل ہوئے۔ وہ سیلاب ہو یا زلزلہ ہو۔

فوجیوں کی فلاح بہبود کے لیے لا تعداد ارے قائم کئے۔ جو آج بھی مسلح افواج کے ریٹائرڈ افراد کی مدد کر رہے ہیں۔ پاکستان کے سائنسدانوں نے کم وسائل اور دشمن قوتوں کی مخالفت کے باوجود پاکستان کو اسلامی دنیا کی پہلی اور دنیا کی ساتویں اعلانیہ ایٹمی قوت بنا دیا۔ پاکستان کی مسلح افواج نے چین کی مدد سے خود تھنڈر لڑاکا جہاز تیار کیے جو پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں۔

میزائل ٹیکنالوجی میں ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے ۔پھر اس ملکِ پاکستان میں غوری میزائل بنا پھر شاہین میزائل کی سیریز حتف ون حتف ٹو اور پھر یہ سلسلہ جاری ہو گیا۔ سائنسدانوں نے ملک کو ناقابل شکست بنا دیا۔ ہر 23/ مارچ کو پاکستان اپنی قوت کامظاہرے میں اس تمام اسلحے کی نمائش کرتا تھا۔ اور اپنے دشمنوں کو خوف زدہ رکھتا تھا۔ پھر اسلامی جمہوریہ پاکستان کو نظر بد لگ گئی اور امریکانے افغانستان پر حملے کے لیے ہماری بزدل کمانڈومشرف کو ڈرا کر اس کو کہا یا تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے دشمن کے ساتھ ہو۔

ایک چیز کا فیصلہ کرو ورنہ ہم تمیں پتھر کے زمانے میں پہنچا دیں گے۔ بزدل کمانڈرنے نہ اپنی فوج اور نہ ہی اپنی قوم سے مشورہ کیا اورلا جسٹک سپورٹ کے بہانے ملک کی بندگاہیں، ہوائی اڈے اور سرحدیں امریکا کے حوالے کر دیں۔ پاکستان کی لاجسٹک سپورٹ سے ۴۸/ ملکوں کی ناٹو فوجوں نے پڑوسی مسلمان ملک افغانستان کو تورا بورا بنا دیا۔ڈکٹیٹرمشرف نے ملک میں سے ۶۰۰ سے زائد مسلمانوں ، جس میں حافظ قرآن ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی شامل ہے کو امریکا سے ڈالر کے عوض فروخت کر دیا۔

لال مسجد اور اسلام کی بچیوں کے مدرسے حفصہ پر فوج سے حملہ کروا کراسے فاسفورس گیس سے جلا ڈالا۔ پاکستان کے ہمدرد، بلوچستان کے نواب اکبر بگٹی کو اعلانیہ میزائل سے ہٹ کر کے شہید کر دیا۔ یہ تمام لوگ پاکستان کی افواج کے خلاف ہو گئے ۔اُس وقت افغانستان کے طالبان کہتے تھے پاکستان نے ناٹو فوجیوں کے ساتھ ملک کر ہمارے ملک پر جنگ مسلط کی ہے اور پاکستان نے ان ساتھ دیا ہے۔

لہٰذا پاکستان کے ساتھ ہم ناٹو کی طرح حالت جنگ میں ہیں۔ ہم ناٹو کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی نقصان پہنچائیں گے۔ ذرائع کے مطابق، اس دوران افغان طالبان نے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اس کے جنرل ہیڈ کواٹر ،دفاہی ادروں، تفتیشی ادروں، پولس ہیڈ کواٹر غرض ہر جگہ دفاہی اداروں کو نشانہ بنا دیا۔ہمارے ملک کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ اس کے ساتھ امریکہ کے بنائے ہوئے کچھ جعلی پاکستانی طالبان(ٹی ٹی پی) کے ذریعے اسکولوں، بازاروں مساجد، امام بارگاوں اور مزاروں کو نشانہ بنایا تاکہ عام پاکستانی کو سب طالبان کا مخالف بنا دے۔

اُدھر بھارت نے پاکستان کو ۷۰ فی صد ریونیو دینے والے منی پاکستان کراچی میں اپنے ایجنٹ الطاف حسین کے ذریعے ڈسٹرب کیے رکھا۔اللہ کو شکر ہے کہ پاکستان قوم کی مدد اور فوج کے آپریشن کے ذریعے کراچی اور پاکستان سے دشمنوں کی جاری کردہ دہشت گردی ختم ہوئی۔ پاکستان اب امریکا کی ڈو مور کی فرمائش ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اب پاکستان دہشت گردی کے نقصان کی امریکا اور دنیا سے جائز حمایت کی بات کرتا ہے۔

ان حالات میں کئی سالوں سے سیکورٹی کی وجہ سے ہم 23/ مارچ کی پریڈ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ڈکٹیٹر مشرف کی وجہ سے غیر ملکی جاسوس ایجنٹوں کی پاکستان میں برمار سے ہمارے ایٹمی اثاثوں کو بھی نقصان ہو سکتا ہے۔ ناٹو فوجیوں کی وجہ سے ہمارے ملک کا ۱۵۰/ ارب ڈالر سے زائدکا نقصان ہو چکا ہے ۔ ہمارے ۷۰/ ہزار سے زائد شہری شہید ہو چکے، جس میں فوج کے افسران اور سپاہی شامل ہیں۔

ہماری افغانستان سے ملحقہ مغربی سرحد غیر محفوظ ہو چکی ہے۔لائن آف کنٹرول پر بھارت چھیڑ چھاڑ کر رہا ہے۔طالبان کے پانچ سال ہماری مغربی سرحد محفوظ تھی ۔اب امریکا اور بھارت کی وجہ سے لاکھوں فوج لگانی پڑھ رہی ہے۔ 23/ مارچ یوم پاکستان پر ،مقتدر حلقوں سے پاکستانی قوم کا ایک ہی مطالبہ ہے ہمیں پرانا والا پاکستان لو ٹا دو۔ قوم کو امریکی ڈالر نہیں چاہییں ۔

امریکا سے پاکستانی عوام کو نفرت ہے۔ملک کو پرائی جنگ سے باہرنکالو۔ تاکہ ہم آزادی سے اپنے فیصلے خود کر سکیں اور ملک ترقی کرے ۔ہم پچھلے سال کی طرح اس سال بھی،23/ مارچ 2018ء کے موقعے پر اپنی شان و شوکت والی فوجی پریڈ کو دیکھ سکیں۔ دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت اور میزائل طاقت کا مظاہرہ دیکھ سکیں۔ آئی ایس پی آر نے اعلان کیا ہے کہ قوم 23 /مارچ کا قومی جذبہ سے انتظار کر رہی ہے۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :