انقلابی کالم

منگل 20 مارچ 2018

Abdul Razzaq Barohi

عبدالرزاق بروہی

عرصہ چار سال پرانی بات ہوگی، یہ عہد تھینک یو راحیل شریف سے کچھ عرصہ قبل کا وقوعہ ہے کہ میانوالی کا ایک کھلاڑی، کرسی کا متلاشی، عوام کے کاندھوں پر سوار کچھ نادیدہ قوتوں کا آسرا لئے اسلام آباد آدھمکا۔ان کا ساتھ کینیڈا سے آئے ایک بقلم خود شیخ اسلام صاحب دے رہے تھے، شیخ صاحب سال کے دس ماہ کینیڈا میں ہی ہائیبر نیشن میں گزارتے ہیں اور فعال ہوتے ہی اپنے خوابوں کی پُر زور فرمائش پر پاکستان میں انقلاب تلاش کرنے آجاتے ہیں۔

انقلاب کی آخری کوشش میں شیخ صاحب کی نیازی صاحب سے سیاسی رشتہ داری ہو گئی تھی اس کے بعد سے انقلاب ناپید ہوگیا۔ خیر کرسی کے متلاشی کا مطالبہ یہ تھا کہ الیکشن میں 35 پنکچر لگے ہیں انہیں ٹھیک کیا جائے۔مگر حضرت صاحب کا مسئلہ یہ تھا کہ دن کی روشنی ان کے پر جلاتی تھی لہذا رات کی تاریکی میں پورا مست ماحول بن جاتا۔

(جاری ہے)

اس مست ماحول میں پہلے پہل تو سب ٹھیک رہا، لفظوں کی گرج برس نے اقتدار کے ایوانوں میں لرزہ طاری کردیا۔

مگر پھر آہستہ آہستہ کھلاڑی کی اپنی زبان لرزنا شروع ہوگئی اور بہکی بہکی گفتگو روزمرہ کا معمول بن گیا۔35 پنکچر کیا خاک لگتے الٹا موصوف کے اخلاقی دیوالیہ پن کا جنازہ پنکچر ہو کرعوام کے کاندھوں پر آن گرا۔سول نافرمانی کی تحریک،حکومتی اداروں کے خلاف اخلاق سے گری ہوئی ذبان کا استعمال اتنا ہوا کہ ان کے ساتھ کھڑے ساتھیوں کے لئے بھی ان "بونگیوں" کا دفاع کرنا ممکن نا رہا۔

اس دھرنے میں کھلاڑی نے الفاظ کے لئے جس لغت کا سہارا لیا اس سے سلطنت پاکستان کے باسیوں پر کھلاڑی کا مستقبل عیاں کردیا۔اقتدار کے منصب پر بیٹھے تاجر نے بھی سکھ کا سانس لیا کہ اب تو فتح بھی یقینی ہے اور اگلی باری فیر شیر کا نعرہ بھی پکا ہے۔دھرنے میں کی گئی تقریروں سے اس قدر مواد مل گیا کہ اگلے الیکشن میں عوام کے سامنے صرف ایک مرتبہ یہ فلم چلانی ہے کہ اداروں کی اس طرح تضحیک کرنے والوں کو عوام سے ووٹ تو دور فقط جوتے ہی ملیں گے۔


تین سال تک حالات اسی طرح چلے اور پھر اقامہ ہوگیا یہ عہدء تھینک یو راحیل شریف سے کچھ بعد کا وقوعہ ہوگا۔کرسی پر بیٹھا تاجر ایوان سے بے دخل ہوگیا اور اسلام آباد سے "مجھے کیوں نکالا"کی گردان الاپتا براستہ جی ٹی روڈ کوچہء لاہور جا نکلا۔ عرصہ چار سال قبل کے حالات اور موجودہ حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے مگر میانوالی کے کھلاڑی اور لاہور کے تاجر کی ذہنی کیفیت بالکل ایک جیسی ہو گئ بلکہ آخری الزکر کی حالت پہلے والے سے ذیادہ پتلی ہوگئی۔

میاں بیوی بچوں سمیت جو دولت سمیٹی وہ کس طرح سمیٹی یہ بتانے کے بجائے اداروں کی تذلیل کا ایک نیا سلسلہ شروع کردیا۔ 35 سال اقتدار کے مزے لینے کے بعد اب اس نظام سے بغاوت کا اعلان کردیا۔ رات کی تاریکی میں جب بقلم خود کمانڈو سے معاہدہ کر کے بھاگے تو عدلیہ کا اس اجتماعی خاندانی فراریت میں کوئی کردار نہیں تھا البتہ جب واپس آنے کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں تو یہی عدلیہ تھی جس نے کمانڈو کے دبائو میں آنے سے انکار کردیا اور واپسی کی راہ ہموار کی۔

اس وقت پی سی او جج گالی نہیں ہوتے تھے، مجھے کیوں نکالا کے بعد موصوف کو الہام ہوا کہ پی سی او جج دراصل ایک گالی ہے۔
پیپلز پارٹی چار سال تک نیب کے کردار پر کلبلاتی رہی کہ میاں صاحب انہیں روکو مگر میاں صاحب کے کانوں پر جوں تک نا رینگی اور اب حالات یہ ہیں کہ بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ۔ پاکستان کا سب سے برا اور نا اہل ادارہ نیب ہو گیا ہے یقیناُ ہوگا جس ادارے کی بنیاد رکھنا والا ہی نااہل نکل آئے تو ادارہ بیچارہ کس کھیت کی مولی ہے۔

مجھے کیوں نکالا کے بعد شروع ہونے والی نااہل تقریروں کے بعد اب کھلاڑی کی دھرنے والی بونگیاں بہت چھوٹی لگتی ہیں بلکہ روہانسا ہو کر مجھے کیوں نکالا والے ڈائیلاگ نے کھلاڑی کی تقریروں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا اور ثابت کیا کہ "سالی ایک کرسی اچھے خاصے بندے کو رُلا دیتی ہے"۔ دھرنے اور مجھے کیوں نکالا نے دونوں حضرات کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا ہے، ایک صاحب اکیلے "مجھے کیوں نہیں بٹھایا" کی گردان الاپتے رہے جبکہ دوسرے صاحب بمعہ اہل وعیال مجھے کیوں نکالا پر روتے پھر رہے ہیں۔

پہلے والے کی یہ حالت رات کے محصوص لمحات میں طاری ہوتی تھی جبکہ آخری الذکر صاحب کی کیفیت کسی بھی لمحے کم ہونے کا نام نہیں لے رہی اور وقت کے ساتھ ساتھ مرض کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ دونوں بقلم خود سکہ بند انقلابی اور نظریاتی ہیں اور دونوں کے انقلابی نظریات کی اپنی شرائط ہیں جو دونوں کی ذات کو کرسی کے گرد طواف کراتی ہیں۔ کھلاڑی کو جب کرسی نہیں ملی تو وہ انقلابی ہو گیا جہکہ تاجر کی جب کرسی چھینی گئی تو اسے علم ہوا کہ اسے تو بچپن سے ہی انقلابی بننے کا شوق تھا۔


دوستو اتنی لمبی چوڑی تمہید باندھنے کا مقصد صرف یہ بتانا تھا کہ عمران خان ہو یا نواز شریف دونوں بہت اچھے لوگ ہیں اصل مسئلہ یعنی فساد کی جڑ اقتدار کی کرسی کا ہے۔ لہذا سیاسی شخصیات کو برا بھلا کہنا چھوڑیں اورصبح اٹھنے سے پہلے اور رات کو سونے کے بعد مسئلے کی جڑ پر توجہ دیں ذندگی آسانی سے گزرے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :