نیب کی نیت اور ”تازہ بیانیہ

جمعرات 22 مارچ 2018

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

ایوان اقبال لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے”نیب سربراہ“ نے کہا کہ جو” انہیں“ کرنا ہے ”وہ“ کرینگے، انہیں کسی کی” پرواہ“ نہیں، وہ پوری طرح کوشاں ہیں کہ ملک کی خدمت کریں۔ دوسری طرف ”نا اہلی“ کی مہر کے ساتھ اور ہیٹرک شدہ سابق وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے احتساب عدالت میں صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پہلے چھ ماہ میں کیا ثابت ہوا جو اب نئی چیزیں مل گئی ہیں۔

جتنی دستاویزات پیش کی ہیں۔ وہ ہم نے خود فراہم کیں۔ کیس میں کوئی جان نہیں ہے۔ عمران خان جعلی دستاویزات جمع کروائیں تو بولتے ہی نہیں یہ بھی ٹھیک ہیں۔ پہلے کہا گیا فلیٹ میرے ہیں پھر وہی ملکیت میاں صاحب پر ڈال دی۔

(جاری ہے)

میں ان سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ اثاثہ جات کیسے بنائے۔ آپ نے کرپشن کا الزام لگایا ہے کرپشن ثابت کریں۔ عمران خان نے تسلیم کیا کہ وہ آف شور کمپنی کے مالک ہیں۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ مجھے پتہ نہیں کہ مجھ پر کون سا الزام ہے۔ اثاثے بنانا بھی کوئی بری بات ہے۔علاوہ ازیں سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ چھ ماہ ہو گئے ہیں اور آج تک پتہ نہیں لگ سکا کہ نوازشریف پر کوئی الزام ہے کہ نہیں ہے، کرپشن کا کوئی کیس ہوتا تو پہلے دو ماہ میں ثابت ہو جاتا اور ان کو چھ ماہ تک لے جانے کی ضرورت نہ پڑتی اور اب دو ماہ کی توسیع کر دی گئی ہے جو کچھ ہو رہا ہے میں سمجھتا ہوں کہ کوئی بڑا منصوبہ ہے جس کے تحت یہ سارا کام ہو رہا ہے، یہ بالکل بوگس کیس ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایسے لوگوں کو کٹہرے میں لا کر کھڑا کرنا چاہئے جن کے کاموں کی وجہ سے وزیراعظم نااہل ہوا، وزیراعظم کے خلاف ریفرنس بنے اور آج چھ ماہ مکمل ہو گئے ہیں کوئی چیز سامنے نہیں آئی، پیپلزپارٹی کی قیادت رضا ربانی کو چیئرمین سینیٹ نہیں بنانا چاہتی تو پھر ہم اب اپنے اندر ایسے بندے کو تلاش کر رہے ہیں جو اس معیار پر پورا اترتا ہو، کس نے کہہ دیا ہے کہ ن لیگ کا چیئرمین سینیٹ نہیں آ رہا۔

پاکستانی قوم کا پیسہ اتنی بڑی فیس کے طور پر برطانیہ میں ادا کیا گیا یہ کتنی افسوسناک بات ہے، رابرٹ ریڈلے کا بڑا چرچا ہو رہا تھا کہ وہ آئے گا اور گواہی دے گا تو پتہ نہیں کیا ہو جائے گا بلکہ اس کی گواہی الٹا ہمارے حق میں گئی ہے، چھ ماہ میں کچھ نہ کچھ تو سامنے آنا چاہئے تھا اگر کرپشن کا کیس ہوتا تو پہلے دو ماہ میں ثابت ہو جاتا اور ان کو چھ ماہ تک لے جانے کی ضرورت نہ پڑتی اور دو ماہ کی توسیع کر دی گئی ہے، ہم نے اپنی اتحادی پارٹیوں سے گذشتہ روز بڑا تفصیلی مشورہ کیا اور پھر ان کے اندر بھی اتفاق تھا کہ اگر سینیٹ چیئرمین کے لئے میاں رضا ربانی کا نام پی پی کی طرف سے آتا ہے تو ہم اس کو سپورٹ کرینگے۔

میری بھی اپنی یہ خواہش تھی باقی ہمارے اتحادیوں کی بھی یہ خواہش تھی ہم ایسا بندہ چیئرمین کی کرسی پر دیکھنا چاہتے ہیں جو پاکستان کے نظام کے ساتھ آئین کے ساتھ، قانون کے ساتھ اس کی 100فیصد کمٹمنٹ ہونی چاہئے اور آج تک اس کی کوئی جمہوریت کے حوالے سے منفی سوچ نہیں ہونی چاہئے۔ واضح رہے کہ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر خان نے نوازشریف اور ان کے اہلخانہ کے خلاف ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کی سماعت کی۔

طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے احتساب عدالت کے جج محمد بشیر خان نے نوازشریف کو حاضری لگانے کے بعد عدالت سے جانے کی اجازت دیدی۔قارئین محترم تازہ ترین “سیاسی منظر نامہ“ کے بعد واپس آتے ہیں”نیب سربراہ“ پر، انکے بقول نیب نے کسی بھی قسم کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈالی۔ نیب ایک انسان دوست ادارہ ہے جو ملک کو کرپشن سے پاک کر رہا ہے، ہمیں ملکی ترقی کی فکر ذاتی چیزوں سے بڑھ کر ہونی چاہئے۔

انہوں نے نیب کے لاہور آفس میں زیر تفتیش کیسز پر بریفنگ بھی لی اور ڈی جی نیب لاہور کو ضروری ہدایات بھی جاری کیں۔ حکومتی گورننس قابل رشک نہیں ہے، عوام دوست قانون سازی کے معاملہ میں پارلیمنٹ کی کارکردگی سے بھی عوام مطمئن نہیں ہیں مگر یہ وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام اسی آئین کے تابع چل رہا ہے جس میں عدلیہ اور دوسرے اداروں کے اختیارات اور حدود و قیود بھی متعین ہیں، اگر انتظامیہ اور مقننہ کو آئین نے عدالت اور اسکے ماتحت اداروں بشمول نیب کا کام اپنے ہاتھوں میں لینے کی ممانعت کر رکھی ہے تو عدلیہ اور اسکے ماتحت ادارے بھی مقننہ اور انتظامیہ کی آئینی ذمہ داریاں اس تصور کے تحت بھی انجام دینے کی مجاز نہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہیں جس کے باعث عوام میں مایوسی پیدا ہو رہی ہے۔

اگر مقننہ اور انتظامیہ اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتیں تو آئین کے تحت انتخابات کی شکل میں انکے احتساب کا سسٹم قائم ہے۔ عوام خود ہی ان سے حساب کتاب کر لیں گے جیسا کہ اس سے پہلے ہوتا رہا ہے اس لئے کسی اور کو انکے ماورائے آئین و قانون احتساب کی فکر میں غلطاں ہونے کی ضرورت نہیں۔ اگر آئین کے تحت قائم اس نظام میں ہر ادارہ اپنے حصے کا کام خلوص اور دیانتداری کے ساتھ ادا کرتا رہے اور اپنے پلیٹ فارم کو اصلاح احوال کے ذریعے مکمل شفاف بنا دے تو عوام توجہ دلائے بغیر بھی ان پر اعتماد کے اظہار میں یکسو نظر آئینگے تاہم جب ”اگا دوڑ، پچھا چوڑ“ کے مصداق خود کو چھوڑ کر دوسروں کی خبر لی جائیگی تو اس سے سسٹم کی اصلاح احوال کے بجائے کسی دوسرے ایجنڈے کی تکمیل کا شائبہ گزرے گا، اگر آج چیئرمین نیب یہ اعلان کر رہے ہیں کہ انہیں کسی سرزنش یا وارننگ کی پرواہ نہیں ہے تو اس سے عوام کے ذہنوں میں پیدا کئے گئے نیب کے خود مختار ہونے کے تاثر پر ہی زد پڑیگی، اس تناظر میں عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہونگے کہ نیب کی سرزنش کرنے اور اسے وارننگ دینے والی بھی کوئی اتھارٹی ہے تو کہیں احتساب کا پہیہ اس کی منشا کے مطابق تو نہیں گھمایا جا رہا۔

ان معروضات کا مقصد محترم آئینی اداروں کی توہین یا تضحیک ہرگز نہیں بلکہ یہ عرض کرنا ہے کہ ایک دوسرے کی عزت کی پاسداری کرکے ہی سسٹم پر عوام کا اعتماد مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ بلیم گیم میں تو ہر کھلاڑی کے پاس یکساں مواقع موجود ہوتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :