تیری جدائی سے مرنے والے ، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے!

پیر 21 مئی 2018

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

ان کی پیدائش 1933میں راجن پور میں ہوئی ، والد صاحب سرکاری ملازم تھے ، گھر کا ماحول دیندار تھا اور اسی ماحول کی برکت سے آپ علم دین کے طرف راغب ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم گورداس پور دہلی اور گوجرانوالہ سے حاصل کی ، نوویں کا امتحان پولی ٹیکنیکل کالج سیالکوٹ اور میٹر ک گورنمنٹ ہائی سکول جہلم سے پاس کیا ۔ میٹرک کے زمانہ میں ہی حضرت تھانوی  کے مواعظ پڑھنے کا شوق ہوا اور یہ مواعظ آپ کو میٹرک کے بعد دینی تعلیم کی طرف لے آئے ۔

حضرت مفتی حسن صاحب  کی حکم سے دینی تعلیم کا آغاز جامعہ اشرفیہ نیلا گنبد سے کیا ، درمیان میں خیر المدارس ملتان تشریف لے گئے اور دورہ حدیث جامعہ اشرفیہ نیلا گنبد سے ہی کیا ۔ 1955میں دورہ حدیث سے فارغ ہوئے تو جامعہ اشرفیہ میں ہی تدریس کا آغاز کر دیا، 1957میں جامعہ خیر المدارس ملتان تشریف لے گئے اور 1960سے 1970تک دا ر العلوم کبیر والا میں تدریس کی ۔

(جاری ہے)

1970سے 1988تک جامعہ اشرفیہ میں فنون کی کتب کے ساتھ ابو داوٴد شریف پڑھاتے رہے اور 1988میں مولانا مالک کاندھلوی کی وفات کے بعد بخاری شریف پڑھانے کے لیے شیخ الحدیث مقرر ہوئے اور آخر عمر تک اسی منصب پر فائز رہے۔ یہ حضرت صوفی سرورحاحب  کی زندگی کی مختصر سی جھلک ہے ۔پچھلے ہفتے جب سے حضرت صوفی سرور صاحب  کی وفات کی خبر سنی ہے میں ابھی تک ان کی وفات کے صدمے سے باہر نہیں نکل سکا ۔

یہ وہ انسان تھے جن کے چوبیس میں سے بائیس گھنٹے اور اور اسی میں سے ساٹھ سالہ زندگی علم ، علم اور صرف علم پر خرچ ہوئی تھی ،یہ ان لوگوں میں سے تھے جو دن رات علم کا دیپ جلاتے ہیں اور علم بھی وہ جسے علم وحی کہا گیا ہے ، یہ لوگ سراپا علم ہوتے ہیں اور علم کو ان پر ناز ہوتا ہے۔یہ لوگ حقیقت میں انبیاء کے وارث ہوتے ہیں ، یہ لب کھولیں تو علم کے موتی تسبیح کے دانوں کی طرح بکھرتے چلے جاتے ہیں ،یہ علم میں اس قدر مستغرق ہوتے ہیں کہ ان ذات بذات خود علم بن جاتی ہے اور ایک لمحے میں ان کی ذات کے روئیں روئیں سے علم کے چشمے پھوٹتے لگتے ہیں ،یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگی امت کی اصلاح و فلاح کے لیے خرچ کر دیتے ہیں ،جن کا ایک ایک پل عالم انسانیت کی فکر میں گزرتا ہے۔

یہ ان لوگوں میں سے تھے جن کے دم سے قرون اولیٰ کی درسگاہیں قائم ہیں ،جن کے دم سے حدیث کی مسندیں آباد ہیں او ر جو خواب بھی دیکھیں تو خواب میں امام ابو حنیفہ ، امام بخاری ، امام طحاوی اور شاہ ولی اللہ کو دیکھتے ہیں اور جو اس دنیا سے جاتے ہوئے بھی قال اللہ و قال الرسول کا ورد کر رہے ہوتے ہیں اور اگر جانے والا مفتی محمد حسن ، مولانا خیر محمد جالندھری اور مولاناادریس کاندھلوی کی نسبتوں کا امین ہو تو پسماندگان کا دکھ سوا ہو جاتا ہے ۔

حضرت صوفی سرور صاحب کی موت ایک عام انسان کی موت نہیں تھی بلکہ علم کا ایک جہاں تھا جو اس دنیا سے اٹھ گیا ۔ ایک طالبعلم کی حیثیت سے مجھے بھی ان کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے کا شرف حاصل ہوا ،بلا شبہہ وہ علم کے پہاڑ اورامام بخاری کے جانشین تھے۔ انہوں نے ساری زندگی جامعہ اشرفیہ میں درس و تدریس کرتے گزار ی، تقریبا ساٹھ سال تک حدیث پڑھائی اور ان کے شاگرد دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔

آج کے نامور اہل علم کا شماران کے شاگردوں میں ہوتا ہے ۔ گزشتہ منگل جامعہ اشرفیہ میں ظہر کی نماز کے بعد ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں ان کے سینکڑوں شاگردوں سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی ۔اہل علم اور دینی حلقوں کے لئے موحضرت صوفی سرور صاحب  کی وفات بہت بڑا صدمہ ہے اور ان کا خلا صدیوں پرنہیں ہو گا ۔ علم کی گود خالی ہوتی جا رہی ہے، اہل علم اٹھتے جا رہے ہیں ، علماء حق کا وجود مٹتا جا رہا ہے ، رسوخ فی العلم کی روایت ختم ہو تی جا رہی ہے اورہم تیزی سے اس دور کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کے بارے میں ہادی عالم نے فرمایا تھا کہ قرب قیامت علم کو اٹھا لیا جائے گا ۔


1958میں ابوالکلام آذاد کی وفات ہوئی تو شورش کاشمیری نے ابوالکلام آزاد کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ایک شہرہ آفاق نظم کہی تھی۔میں چونکہ ایک گناہگار انسان ہوں ، میرے پاس حضرت صوفی سرور صاحب  کی شایان شان الفاظ نہیں ، میں گناہوں میں لتھڑا ہوا ہوں اور میری یہ اوقات نہیں کہ میں صوفی صاحب جیسی عظیم شخصیت پر مزید لب کشائی کروں ، میں شورش کاشمیری کی یہ نظم مستعار لے کر اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں ۔

مجھے امید ہے کہ اللہ ان علما ء سے محبت ، تعلق اور نسبت کی وجہ سے میری بھی مغفرت فرمادیں گے ۔
عجب قیامت کا حادثہ ہے ، اشک ہے آستیں نہیں ہے
زمین کی رونق چلی گئی ہے ، افق پہ مہر مبین نہیں
تیری جدائی سے مرنے والے ، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے
مگر تیری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے !
اگرچہ حالات کا سفینہ اسیر گرداب ہو چکا ہے
اگرچہ منجدھار کے تھپیڑوں سے قافلہ ہوش کھو چکا ہے
اگرچہ قدرت کا ایک شہکار آخری نیند سوچکا ہے
مگر تیری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے !
کئی دماغوں کا ایک انساں ، میں سوچتا ہوں کہاں گیا ہے ؟
قلم کی عظمت اجڑ گئی ہے ، زباں کا زور بیاں گیا ہے
اترگئے منزلوں کے چہرے ، امیر کیا کارواں گیا ہے
مگر تیری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے !
یہ کون اٹھا کہ دیر و کعبہ شکستہ دل ، خستہ گام پہنچے
جھکا کے اپنے دلوں کے پرچم ، خواص پہنچے ، عوام پہنچے
تیری لحد پہ خدا کی رحمت ، تری لحد کو سلام پہنچے
مگر تیری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے !

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :