انتخابات ، عالمی مبصرین کی تعیناتی اور” ووٹر“ز ڈیٹا لیک

جمعرات 21 جون 2018

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

پاکستان مسلم لیگ ن کی طرف سے متوقع عام انتخابات میں”ووٹ“ کو عزت کا نعرہ بلند کیا اور ”ووٹرز “ کی بطور عام شہری”حقوق“کی ادائیگی میں انتہائی ”کوتائیاں“ بھی سامنے آئیں،ووٹرز نے اپنا اپنا محافظ بنا کر سیاسی جماعتوں کے سربراہاں اورالیکشن لڑنے کے خواہش مندوں کو بھی”خوب“ سنائیں،ایک طرف جب ”ووٹرز کا اپنا ذاتی“ ڈیٹا چوری بلکہ سینہ زوری کے ساتھ غیر محفوظ ہاتھوں میں چلا گیا تو ایک کہرام ہے اور ایک طوفان ہے جو ہر طرف ہے،” ووٹر“ز ڈیٹا لیک پر بات کرنے سے پہلے یورپی یونین کی طرف سے پاکستان میں ہونیوالے عام انتخابات کی مانیٹرنگ کے لیے انتخابی مبصرینپر کچھ بات ہو جائے، یورپی یونین نے پاکستان میں ہونیوالے عام انتخابات کی مانیٹرنگ کے لیے انتخابی مبصرین بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔

(جاری ہے)

یورپی یونین نے مبصرین کی تعیناتی کیلئے الیکشن کمیشن اور دفتر خارجہ سے رابطہ کیا تھا۔یورپی یونین کی طرف سے 60 انتخابی مبصرین تعینات کیے جائیں گے، دو‘ دو مبصرین پر مشتمل 30 ٹیمیں ملک بھر میں انتخابی عمل کا جائزہ لیں گی، دو رکنی ٹیمیں پانچ ہفتے کیلئے پاکستان میں تعینات کی جائیں گی۔ فوری طور پر 22 جون کو 9 مبصرین یورپی پارلیمنٹ کے رکن مائیکل گیلر کی قیادت میں پاکستان آئیں گے۔

انتخابات کے دوسرے مرحلے میں مبصرین میں یورپی پارلیمنٹ کے ممبران بھی شامل ہونگے۔ یاد رہے کہ2013ء کے انتخابات کا جائزہ لینے کیلئے برطانیہ، آسٹریلیا، ترکی، موریشس، ملائیشیا، مالدیب اور دولت مشترکہ کے رکن ممالک نے اپنے مبصرین پاکستان بھیجے تھے جبکہ یورپی یونین کے 110 مبصرین بھی پاکستان آئے تھے اور انہوں نے نے انتخابات کے حوالے سے اپنی الگ الگ رپورٹس مرتب کی تھیں۔

2013ء میں یورپی یونین کے مبصرین نے فاٹا اور بلوچستان ”نہ جانے کا فیصلہ“ کیا تھا۔ گزشتہ پانچ سال کی نسبت دہشتگردی کے حوالے سے حالات کافی بہتر ہوئے ہیں۔ اب پورے ملک میں کوئی ”نو گو ایریا“ نہیں بچا۔ مبصرین کو پورے ملک میں انتخابات کے جائزہ پر قائل کرنے کی ضرورت ہے۔ حالات کو دیکھتے ہوئے مبصرین کیلئے ملک کے کسی بھی حصے میں جانے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہئے۔

مبصرین اگر پورے ملک میں انتخابات کا جائزہ لیتے ہیں تو اس سے پاکستان کا عالمی سطح پر پْرامن ملک ہونے کا تاثر قائم ہو گا جس کی پاکستان کو آج اشد ضرورت ہے۔اب آتے ہیں ’ ووٹرز ڈیٹا لیک“ کی طرف، انگریزی اخبار میں نادرا کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر شائع ہونیوالی رپورٹوں میں غیرمسلم ووٹرز کی تعداد میں اضافے کا ذکر کرتے ہوئے انکی تعداد بتائی گئی ہے، اسکے مطابق مسیحی ووٹرز کی تعداد ساڑھے سولہ لاکھ کے قریب، احمدی پونے دولاکھ، ہندو پونے 18 لاکھ، بہائی 31 ہزار، بدھ 18 س، سکھ 9 ہزا، پارسی چار ہزار بتائے گئے ہیں۔

یہودی ووٹرز کی تعداد بیان نہیں کی گئی جبکہ 2013ء کے انتخابات میں انکی تعداد 809 ظاہر کی گئی تھی۔ اسی رپورٹ میں نادرا کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کا تجزیہ کرتے ہوئے اخبار نے لکھا تھا کہ 46 ملین کے قریب نوجوان ووٹرز انتخابات میں کلیدی کردار ادا کرینگے۔ خبر کے مطابق ووٹرز کی تفصیلات منظر عام پر آنے کے معاملہ پر الیکشن کمیشن نے چیئرمین نادرا کو خط لکھ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ” نادرا نے الیکشن کمیشن کے ساتھ معاہدہ کی خلاف ورزی کی ہے۔

نادرا حکام نے ووٹرز کا ڈیٹا غیر متعلقہ افراد کو جاری کیا ہے۔ ڈیٹا الیکشن کمیشن کو موصول ہونے سے پہلے غیرمتعلقہ افراد تک کیسے پہنچ گیا۔ نادرا ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کرے ،معاہدہ کے تحت نادرا ووٹرز کا ڈیٹا کسی سے شیئر نہیں کر سکتا“ الیکشن کمیشن کے مطابق ووٹرز کا خفیہ ڈیٹا نہیں صرف فہرستوں سے متعلق معلومات لیک ہوئیں۔ ڈیٹا کے غیر مجاز افراد کے ہاتھ لگنے پر خدشات ہیں۔

ادھر نیشنل ڈیٹا بیس اتھارٹی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعتراض پر وضاحت جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مواد اخبار میں چھپا انگریزی روزنامہ میں چھپنے والے ڈیٹا سے کسی سیاسی جماعت کو فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ الیکشن کمیشن نے نادرا کو خط لکھا ہے جس کے مطابق نادرا سے پوچھا گیا ہے کہ وہ وضاحت کرے کہ 25 اور 28 مئی کے ایک اخبار میں انتخابی فہرستوں کے بارے میں اعداد و شمار کمیشن کی اجازت کے بغیر کیوں شائع ہوئے۔

نادرا حکام کا مزید کہنا ہے کہ ووٹرز ڈیٹا بیس کیس کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو مناسب وقت پر جواب دیا جائیگا۔ ادھر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے چیئرمین نادرا عثمان مبین کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی سربراہ نے چیئرمین نادرا عثمان مبین کیخلاف الیکشن کمیشن جانے کا فیصلہ کیااور پٹیشن بھی تیار کر لی ہے۔پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ عثمان مبین کو ن لیگ نے تعینات کیا تھا اور انہوں نے ن لیگ کو الیکشن جیتنے میں مدد کیلئے ڈیٹا فراہم کیا تھا۔

انکی موجودگی میں صاف اور شفاف الیکشن نہیں ہو سکتے اس لیے انہیں فوری طور پر عہدے سے ہٹایا جائے۔اسی نادرا کی طرف سے پاکستانیوں کا ڈیٹا امریکہ کی کمپنیوں کو فراہم کرنے کی خبروں پر پارلیمنٹ کی پبلک اکاوٴنٹس کمیٹی نے رواں سال اپریل میں سخت نوٹس لیتے ہوئے چیئرمین نادرا سے وضاحت طلب کی تھی۔ نادرا کی طرف سے انگریزی اخبار کو ڈیٹا فراہم کرنا امریکی کمپنیوں کو فراہم کی گئی معلومات کی طرح کسی طورسنگین نہیں ہے مگر اصولی طور پر نادرا الیکشن کمیشن کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے تحت اس سے بھی کم حساس معلومات فراہم کرنے کا مجاز نہیں ہے۔

بلاامتیاز اسکے کہ جاری کردہ معلومات حساس ہیں یا نہیں،نادرا کو کسی قسم کی معلومات فراہم کرنے کی کیا مجبوری تھی۔ اگر اسکی طرف سے قومی مفاد سمجھ کر معلومات فراہم کی گئی تھیں تو تمام اخبارات کو جاری کرنے میں زیادہ قومی مفاد وابستہ تھا۔ نادرا کے حکام کی طرف سے گناہ بے لذت کا ارتکاب کیا گیا جو خود اسکی بدنامی کا باعث بنا۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد ہر پارٹی نے ”دھاندلی “کیشکایت کی جو کافی حد تک درست بھی ثابت ہوئیں تحریک انصاف کو کئی حلقوں میں بڑا فائدہ بھی ہوا، (ن) کو بھی سندھ میں دھاندلی نظر آتی تھی،آج اگر کچھ پارٹیاں” پری پول دھاندلی“ کے الزامات لگا رہی ہیں۔

یہ بھی عالمی مبصرین کی نظر میں ہو گا۔ نگران حکومت شفاف انتخابات کے فول پروف انتظامات کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ اس حوالے سے اسے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہئے کیونکہ عالمی مبصرین کی صورت میں پوری دنیا کی نظریں انتخابی عمل پر ہونگی اور سیاسی جماعتوں کے تحفظات ہر حال میں دور کرنا ہی اصل میں اداروں کا”اپنی حدود“ میں رہنا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :