ٹکٹوں کی بندربانٹ اورغریب کارکن

جمعرات 21 جون 2018

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

نوازشریف ،عمران خان،آصف علی زرداری اورفضل الرحمن جیسے بے دل ،بے ضمیراوراناپرست سیاسی لیڈروں پرتنقید کی وجہ سے مسلم لیگ ن،تحریک انصاف ،پیپلزپارٹی اورجے یوآئی کے نادان کارکنوں نے ہمیشہ ہم پروارکئے،ماضی قریب اوربعیدمیں لفافہ صحافی،ایجنٹ،سیاسی جاسوس،قلم فروش سمیت نہ جانے ہمیں کیاکیانام دےئے گئے لیکن اللہ گواہ ہے ان سنگ باریوں،گالیوں اورزبان درازیوں کے باوجودجب بھی کسی حقیقی سیاسی کارکن کی کوئی حق تلفی ہوئی تو درداورتکلیف ہمیں پہنچی،بڑوں کے آمرانہ فیصلوں اوراقدامات پرسیاسی کارکنوں سے زیادہ چین اورسکون ہمارا غارت ہوا۔

ہم سیاست میں آمریت کے کل بھی خلاف تھے ،آج بھی ہیں اورانشاء اللہ آنے والے کل بھی ہم نوازشریف ،عمران خان،آصف علی زرداری اورمولانافضل الرحمن جیسے سیاسی آمروں کیخلاف پہلی صفوں میں کھڑے دکھائی دیں گے۔

(جاری ہے)

سال بھرمحنت،مشقت اورتکلیف غریب اٹھائے جب فصل پکنے کاوقت آئے تومونچھوں کوتاؤدینے والے بوریاں اٹھائے نمودارہوجائیں اورپھروہ سب کچھ چندلمحوں میں اڑاکرلے جائیں یہ کہاں کاقانون اورکونساانصاف ہے۔

۔؟اس عمل،فعل اورکام کے ہم کل بھی خلاف تھے اوراس رویے کوہم آج بھی دوسروں کی حق تلفی اوربہت بڑاگناہ سمجھتے ہیں ۔ مسلم لیگ ن،تحریک انصاف ،پیپلزپارٹی ،جے یوآئی اوردیگرسیاسی جماعتوں اورپارٹیوں کے لئے پانچ سال سے قربانیاں غریبوں نے دیں ۔دھرنوں،مظاہروں،جلسوں اورجلوسوں میں جوتے اورکپڑے غریبوں کے پھٹے لیکن پانچ سال بعدجب فصل کاٹنے اورثمرپانے کاوقت آیاتو نوازشریف ،عمران خان،آصف علی زرداری اورمولانافضل الرحمن جیسے سنگدل آمروں نے اپنی اپنی عدالتیں لگاکرغریبوں کی بوئی ہوئی فصل کومال غنیمت کادرجہ دے کراپنے چہیتوں،امیرزادوں،جاگیرداروں ،سرمایہ داروں ،خانوں ،نوابوں ،چوہدریوں،رئیسوں اورسرداروں میں تقسیم کرنے کاعمل شروع کردیا۔

دوسروں کوانصاف اورحقوق العبادکادرس دینے والے ان نام نہادسیاسی لیڈروں اورآقاؤں نے عام انتخابات کے لئے اپنی اپنی پارٹیوں کے انتخابی ٹکٹوں کی جس طرح بندربانٹ کی وہ انصاف اورانسانیت کے منہ پرکسی طمانچے سے کم نہیں ۔دنیاکاکوئی بھی مذہب کسی کے منہ سے نوالے کوچھیننے یاکسی کے حق پرڈاکہ مارکرانہیں کسی چہیتے یاکسی بااثرکوتحفے میں دینے کی اجازت نہیں دیتا۔

کیانوازشریف ،عمران خان،آصف علی زرداری اورمولانافضل الرحمن نے جن حقداروں کے ٹکٹ اپنے چہیتوں،امیرزادوں،جاگیرداروں ،سرمایہ داروں ،خانوں اورنوابوں میں تقسیم کئے اس سے غریب سیاسی کارکنوں کی حق تلفی نہیں ہوئی۔۔؟کیابڑوں کے ان بڑے گناہ کی وجہ سے غریب سیاسی کارکنوں کے دل نہیں دکھے۔۔؟عمران خان سے لیکرمولانافضل الرحمن تک وہ تمام سیاستدان اورلیڈرجوخودکوانصاف ،اصول وجمہوریت پسندکہتے ہوئے نہیں تھکتے یہ سارے انتخابی ٹکٹ اورپارٹی عہدوں کی بندربانٹ کے وقت انصاف،ہرقسم کے اصول اورجمہوریت پسندی کوپھربھول جاتے ہیں۔

پندرہ سالوں سے دوسروں کواصول اصول اورانصاف انصاف کادرس دینے والے عمران خان نے 2013کے الیکشن کی طرح اس باربھی انتخابات کے لئے پارٹی ٹکٹوں کی بندربانٹ اورلوٹ سیل لگاکرانصاف اوراصول کی دھجیاں اڑادی ہیں ۔ایساہی کچھ خودکوقوم کا سیاسی اورمذہبی امام قراردینے والے مولانافضل الرحمن بھی حالات اورعادات کے ہاتھوں کرنے پرمجبورہوئے۔ عمران خان اورمولانافضل الرحمن کی سیاست اورنظریات میں لوگ زمین وآسمان کافرق سمجھتے ہیں لیکن حقیقت میں ان دونوں کے خیالات،افکاراورنظریات کافی حدتک ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں ۔

مولانافضل الرحمن پچھلے کافی عرصے سے نظریہ ضرورت کاسرعام استعمال کررہے ہیں جبکہ عمران خان کوبھی نظریہ ضرورت حدسے زیادہ پسندہے ۔دونوں کی سوچ وزارت عظمیٰ کی کرسی پرختم ہوتی ہے۔ اپنی ذات اورمفادکے لئے غریب کارکنوں سے حددرجہ محبت تو یہ دونوں کرتے ہیں لیکن وقت آنے پرپھر خداترسی اورغریب پروری میں نام کمانے والے عمران خان اورمولانافضل الرحمن انہی غریبوں پر جہانگیرترین،علیم خان ،طلحہ محموداورغلام علی جیسے اے ٹی ایم مشینوں کو ترجیح دےئے بغیرنہیں رہ سکتے۔

یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سال کے بارہ مہینے پارٹی کے لئے قربانیاں غریب کارکن دیتے ہیں،ان کویہ بھی پتہ ہوتاہے کہ جب بھی کسی ڈی چوک میں دھرنادیاجاتاہے یاکسی چوک اورچوراہے پرجلسہ،جلوس اورمظاہرہ کااہتمام ہوتاہے توہرجگہ اورہرمحاذپرڈنڈے یہی غریب کارکن کھاتے ہیں لیکن جب بھی عہدوں کی تقسیم یاالیکشن کے لئے امیدواروں کے انتخاب کاموقع آتاہے توپھرنوازشریف،آصف علی زرداری،اسفندیارولی ودیگربڑے مگرمچھوں کی طرح عمران خان اورمولانافضل الرحمن بھی بڑے بڑے سانڈوں کی تلاش شروع کردیتے ہیں۔

بقول ان کے انتخابات کیلئے پیسے کی ریل پیل ضروری ہے اسی وجہ سے یہ ڈنکے کی چوٹ پرکہتے ہیں کہ انتخابات کسی غریب کے بس کی بات نہیں،اگرانتخابات واقعی غریبوں کے بس کی بات نہیں توپھرسال کے بارہ مہینے جلسے،جلوس،مظاہروں اوردھرنوں میں ان کوذلیل اوررسواکرکے دنیاکے سامنے تماشاکیوں بنایاجاتاہے۔۔؟عمران خان نے پندرہ سال سے قربانی دینے والے نظریاتی کارکنوں کونظراندازکرکے مسلم لیگ ن ،پیپلزپارٹی اوردیگرسیاسی جماعتوں اورپارٹیوں سے آنے والے تگڑے لوٹوں کواس لئے ٹکٹ دےئے کہ وہ سیاسی مخالفین کوہرانے کے ساتھ خودبھی کھائیں گے اوران کو بھی کھلانے کافریضہ پوراکریں گے جبکہ غریب خوددوسروں کے ہاتھوں اورجیبوں کودیکھتے ہیں اس لئے ان کوٹکٹ دینایاانہیں انتخابی اکھاڑے میں اتارناکم ازکم کپتان اورمولاناجیسے بڑے لوگوں کاشایان شان نہیں ۔

کپتان اورمولانابڑے لوگ ہیں اس لئے انہیں بھی جہانگیرترین،علیم خان ،طلحہ محموداورغلام علی جیسے بڑے بڑے لوگ اورسانڈپسندہے۔وزارت عظمیٰ کے جھوٹے خواب کوکسی نہ کسی طریقے سے پوراکرنے کے لئے عمران خان اورمولانافضل الرحمن نے برسوں کی رفاقتیں بھی توڑدی ہیں ۔کپتان سے انصاف مانگتے مانگتے مانسہرہ کے نویدخان جیسے کئی لوگ قبرمیں اترگئے مگرانہیں پھربھی آج تک انصاف نہیں مل سکا۔

ایساہی کچھ جے یوآئی کے غریبوں کے ساتھ بھی ہوا۔مولاناسے انصاف مانگتے مانگتے حافظ حسین احمدتوچارپائی کے ساتھ لگ گئے لیکن مولاناکی نظرکرم پھربھی ان پرنہیں لگی۔مانسہرہ کے مفتی کفایت اللہ کواللہ کاخوف اوردین کاعلم جاننے کے باوجودایک دنیادارکے مقابلے میں نظراندازکرناکیایہ وہ سیاست ہے جس کے تانے بانے مولانافضل الرحمن اورمتحدہ مجلس عمل کے دیگرقائدین مکے اورمدینے سے ملاتے ہیں ۔

۔؟کیاایک عالم پرایک دنیادار،چور،ڈاکو،قاتل اورراہزن کوترجیح دے کرملک میں اسلامی نظام نافذکیاجاسکے گا۔۔؟کیاایک نظریاتی کارکن کی بجائے زاہدہ سبیل جیسی انجان خواتین کوٹکٹ دینااصول،انصاف اورجمہوریت پسندی ہے ۔۔؟سیاسی پارٹیوں کے لئے قربانیاں عنبرین سواتی،برہ خان ،عمل شاہ شیرازی،شیربہادر،آصف زبیرشیخ ،فاروق خان اورلطیف خان جیسے غریب اورنظریاتی کارکن دیں لیکن جب فصل پکنے اورثمرپانے کاوقت آئے توپھرن لیگ،پیپلزپارٹی اوردیگرپارٹیوں سے چھلانگ لگاکرآنے یابھاگنے والے بھگوڑوں،لوٹوں اورلٹیروں کوانتخابی ٹکٹ اورپارٹی عہدے دے کرآگے کیاجائے۔

پارٹیوں کے لئے قربانیاں دینے والے سیاسی کارکنوں کے مقابلے میں جاگیرداروں،سرمایہ داروں ،خانوں اورنوابوں کوٹکٹ دینایہ صرف غریب کارکنوں کی حق تلفی نہیں بلکہ پوری قوم کی توہین ہے۔نوٹوں کی بوریوں کے ذریعے غریبوں کے ارمانوں کاخون کرنے کایہ سلسلہ اگرفوری بندنہ کیاگیاتوپھراس ملک میں سیاست صرف امیراورخاص طبقے تک محدودہوجائے گی جس کاپھرہرلحاظ سے ملک اورقوم دونوں کوناقابل تلافی نقصان ہوگا۔اس لئے عمران خان سے مولانافضل الرحمن تک تمام سیاستدانوں اورلیڈروں کوآمرانہ روش ترک کرکے امیرزادوں کوانتخابی ٹکٹ دینے کی بجائے قربانیاں دینے والے غریب کارکنوں کوگلے لگاناہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :