زعیم قادری، پی ٹی آئی اور عمران خان

ہفتہ 23 جون 2018

Hussain Jan

حُسین جان

خان صاحب آپ اس قوم کے لیے آخری اُمید ہیں۔ لوگ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں لیکن آپ نے خود کو غیر ضروری معاملات میں اُلجھا رکھا ہے۔ آپ کو ہر حال میں خود کو روایتی سیاستدانوں سے الگ رکھنا ہوگا ۔ اُن سیاستدانوں سے جنہوں نے ملک کے عوام کو خون نچوڑ لیا۔ جن کی وجہ سے غربت جہالت انہتا کو پہنچ گئی۔ جنہوں نے تھانہ کلچر تبدیل نہ کیا جنہوں نے اچھی تعلیم کا بندوبست نہ ہونے دیا۔

جنہوں عام عوام کے لیے تو دور اپنے لیے بھی اچھے ہسپتال نہیں بنوائے۔ اُمید کرتا ہوں آپ قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔
زعیم قادری ٹیلی ویژن پر کہا رہا تھا کہ میری امی اور عمران خان کی امی جالندھر میں کلاس فیلوز تھیں۔ لہذا میں دروازہ نوک کیے بغیر اُن کے گھر چلا جاتا ہوں اور عمران خان کا بھی جب دل کرتا ہے ہمارے گھر آجاتا۔

(جاری ہے)

اس بیان پر ایک دفعہ پھر سیاست اور سیاستدانوں خاص کر کے پاکستان کے سیاستدانوں پر اعتبار نہیں رہا۔

یہ وہی قادری ہے جو سارا سارا دن ٹی وی پر بیٹھ کر عمران خان کو نشئی ثابت کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ یہ کہا کرتا ہے عمران خان کسی دوسرے کے اشاروں پر چلتا ہے۔ دوسری بات قادری صاحب کا فرمانا ہے کہ میں حمزہ شہباز کے بوٹ پالش نہیں کرسکتا۔ جہاں تک مجھے لگتا ہے رولا صرف ایک عدد سیٹ کا ہو گا۔ ورنہ اتنے عرصے سے یہ صاحب بوٹ پالش ہی کر رہے تھے۔

پھر فرمایا میں کسی کا پرس لے کر نہیں گھوم سکتا۔ یاد ہو گا کچھ دن پہلے مریم بی بی کی ہر تقریر میں آپ کا منہ نظر آتا تھا۔
یہ ہوتا ہے موروثیت کا نقصان کہ کل کے لونڈے لونڈیاں بھی سینیر لوگوں کو آنکھیں دیکھاتے ہیں۔ کل کو کوئی بلاول کے خلاف بھی اُٹھ کھڑا ہو گا۔
اب آتے ہیں دوسری طرف علیم خان صاحب نے زعیم قادری کو پی ٹی آئی میں آنے کی دعوت دے دی۔

مجھے سمجھ نہیں آتی ایک ورکر کیسے کسی کو پارٹی میں آنے کی اس طرح بغیر کسی مشاورت کے دعوت دے سکتا ہے۔ ہاں دعوت ضرور دو لیکن ایسے لوگوں کو جو سیاست میں نئے ہوں۔ کیا علیم خان صاحب ان کا کردار بھول گئے ہیں۔ یا پھر واقعی پیسہ بولتا ہے ۔ کہ آپ پارٹی کے کرتا دھرتا بن بیٹھے ہیں۔ جس کو چاہیں نکالیں جس کو چاہیں رکھیں۔ یعنی عام کارکنوں کی کوئی اوقات نہیں۔


اب آتے ہیں تیسری طرف سنا ابھی بھی لوٹوں کو لینے کا سلسلہ چل رہا ہے۔ تو میں خان صاحب سے درخواست کرتاہوں کہ خدا کے لیے بس کردیں اور کتنے لوٹے اکھٹے کرنے ہیں پارٹی میں۔ جو نظریات لے کر آپ سیاست میں آئے تھے وہ نظریات دفن ہوتے نظر آرہے ہیں۔ کسی زمانے میں لوگ کہا کرتے تھے عمران خان کے کارکنا ن پڑھے لکھے ہوگ ہیں جو خان کی کسی ناپسندیدہ بات پر کھل کر تنقید کرنے کا حق رکھتے اور خان صاحب اس تنقید کو سننے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔

لیکن جیسے ہی خان صاحب سیاسی طور پر مضبوط ہوئے ہیں ایسے ایسے فیصلے کیے گئے کے گلی محلوں میں دلیل دینا مشکل ہو گیا ہے۔
سیاست جب انسان کرتا ہے تو وہ بہت سے لوگوں کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ کسی بڑی سیاسی جماعت کا کنٹرول صرف چند ہاتھوں میں رہے۔ خان صاحب کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ پی ایم ایل ن اور پی پی پی کا جو حشر موجودہ دور میں چل رہا اس کی سب سے بڑی وجہ پارٹیوں پر چند لوگوں کا قبضہ ہے۔

کارکنان اور لیڈرز زیادہ دیر برداشت نہیں کرتے۔ آپ اپنے اردگر موجود لوگوں کا کنٹرول کم کریں اور دوسروں کو بھی مواقع دیں ۔ تاکہ پارٹی میں عتدال کی صورت بحال رہے۔ دوسری جماعتیں تو اقتدار کا مزہ لے چکی ہیں آپ کو ابھی لینا ۔ اگر یہی صورتحال رہی تو معاملات سنگین ہوسکتے ہیں۔ ہارون رشید کہتے ہیں آپ کو خوشامد بہت پسند ہے ویسے بھی شیخ رشید جب جلسے میں آپ کی خوشامد کرتا تو آپ کھل اُٹھتے ہیں۔

خوشامد اچھے بھلے انسان کو ناکارہ کردیتی ہے۔ بہت سے غلط فیصلوں پر نظر ثانی کرنے نہیں دیتی۔
کچھ لوگ چوہدری نثار کو بھی پارٹی میں لینے کے لیے پرتول رہے ہیں۔ کل تک یہی چوہدری صاحب نواز شریف کے دائیں بائیں نظر آتے تھے۔ جیسے ہی مرضی کی چیز سے انکار ہوا ہو گا آنکھیں دیکھانے لگے۔ کل کو آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوسکتا ہے جن لوگوں کو آپ نے مالک کل بنا رکھا ہے وہ پارٹی کی ساخ کو نقصان پہنچائیں گے۔

اسی بات سے اندازہ لگائیں کہ انتخابات میں مہنہے سے بھی کم کا وقت رہ گیا ہے اور آپ ابھی تک کمپین شروع نہیں کر پائے۔ پارٹی کے اندرونی معاملا ت ہی نہیں سمبھالے جا رہے۔ اس طرح الیکشن کیسے لڑیں گے۔ جب ہر حلقے سے کارکنان آزاد الیکشن لڑنا شروع کر دیں گے تو پارٹی کے ووٹ تقسیم ہو جائیں گے۔ ابھی بھی وقت ہے سوچیں پارٹی کے لیے وقت نکالیں۔ مانا امراء کا ساتھ شامل ہے۔

لیکن ایسے امراء ہی بڑئے بڑے بادشاہوں کے زوال کا سبب بنے۔
بات زعیم قادری سے چلی تھی کہاں سے کہاں پہنچ گئی ۔ چوہدری اعجاز صاحب نے تو علیم خان صاحب کی دعوت کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ لہذا ایسا نہ ہو کہ مزید لوگ بھی ایسے بیانات دینا شروع کر دیں۔ میرا خیال ہے جتنے لوٹے اکھٹے کر لیے گئے ہیں کافی ۔ پہلے ہی اُن کی وجہ سے پارٹی میں انتشار کی سی کیفیت ہے۔ اب ساری توجہ الیکشن کی طرف مرکوز رکھیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :