سات دن چین میں

ہفتہ 10 ستمبر 2016

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

چین دیکھنے کا شوق اس وقت سے تھا جب اپنے اسکول کے دورمیں ابن انشاء کا سفر نامہ چلتے ہو تو چین کو چلئیے پڑھا تھا ۔ جاپان سے جب اپنی اہلیہ اور بیٹے کے ساتھ بیجنگ کیپیٹل ائیرپورٹ پر پہنچے تومیرے دوست اور ہم جماعت شاہد مقصود وہاں ہمارے منتظر تھے۔ وہ چین میں پاکستانی سفارت خانہ میں سائنٹفک قونصلر کے عہدہ پر فائیز تھے ۔ ہماری ملاقات کوئی تیس سال کے بعد ہورہی تھی۔

میٹرک کے بعد اسکول سے ایسے بچھڑے کہ بعد میں ایک دو بار ہی ملے ہوں گے۔ انہوں نے چین کی اوہان یونیورسٹی سے انجنئیرنگ کی ڈگری کی اور ساتھ ہی چینی زبان میں مہارت بھی حاصل کی۔ ملتے ہی ہم نے اس دور کو یاد کیا جب ابن انشاء کا چین چلنے کا پڑھا تھا اور معلوم نہ تھا ایک طویل مدت بعد ہماری ملاقات بھی وہیں ہوگی۔

(جاری ہے)

چینی دارالحکومت بیجنگ بہت بڑا شہر ہے۔

حکومت نے ٹریفک کے مسئلہ سے نبٹنے کے لئے منصوبہ بندی کررکھی ہے اور گاڑیوں کی رجسٹریشن کے لحاظ سے ہر روز ایک مخصوص نمبر والی گاڑیوں کو سڑک پر آنے کی اجازت نہیں اور ساتھ ہی بیجنگ سے باہر والی گاڑیوں کے بھی شہر میں داخلے کے اوقات مقرر ہیں۔ چین اب پہلے جیسا نہیں رہا۔ مغربی تہذیب کی گہری چھاپ ہر شعبہ زندگی میں نمایاں ہے ۔ کھانا پینا، لباس اور طرز معاشرت سب بدل گیا ہے۔

غیر ملکی برانڈ کی اشیاء بہت مہنگی ہیں بلکہ یورپ سے بھی ان کی قیمتیں زیادہ محسوس ہوئیں البتہ مقامی اشیاء، کھانا پینا اور سفر بہت سستا ہے۔گاہک چینی دوکانوں پر تو بھاؤ تاؤ کرکے دام کم کرتے ہیں۔ خریداری کے لئے نقد رقم ساتھ ہونا ضروری ہے کیونکہ ویزا اور ماسٹر کارڈ بہت کم جگہوں پر قبول کیئے جاتے ہیں۔ مضافاتی علاقوں میں کچی بستیاں اور کوڑے کے ڈھیر بھی دیکھنے کو ملے۔

چین نے ثابت کیا ہے کہ فیس بک، گوگل اور یو ٹیوب کے بغیر بھی کام چل سکتا ہے۔ بیجنگ میں مقامی سفر کے لئے بس کی یک طرفہ ٹکٹ صرف سولہ روپے پاکستانی ہے ۔ بیجنگ کا مرکزی علاقہ ، تھیان آن مین سکوائر بھی دیکھنے کا موقع ملا ۔ ماوٴزے تنگ مقبرہ اور ایک بڑی تصویر یہاں سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہوتی ہے۔ چینی کھانے کے ساتھ گرم پیتے ہیں ۔ ائیرپورٹ پر بھی پینے کے لیے ابلتا ہوا پانی دستیاب ہے ۔

بیجنگ دیکھنے کے بعد صاحبزادے نے اصرار کیا کہ شنگھائی بھی ضرور جانا چاہیے جسے مشرق کا پیرس اور چین کا نیویارک کہتے ہیں۔ بُلٹ ٹرین جسے ہائی اسپیڈ ٹرین بھی کہتے ہیں ہم بیجنگ سے روانہ ہوئے اور تیرہ سو کلومیٹر کا فاصلہ یعنی راوالپنڈی سے حیدرآباد کا سفر صرف پانچ گھنٹے میں طے ہوا۔ بہت آرام دہ سفر کرتے ہوئے چین کی سرسبز سرزمین کو دیکھنے کا حسین موقع ملا۔

شنگھائی شہرہانگ پو دریا کے دونوں جانب بلند و بالا عمارتوں کے ساتھ اپنے تابناک مستقبل کی نوید دے رہا ہے۔ یہ شہر نہ صرف چین بلکہ پوری دنیا کا اقتصادی مرکز ہے اور تمام عالمی بینکوں اور مالیاتی اداروں کے دفاتر یہاں موجود ہیں۔ ٹورسٹ بسوں اور کشتی کے ذریعہ شہر کی سیاحت کے ساتھ تاریخی پس مظر سے بھی آگاہی ہوئی اور مزید تفصیل وہاں ہمارے میزبان شاہد باجوہ نے بتا دی۔

یہ ایک جدید شہر ہے جس کی تعمیر و ترقی جاری ہے ۔ یہ تعلیم و تحقیق اور معاشی و صنعتی شعبہ میں یہ دنیا کے لئے بہترین مثال ہے۔ شنگھائی تعاون کونسل اس وقت دنیا کا اہم ادارہ بن چکا ہے۔
چین میں اسلام کا تعارف حضور ﷺ کے صحابہ اکرام کے ذریعہ ہوا اور دو صحابی رسول اسی سرزمین میں آسودہ خاک ہیں۔ حضرت سعد ابن ابی وقاص کا روضہ چین کے شہر گونزاؤ میں ہے۔

طویل فاصلہ اور وقت کم ہونے کی وجہ سے ہم وہاں حاضری نہ دے سے۔ بیجنگ میں ایک چینی مسلمانوں کا علاقہ ہے اور حلال کھانے کی دوکانیں اور رسیتوران بھی موجود ہیں۔ بیجنگ قیام کے دوران وہاں پاکستانی سفارت خانہ میں میری کتابوں، بچوں کی دلچسپ کہانیوں اور افکار تازہ کی تقریب رونمائی میرے لئے بہت عزت افزائی تھی۔سفارت خانہ پاکستان کے چانسری ہال میں منعقد ہونے والی اس پروقار تقریب میں اہم سفارتی شخصیات اور بیجنگ میں مقیم پاکستانی صحافیوں نے شرکت کی۔

سفارت خانہ کے سائنٹیفک قونصلر اور میرے ہم جماعت شاہد مقصود ، پولیٹیکل قونصلر شوذب عباس اور ایجو کیشن اتاشی نوید حسن نے افکار تازہ کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔ جناب شوذب عباس نے بہت علمی انداز میں کتاب پر تبصرہ کیا ۔ریڈیو چائینا انٹرنیشنل کی اردو سروس کے محمد کریم احمد سے بہت مفید ملاقات رہی انہوں نے ریڈیو کے لئے تفصیلی انٹرویو بھی لیا۔


چین جائیں اور دیوار چین نہ دیکھیں، یہ کیسے ممکن ہے۔ شاہد مقصود کی رہنمائی میں ہم دیوار چین کی سیاحت کے لئے نکلے۔ اگرچہ ان دنوں گرمی تھی لیکن اُس دن موسم بہت خوشگوار تھا۔شاہد مقصود کی فیملی بھی ہمارے ساتھ تھی اور ابھی دیوار چین بیس کلومیٹر کی مسافت پر ہوگی کہ گاڑی خراب ہونے پر ہمیں ہائی وے پر ہی رُکنا پڑا۔ گاڑی چیک کی تو معلوم ہوا اب اس گاڑی پر سفر ممکن نہیں ہوگا۔

تھوڑی ہی دیر میں چینی پولیس کی گاڑی آکر رکی اور انہیں ماجرا سُنایا۔شاہد مقصود نے چینی زبان میں پولیس آفیسر سے جب بات کی اور اپنا تعارف کروایا کہ وہ پاکستانی سفارت کار ہیں تو پھر ہمارے لئے فوری طور پر پولیس کی دوگاڑیاں منگوائی گئیں اور دیوار چین تک چھوڑنے کا نہ صرف انتظام کیا بلکہ دوران سفر بار بار پولیس کنٹرول روم سے فون کرکے ہماری خیریت بھی پوچھی جاتی رہی۔

یہ ناقابل فراموش واقعہتھا۔ دیوار چین پر سیاحوں کا ہجوم تھا اور ہم ٹکٹ لے کر چئیر لفٹ سے دیوار تک پہنچے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش سے تقریباًًً تینسو سال پہلے چین کے بادشاہ چن شی ہوانگ نے اپنے ملک کو دشمنوں کے حملوں سے محفوظ کرنے کے لیے شمالی سرحد پر ایک دیوار بنانے کی خواہش کی۔دیوار چین کل لمبائی تقریباًًاکیس ہزار کلومیٹرہے اور یہ بیس سے لے کر تیس فٹ تک اونچی ہے۔

چوڑائی نیچے سے پچیس فٹ اور اوپر سے بارہ فٹ کے قریب ہے۔ ہر دو سو گز کے فاصلے پر پہریداروں کے لیے مضبوط پناہ گاہیں بنی ہوئی ہیں۔وقت گذرنے کے ساتھ یہ خراب بھی ہوتی رہی اور اس کی تعمیر نو بھی ہوتی رہی۔ دیوار چین کے ایک حصہ کی تعمیر نو کے لئے پاکستان نے چین کو امداد بھی دی اور وہاں پر ایک تختی بھی لگی ہوئی جس پر حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کیا گیا ہے۔

دیوار چین دیکھنے کے بعد ہمیں ٹرین سے واپس آنا تھا لیکن جب ریلوے اسٹیشن پہنچے تو ہجوم دیکھ کر ہم پریشان ہوگئے کہ ٹکٹ کس طرح لیں گے اور پھر گاڑی میں سوار کسیے ہوں گے۔ بڑی مشکل سے ٹکٹ تو لے لی لیکن پلیٹ فارم پہنچنے سے قبل ہی گیٹ بند کردیا گیا۔ اب ہم اور بھی پریشان ہوئے کیونکہ اگلی گاڑی تین گھنٹے بعد روانہ ہونی تھی۔ یہ بہت حیرت ہوئی کہ سیاحوں کی سب سے بڑی دلچسپی کے مرکز سے گاڑیاں اتنی کم کیوں روانہ ہوتی ہیں۔

ہماری پریشانی اس وقت دور ہوئی جب شاہد نے وہاں کے عملہ کو اپنا تعارف کروایا تو ہجوم سے ہمیں نکال کر پلیٹ فارم تک جانے کی اجازت مل گئی ۔ چین میں قیام کے دوران پاکستانی سفارت خانہ کے ڈاکٹر رضا اور کرنل جواد کے ہاں پرتکلف دعوتیں بھی ہوئیں جہاں فسٹ سیکریٹری جانب راجیل محسن، فنانس کونسلرجنید ، پاک نیوی کے کیپٹن جنا ب شفاعت اور دوسروں سے بہت اچھی ملاقات رہی۔

ایک ہفتہ چین میں گذارنے کے بعد ہم براستہ دوہا واپس سویڈن پہنچے۔ ایک دن کے لئے قطر کے دارلحکومت دوہا کی سیاحت کا بھی موقع ملا ۔ یہ بہت خوبصورت اور تیزی سے ترقی کرتا ہوا شہر ہے۔ بہت سہولتوں سے آراستہ ہوائی اڈہ، واقعی بہترین ایوارڈ کا مستحق تھا۔۔2020 ء اولمپکس کے لیے تعمیراتی کام تیزی سے جاری ہے اور میٹرو بھی تعمیر کی جارہی ے۔ قطر نے اپنے ثقافتی ورثہ کو محفوظ رکھنے کی طرف پوری توجہ دی ہے ۔ دوہا سے محو پرواز ہونے کے چھ گھنٹوں بعد ہم اپنے شہر سٹاک ہوم پہنچ گئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :