سچ کا قحط

جمعرات 3 مارچ 2016

Azhar Thiraj

اظہر تھراج

ملک ممتاز حسین قادری کو دی جانے والی سزا اور اس سزا کے بعد پھانسی سے ایک فکری،قانونی اور مذہبی بحث چھڑ گئی ہے،مختلف طبقات میں بٹے معاشرے میں ایک اور تقسیم نے جنم لیا ہے،ایک گروہ جن کی تعداد بہت قلیل ہے، اسے قانون کی فتح اور جیت قرار دے رہا ہے ۔تو دوسرا گروہ جو تعداد میں زیادہ ہے پھانسی کو عظیم ظلم سے تشبیہ دے رہا ہے۔ حکومت،سیکولر،نان سیکولر میڈیا،نام نہاد لبرلز،عریاں جمہوریت کے وکلاء سب ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد ڈرے ہوئے ہیں، اتنے خوفزدہ ہیں کہ جس آزادی اظہار رائے کا ڈھنڈورا پیٹتے رہے اسی کو دبانے کی کوشش میں لگے ہیں،ایک طرف پاکستان کاخودساختہ مکروہ امیج پیش کر کے دنیا سے انعام پانے والی کا اتنا شور مچایا جا رہا ہے کہ پاکستان میں بس وہی ایک ہی ہے جوسب کچھ ہے دوسری طرف مذہب سے محبت کرنے والوں کو” بلیک“کردیا گیا۔

(جاری ہے)

عوامی ردعمل کے ڈر اور خوف کا یہ عالم ہے کہ ایک نجی ٹی وی نے محض جنازے کی خبر نشر کی تو اسے جرمانہ کردیا گیا،خوف سے شاہوں اور ان کے وفاداروں کی ٹانگیں تھر تھرکانپ رہی ہیں،پسینے چھوٹ رہے ہیں،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگلے لمحے ہی دم گھٹ جائے گا،جان جسم سے نکل جائے گی
سوال یہ ہے کہ صرف یہ چند ہزار ہی پاکستان کی آواز ہیں؟کیا یہ چند ہی جمہور ہیں؟سب کچھ یہی ہیں تو باقی کیا ہیں جن کی حمایت سے یہ پارلیمنٹ آباد ہوا؟یہ صوبائی اسمبلیوں میں رونق لگی؟یہ سیاست کا کاروبار چل رہا ہے،کیا یہ ٹیکس دینے والے کیڑے مکوڑے اور کھانے والے ہی سب کچھ ہیں؟
چند ہزار کوچھوڑ کرجو کروڑوں میں ہیں ان کے ذہنوں میں یہ سوال بھی جنم لے رہا ہے کہ جو ممتاز قادری کے غصے اور ایکٹ کی وجہ تھی اس وجہ کو ختم کیا جائے گا؟گستاخ رسول،ملعونہ آسیہ مسیح کو پھانسی دی جائے گی جس کو پانچ سال سے سزا تو ہوچکی لیکن عملدرآمد نہیں ہوا،رمشا مسیح،جس کو نابالغ قرار دے کر چھوڑ دیا گیا(حالانکہ وہ بالغ تھی)کو واپس لا کر اس کے کیے کی سزا ملے گی؟
یہ بات بھی سچ ہے کہ احتجاج کرنیوالے بھی دودھ کے دھلے نہیں،ان میں بھی ایسے شامل ہیں جو بکاؤ مال کے نام سے شہرت رکھتے ہیں،معاملہ ٹھنڈا ہونے اور پیسہ اچھا ملنے پر خاموش ہوجائیں گے،عوام نے بھی حرمت رسول ایکٹ غلط استعمال کیا اور ایسے بے گناہوں کو سزا دی جو بے قصور تھے جن کو ذاتی عناد کی بھینٹ چڑھایا گیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا،محبت رسولﷺ اور عشق رسولﷺ ہر مسلمان کا ایمان ہے،اس کے بغیر تو ایمان بھی نامکمل ہے،گستاخان رسول کی سزا قانون میں موجود ہے اور قانون ان کو سزا دے سکتا ہے،کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے کر خود ہی مدعی ،خود ہی وکیل اور خود ہی منصف، بن کرکسی کو سزا دیتا پھرے۔


اسی طرح تحفظ خواتین بل پر شور مچانے والوں کو مشورہ ہے کہ پہلے اس قانون کا باریکی سے جائزہ لیں،اگر دیکھا جائے تواس قانون میں کوئی قباحت نہیں،اس قانون سے ان کو خوفزدہ ہونا چاہیے جو آوارہ گرد ہیں جو بیویوں کو اپنی باندی سمجھتے ہیں،جن کی راتیں کہیں اور دن کہیں اور گزرتے ہیں،کہاں لکھا ہے کہ بیویوں پر تشدد کیا جائے؟بیٹیوں کی مرضی کے بغیر ان کی شادی کا فیصلہ کیا جائے،عورت کوئی بھیڑ بکری تو ہے نہیں جس کو جہاں چاہا،جس کے ساتھ چاہا کھونٹے سے باندھ دیا،اس قانون سے ان قانون بنانے والوں کو ڈرنا چاہیے جو سب سے زیادہ قانون شکن ہیں مولانا کو نہیں۔

قانون بنانیوالوں نے مرد کے پاؤں میں تو بیڑیاں ڈال دیں ہیں عورتوں کیلئے بھی کوئی شکنجہ تیار کرنا چاہیے تھا کہ وہ مردوں کو کسی کھاتے میں ڈالے بغیر غیروں کی کھیتی میں چرتی پھرتی رہیں۔
ہمارے معاشرے میں مسئلہ کسی قانون کا نہیں،کسی کو سزا دینے کا نہیں،مسئلہ یہ ہے کہ یہاں سچ بولنے والوں کا قحط ہے،سچ لکھنے والوں کا فقدان ہے،سب سے بڑھ کر سچ سننے والوں کی کمی ہے،کوئی سچ لکھنا نہیں چاہتا،کوئی سچ بولنا نہیں چاہتا،اگر کوئی بولتا بھی ہے تو کوئی اسے سننا پسند نہیں کرتا۔


مرحوم ممتاز قادری نے غلط کیا یا سہی یہ الگ بحث ہے لیکن یہ بات اٹل ہے کہ آواز دبانے سے دبتی نہیں بلکہ زیادہ بلند ہوتی ہے،ظلم فی الوقت دب تو جاتاہے لیکن انتقام بن کر ظاہر ہوتا ہے،حکومت نے پھانسی دے کر کوئی کامیابی حاصل نہیں کی بلکہ اپنے لیے گڑھا کھودا ہے،صاحب اقتدار یاد رکھیں کہ کپتان اور قادری کے دھرنے وہ نہیں کرسکے جو یہ ایک پنڈی کا جنازہ کر جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :