آئیں ! آج کے دن اپنی اناؤں پر بھی چھری پھیریں

پیر 12 ستمبر 2016

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

ابراہیم علیہ السلام ، جنہیں اپنے رب کی طر ف سے خلیل اللہ ہو نے کا شرف عطا کیا گیا۔کبھی عقیدہ توحید بیان کر نے اور بت شکنی کی پاداش میں بادشاہ نمرود کی طرف سے آگ کا سامنا توکبھی اپنے بیٹے اور بیوی کو فاران کے بیا بان میں چھوڑنے کا حکم ۔ اپنے رب کی طرف سے ہر آزمائش میں جوسر خرور ٹہرے جس کے انعام کے نتیجے میں رہتی دنیا تک ہر سال عمو ماََ اور بالخصو ص قربانی کے موقع پر ان کی یاد لوگوں کے دلوں میں زندہ رہے گی۔

ویسے تو قرآن حکیم میں جگہ جگہ ان کا ذکر کیا گیا لیکن سورہ صافات کی آیات میں ابراہیم علیہ السلام کی ایک دیرینہ خواہش کا ذکر کرتے ہوئے قرآن اسے ان لفظوں میں بیان کرتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کا علاقہ چھوڑ کر ہجرت فر مائی تو اپنے رب سے دعا کی کہ وہ انہیں ایک نیک اولاد عطا فر مائے ۔

(جاری ہے)

جس کو قبول و منظور فر ماتے ہوئے ان کے رب نے ایک برد باد لڑکے کی خوشخبری سنائی اور یوں حضرت اسماعیل علیہ السلام جیسا حلیم اور پاکباز بیٹا عطا کیا۔


جیسے ہی بیٹے نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو باپ کوایک اور کٹھن امتحان کا سامنا کر نا پڑا۔ جو پہلے سب امتحانوں سے زیادہ سخت اور جاں گسل ہے ۔ تین راتیں متواتر خواب دیکھتے ہیں کہ رب تعالیٰ فر مار ہے ہیں کہ اے ابراہیم علیہ السلام، تو ہماری راہ میں اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کردے۔بڑھاپے اور پیرانہ سالی کی تمناؤں کا مرکز،راتوں اور دنوں کی دعاؤں کا ثمراور قلب و نظر کے چراغ اپنے بیٹے سیدنا اسماعیل علیہ السلام سے جب اس خواب کا ذکر کیا، جو خود بھی اپنے باپ کی طرح، اولولعزم ،ثابت قدم ،عزیمت و استقامت تسلیم ورضا اور اطاعت ربانی کے پیکر تھے نے فوراََ ہی سر تسلیم خم کر دیا اور کہا:”اگر رب کی یہی مرضی ہے تو آپ انشا ء اللہ مجھے صبر کر نے والوں میں سے پائیں گے۔


باپ اور بیٹا ، دونوں اپنے رب کی طرف سے دی گئی آزمائش میں سر خرو ٹہرے ، ایک باپ کا بیٹے کی گردن پر چھری چلانے کا ارادہ کر لینا اور بیٹے کا رب کے حکم کے آگے سرنڈر کر دینا ،بلا شبہ ایک عظیم اور یادگار قربانی تھی جس کی مثال تاریخ عالم میں نہ ملتی ہے اور نہ آئندہ ملے گی ۔ چشم فلک نے بھی اطا عت الہی کا ایسا منظر نہ دیکھا ہو گا ۔صبر و استقامت اور جاں نثاری بھی حیرت میں ڈوبے ہوئے تھے کہ اپنے رب کے ساتھ ارادے کی یہ کیسی پختگی ہے کہ ایسا باپ جسے بڑھاپے میں اولاد نصیب ہوئی ، اسی پر وہ چھری پھیرنے چلا ہے؟؟؟چنا نچہ حضرت اسما عیل علیہ السلام کے ذبح کو جنت سے لائے گئے مینڈھے کی قربانی کی صورت میں عظیم ذبح کے ساتھ بد ل دیا گیا۔


قارئین !رب تعالیٰ کو بھی اپنے دوست اور اس کے بیٹے کی اداء اس قدر پسند آئی کہ رہتی دنیا تک قربانی کے اس عمل کو جاری کر دیا۔جسے پوری دنیا کی طرح ہمارے ہاں بھی لوگ اپنی اپنی استطاعت کی مطابق کر تے ہیں ۔ لیکن افسوس کے ساتھ یہ بات لکھنی پڑ رہی ہے کہ اس عبادت کے پیچھے کار فر ما اُس مقصد کو ہم یکسر بُھلا بیٹھے ہیں ۔ صرف قربانی ہی نہیں بلکہ رب تعالیٰ کی طرف سے فرض کئے گئے تما م احکامات کی روح کو سمجھے بغیر ہم ان پر عمل کرتے چلے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں وہ نتائج ظاہر نہیں ہو رہے جو ہو نے چاہئیں۔

معذرت کے ساتھ میں کئی ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو صرف نماز، روزہ، حج اور زکوٰ ة اللہ کی رضا کے بجائے صرف لوگوں کو دکھانے کے لئے کرتے ہیں جن کا قربانی کا مقصد بھی صرف اپنی برادری اور آس پاس کے لوگوں میں اپنی رعب اور دبدبہ قائم رکھنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔
قارئین کرام ! ہمیں ماننا پڑے گا کہ ہمارا معاشرہ ایک ایسا معاشرہ بن چکا ہے جہاں ہماری عبادتیں بھی منافقت، نفرت اور عداوت کا شکار ہو رہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں سے امن، سکون اور محبت ختم ہوتی جا رہی ہیں ۔

ہم ہر سال جس یاد کو تازہ کر تے ہوئے قربانی کرتے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ ہم اس یاد سے بری طرح غافل ہو گئے ہیں ۔ہم اولاد تو دور کی بات اپنے رب کے لئے حرام کی کمائی کے 5روپے چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے۔ہمارا شمار بھی ایسے معاشروں میں ہوتا ہے جہاں اپنے مفادات کے پیچھے نعوذ باللہ قدرت کو بھی دھوکہ دینے کا رواج پڑ گیا ہے جس کی وجہ سے رشتوں کا تقدس پا مال ہو رہا ہے ،بڑے بڑے محلات اور کروڑوں کے بینک بیلنس کے باوجود بے سکونی کا آسیب ہمارے دلوں پر راج کر رہا ہے ۔


کیا ہی اچھا ہو کہ آج کے دن ،عید قربان کے موقع پر ہم حقیقی معنوں میں قربانی کے فلسفے کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔ کئی کئی سالوں سے اپنے دلوں میں پلتی نفرتوں ، کدورتوں اور منافقتو ں کے بتوں کو توڑتے ہوئے قر بانی سمیت ہر عبادت کو اس کی روح کے مطابق سر انجام دینے کی کوشش کریں ۔ آج کے دن اپنے جانور کی گردن پر چھری پھیر نے کے ساتھ اپنی جھوٹی اناؤں کی گر دنوں پر بھی چھری پھیر کر ،اپنے رب سے بندگی کا اظہار کریں اور اس کے ساتھ یہ عہد کیا جائے کہ اے میرے رب !میری نماز اور میری عبادت ، میرا جینا اور میرا مر نا سب تیرے لئے ہے ، تیرا کوی شریک نہیں اور میں اپنے نفس کی بجائے تیرا فر مانبردار بن کے رہوں گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :