ٹریفک پولیس کی بہترین کار کردگی اور پنجاب پولیس میں تبدیلی کا آغاز

پیر 22 اگست 2016

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

بہت سی برائیوں کی طرح ون ویلنگ کی برائی بھی ہمارے معاشرے میں اس قدر تیزی کے ساتھ سرایت کر رہی ہے کہ بالخصو ص نوجوان طبقہ اسے فیشن سمجھتے ہوئے اختیار کرتا چلا جا رہا ہے ۔جوانی کے نشے میں مست اپنے ماں پاب، گھر والوں اور اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر سڑکوں پر تیز رفتاری کے ساتھ ون ویلنگ کے کر تب دیکھاتے دیکھاتے یہ لوگ موت کی وادی کے مسافر بن جاتے ہیں یا پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپاہج ہو کر بستر مرگ پر محتا جی کی اذیت ناک زندگی گذارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔

ظلم تو یہ ہے کہ نہ خود بلکہ اپنی منزلوں پر رواں دواں سڑکوں پر چلنے والے بے گناہ افراد بھی ان کی اس بد معاشی کا شکار ہوتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق ایک ون ویلر اپنے ساتھ دو بے گناہ افراد کو بھی یا تو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے یا پھر انہیں شدید زخمی کر کے پوری زندگی انہیں کچھ کر نے کے قابل نہیں چھوڑتا ۔

(جاری ہے)


ہر ہفتہ ، اتوار اور بالخصوص تہواروں کے موقع پر لاہور کی سڑکوں پر خون کا یہ کھلے عام کھیلا جاتا تھا۔

ٹریفک پولیس اور انتظامیہ کی طرف سے کی گئی کاروائیوں کے باوجود ہر آنے والے دن میں جہاں ون ویلنگ میں کمی نظر آتی ،بد قسمتی سے اُس میں مزید اضافہ ہو تا چلاجا رہاتھا۔ بھلا ہو چیف ٹریفک آفیسرلاہور، طیب حفیظ چیمہ کا ،جنہوں نے کئی عرصے سے اس کے لئے مستقل کوشش جا ری رکھی ۔ کبھی ہنڈا کمپنی کے سلیم شجاع کے تعاون سے آگاہی مہم کاآغاز تو کبھی اخبارات میں اشہارات کے ذریعے ون ویلنگ کے منفی اثرات کا پیغام لوگوں اور بالخصوص والدین تک پہنچا یا گیا۔

بہترین حکمت عملی کی وجہ سے با لآخر 14، اگست کا پورا دن خیر و عافیت سے گذرا اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ون ویلنگ اور ہنگا مہ آرائی کا ایک بھی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا۔ بے شک اس کا کریڈٹ لاہور کی ٹریفک پولیس اور اس کے چیف کو جا تا ہے کہ آزادی کے جشن کے موقع پر کسی ماں کی گود اجا ڑ نہیں ہوئی ، کوئی بہن اپنے بھائی کے جوان لاشے پر بین ڈالتے ،کوئی بوڑھا باپ اپنے اچھے مستقبل کے خواب کو اپنی آنکھوں کے سامنے چور چور ہوتے دکھائی نہیں دیا۔


قارئین !لاہورکے ڈی۔ آئی۔جی آپریشنز ڈاکٹر حیدر اشرف نے جب پولیس کی کار کردگی بہتر کر نے کے لئے انفارمیشن ٹیکنا لوجی کا سہارا لیااور اس کی بدولت کچھ ہی عرصے میں تھانہ کلچر اور پولیس کے نظام میں شفا فیت لانے کی بات کی تو مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو ان کا یہ دعوٰی، ماضی کے افسروں کی طرح حقیقت سے کوسوں دور محسوس ہو تا تھا لیکن کچھ روز قبل ایک سینئر صحافی دوست اپنے ایک کیمرہ مین کی کہانی بتا رہے تھے کہ وہ کاغذات کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرانے تھانے گیا جہاں محرر نے رپٹ درج کر نے کے عوض 500روپے کا مطالبہ کیا ۔

کیمرہ مین نے 8787 پر کال کی اور اپنی کمپلین رجسٹرڈ کرائی ۔ کمپلین سینٹر والوں نے 2گھنٹے کا وقت مانگا لیکن 20منٹ بعد اسے ایک کال موصول ہوئی ۔ دوسری طرف سے ڈی۔پی۔او قصور ،علی ناصر رضوی نے مسئلے کے بارے دریافت کرتے ہوئے کہا کہ محر ر سے میری بات کرائیں۔ اب فلمی سین تھا ۔ محرر نے دیکھا کہ مسکین سا بندہ ہے یہ کیا قصور کے ڈی۔پی۔او سے میری بات کرائے گا؟اور بات کو ٹالنے کی کوشش کی ، کیمرہ مین نے دوبارہ محرر کو اصرار کیا کہ ڈی۔

پی۔او آپ سے بات کر نا چاہتے ہیں، فون سنیں۔ تو اس نے پہلے کی طرح پھر اس کا تمسخر اڑاتے ہوئے بات کو رد کر دیا۔ ڈی۔پی۔او جو یہ ساری باتیں سن رہے تھے نے کیمرہ مین کو کہا کہ مو بائل کا لاؤڈ سپیکر آن کریں اور پھر اس کے بعد محرر کے ساتھ جو ہوئی اسے لفظوں میں بیان کیا جائے توڈر ہے کہ پیمرا میرے کالموں پر پابندی نہ لگا دے ۔ 500روپے مانگنے والا محرر،اب رپٹ درج کر کے اپنے پیسوں سے فوٹو کاپی کرا کے شکریہ کے ساتھ کیمر مین کو تھانے سے رخصت کرتا ہے ۔


قارئین کرام !میں یہاں ڈاکٹر حیدر اشرف کی لاہو پولیس کو مزیدفعال اور پولیس ، عوام میں بہترین ورکنگ ریلیشن شپ کے لئے کئے جانے والے مزید اقدامات کا بھی ذکر کر نا چاہوں گا کہجس کے تحت ڈویژنل سطح پر اوپس روم کے بعد تھانوں کی سطح پر بھی اوپس روم بنا نے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ جس کا مقصد تھانے میں آنے والے ہر سائل کے مسئلہ کو ترجیحی بنیادوں پر حل کر نے کے لئے مانیٹرنگ کر نا ہے ۔

اس ماڈل پراجیکٹ کے تحت نہ صرف پولیس سٹیشن بلکہ ہر آنے والے سائل کے ساتھ سلوک کو بھی مانیٹر کیا جائے گا۔خوشگوار بات یہ ہے کہ اوپس روم میں بریفنگ، ڈسپیچ روم،تفتیشی افسروں کے لئے ورک سٹیشن ، کمپلینٹ فارم،نئے بیڈز کے ساتھ بیرکس،ریکارڈ روم اور محرر کے کمرے تیار کئے جائیں گے۔
کمپلینٹ سینٹر کے فعال اور سائلین کی شکایتوں پر فوری عملدرآمد کے بعد ان اقدامات سے لاہور سے شروع ہونے والا پولیس کلچر میں تبدیلی کا یہ سفر، اب پورے پنجاب میں شروع ہو گیا ہے اور امید ہے اگر اسے خلوص دل کے ساتھ یونہی جاری رکھا گیا تو کچھ بعید نہیں کہ ہی عرصے میں سالوں سے تھانہ کلچر میں تبدیلی کا خواب ، حقیقت میں تبدیل نہ ہو جائے۔ اللہ کرے ایسا ہو جائے!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :