سید مصطفی کمال کو ایک صائب مشورہ۔۔۔!

بدھ 9 مارچ 2016

Imran Ahmed Rajput

عمران احمد راجپوت

مصطفی کمال کی جانب سے کی گئی پریس کانفرنس نے وقتی طور پر تو سیاسی میدان میں ایک ہلچل پیدا کردی لیکن سیاسی منظر نامے میں ابھی تک کوئی اہم پیشرفت کو ممکن نہ بنا سکی حالانکہ اِس دوران وہ مسلسل آن میڈیا اِس بات کا اقرارکرتے رہے ہیں کہ انھیں پاکستان اور پاکستان سے باہر امید سے بڑھ کر رسپانس ملا ہے جبکہ کافی لوگ اُن سے رابطے میں ہیں لیکن وہ کون لوگ ہیں اِس کا تاحال اب تک کوئی پتا نہیں تین مارچ کو کیجانے والی پریس کانفرنس کو پانچواں روزہے لیکن ابھی تک مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کے اندر سے ایک دھماکے دار پریس کانفرنس کے علاوہ کچھ باہر نہ آسکا میڈیا پر بھی بار بار وہی بات دوہرائی جارہی ہے جو وہ اپنی پریس کانفرنس میں کہہ چکے ہیں۔

اِسطرح مصطفی کمال اور انیس قائم خانی پاکستان کی سیاست میں ایک ہلچل مچانے میں تو کامیاب ہوگئے لیکن اُسے برقرار رکھنے میں ناکام نظر آتے ہیں ۔

(جاری ہے)

اب تک کی صورتحال سے لگتا ہے کہ مصطفی کمال نے پاکستان کی سیاست میں قدم رکھنے سے پہلے کسی قسم کی کوئی جامع پالیسی مرتب نہیں کی اِن دونوں کی جانب سے پالیسی واضح نہ کرنا مختلف حلقوں کی جانب سے کہی گئی اِس بات کو تقویت ملتی ہے کہ یہ دونوں آئے نہیں بلکہ بلائے گئے ہیں میڈیا کی جانب سے مستقبل کے بارے میں بار بار پوچھے جانے والے سوالوں کے غیر تسلی بخش جواب کچھ اِسی بات کی جانب اشارہ کرتے دکھائی دیتے ہیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر وہ کیا وجوہات ہیں جس کی وجہ سے مصطفی کمال کو اِس قدر اُجلت میںآ نا پڑا جبکہ کوئی واضح پالیسی اور منشور بھی ساتھ نہ لائے صرف ایم کیوایم کے قائد کی کردارکشی مصطفی کمال کے سیاسی قد میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے نہ ایم کیوایم کے ووٹ کو توڑ سکتی ہے اور اگر وہ ایسا سمجھتے ہیں تو انھیں پاکستان آنے سے پہلے ماضی میں ایک بار ضرور جھانک لینا چاہئیے تھا۔


اب جبکہ وہ ایک نئی پارٹی بنانے کا اعلان کرچکے ہیں جس کا ابھی کوئی واضح منشور ہے نہ نام لہذا جب تک مصطفی کمال اپنی پاڑی کا نام اور منشور واضح نہیں کردیتے تب تک ہم نہیں سمجھتے وہ سیاسی میدان میں مزید کوئی ہلچل مچانے میں کامیاب ہوپائینگے۔ مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کو یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہئیے کہ وہ ایک مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور مہاجر ہیں ساری زندگی مہاجر حقوق کی جنگ لڑتے آئے ہیں لہذا پارٹی کا نام اور منشور طے کرتے وقت انھیں اِس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئیے ۔


جناب مصطفی کمال کو نئی پارٹی کی بنیاد رکھتے وقت چند اہم باتوں کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ملک میں موجود اردو بولنے والا طبقہ جس کی بڑی اکثریت سندھ میں آباد ہے ایک عجیب بے چینی اور تذبذب کا شکار ہے ایسے حالات میں جبکہ انھیں اقتدار سے دور رکھنے کے ساتھ ساتھ نچلی سطح پر اختیارات سے بھی محروم رکھا ہوا ہے اردو بولنے والا یہ طبقہ جو بانیانِ پاکستان کی اولاد ہیں اِس ملک کی خاطر دیجانے والی اپنے باپ داداؤ کی قربانیوں کے باوجود اپنے ہی علاقوں میں محرومیوں کا شکار لاچار وبے اختیار زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جہاں انھیں ضروریات زندگی سے لیکر ہر شعبہ ہائے زندگی میں تکلیفوں پریشانیوں کا سامنا ہے کسی جگہ انکی شنوائی ہے نہ کوئی دادرسی یہاں تک کہ اردو بولنے والوں کی سب سے بڑی واحد نمائندہ جماعت متحدہ قومی موومنٹ بھی اپنے خلاف مسلسل ہونے والی سازشوں کے سبب اِس مظلوم طبقے کو حقوق دلانے سے قاصر ہے یاد رکھیں جوغلطی مہاجر قومی موومنٹ نے متحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل ہوکر کی اور راہ سے بھٹکے وہ غلطی آپ نہ کریں۔


مصطفی کمال کو ہمارا صائب مشورہ ہے کہ وہ اپنی سیاست کا محور اردو بولنے والوں کو رکھیں اور جلد سے جلد ایک آل مہاجر پارٹیز کانفرنس کا اجلاس منعقد کرائیں سب کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے ایک بڑا سیاسی اتحاد بنائیں جس کا نام متحدہ مہاجر موومنٹ (MMM) یا متحدہ مہاجر الائنس (MMA) یا کوئی اور مناسب نام تجویز کرلیں ویسے ہم یہی مشورہ متحدہ قومی موومنٹ کو بھی دینا چاہینگے یاد رکھیں آل مہاجر پارٹیز کانفرنس کے ذریعے اردو بولنے والوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اب دونوں میں سے جو یہ کام پہلے کریگا یقیناً اسکے لیے سیاست میں مثبت نتائج برآمد ہونگے۔


اِس کانفرنس میں شامل اردو بولنے والوں کی نمائندگی کرنے والی سیاسی جماعتوں کے سربراہان کے ساتھ ساتھ اردو بولنے والی اہم شخصیات چاہے انکا تعلق کسی بھی سیاسی مذہبی و جماعت سے ہو سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی کارباری شخصیات, اینٹی لیکچوئل, اہلِ فکر اہلِ دانش سنیئرز صحافی کالم نگار غرض یہ کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے جڑے اردو بولنے والے طبقے کو مدعو کیا جائے․ جس کے بعد سب کی مشاورت سے ملک و قوم کے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے مہاجروں کی محرومیوں کے تدارک کیلئے ایک جامع منشور مرتب کرتے ہوئے آگے کا لائحہ عمل طے کیا جائے․ اِس کامیاب کوشش کے بعد ملکی سطح پر گراس روٹس لیول کی حمایت یافتہ سیاسی و مذہبی جماعتوں سے رابطہ کر کے اُن کے ساتھ ملکی سطح پر ایک بڑا اتحاد بنایا جائے جو آنے والے عام انتخابات میں ایک جامع اور مؤثر کردار ادا کرتے ہوئے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرسکے․جس کے بعد اِس قومی اتحاد پر مشتمل ایک ایسی قومی حکومت تشکیل دی جائے جس سے پاکستان میں بسنے والی ہر مظلوم قوم کی داد رسی ہوسکے اور ملک میں حقیقی معنوں عوامی جمہوریت قائم کی جاسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :