ہنگامہ خیز نہیں ایک فعال پارلیمان

جمعرات 19 مئی 2016

Jahid Ahmad

جاہد احمد

پانامہ لیکس پہلے دن سے ایک قانونی معاملہ تھا جسے بہر طور موقع پرستوں نے اخلاقیات کے ڈھول میں ڈال کر خوب پیٹا ہے۔پانامہ لیکس کے نام پر ہیجان برپا کرنے کا مقصد کیا رہ جاتا ہے جب کہ وزیرِ اعظم پہلے دن سے اپنے آپ کو کمیشن کے سامنے پیش کرنے پر تیار رہے ہیں ۔ ایک قانونی نوعیت کے معاملے کوہر طرح قانونی طور پر برتا جانا تھا لیکن بھلا ہو اُس ‘موقعے‘ کا جسے موقعے کے منتظر کسی صورت ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے تھے۔

شیروانی پہننے اور سرکاری ٹی وی پر قوم سے خطاب کا‘ موقع‘ بھی آئے گا لیکن ضروری ہے کہ ُاس ’موقع‘ کا بھرپور فائدہ اٹھایا جائے جو خیبر پختونخوا کی عوام نے ’موقع‘ کے منتظر اعلی حضرت کو ووٹ دے کر فراہم کیا ہے اور جسے دونوں ہاتھوں سے لٹا کر بھی اُس خاص والے ’موقع‘ کی طاق میں ہیں۔

(جاری ہے)

محترم وہ بد نصیب’ موقع‘ اگر آیا تو اس’ موقع‘ سے فائدہ کوئی اور ہی اٹھائے گا ، آپ نہیں۔

شاید ذکر سماعت سے گزرا ہو، ایک اصغر خان ہوا کرتے تھے۔ سنا ہے کافی مشہور تھے اور مجمع بھی کافی اکھٹا کر لیا کرتے تھے۔ انہیں بھی وزیرِ اعظم بننا تھا لیکن مسئلہ ان کا بھی یہ تھا کہ ووٹ مجمع کے حساب سے ملتے نہیں تھے،پھر وہ بھی بات بات پر خاص’ موقع‘ کی طاق میں رہنے لگے۔اسی’ موقع‘ کے چکر میں خاص ’موقع‘ دینے والوں کو خط بھی لکھ ڈالا۔

تاریخ گواہ ہے کہ’ موقع‘ تو ملا لیکن اصغر خان کو نہیں بلکہ آمریت کے سیاہ دور کو۔یقینا آپ اصغر خان دوئم تو بننا پسند نہیں کریں گے لیکن خدا جھوٹ نہ بلوائے یہ’ موقع‘ بھی کم بخت بڑی ظالم شے ہے ۔
مثالی اور بنیادی طور پر پارلیمان یا مقننہ جمہوری بندوبست میں ریاست کا وہ اہم ترین ادارہ ہے جہاں عوام کے منتخب نمائندے عوامی امنگوں اور مفادات کے تحفظ کے پیش نظر ریاستی امور چلانے کی غرض سے قانون سازی جیسے اعلی ترین فرض کو سرانجام دیتے ہیں۔

اس بنیادی فرض کے علاوہ پارلیمان امورِ حکومت پر نگران بھی ہے اور عوامی مفادات کی نگہبان بھی ۔یہ فیصلہ سازی کے عمل میں حکومت کی معاون و مشیر بھی ہے اور اجتماعی دانش و عوامی اعتماد کا استعارہ بھی ۔یہ اجتماع ہے حکومت اور حزبِ اختلاف کا جس کا محور ریاست کے شہریوں کے مفادات و حقوق کے تحفظ کے سوا کچھ نہیں۔
ریاست مجموعہ ہے زمین کے ٹکڑے ، مشترکہ اصول و مفادات پر متفق افراد اور انہی عوامی امنگوں کی ترجمان و کاربند حکومت کا۔

حکومت، مقننہ اور عدلیہ ریاست کے تین مصدقہ بنیادی ستون ہیں۔ پارلیمان قانون سازی کی مجاز ہے ، عدلیہ اس کی تشریح اور حکومت کا کام اس کا عملی اور موئثر نفاذ ہے۔حکومت ذمہ دار ہے ریاست اور شہریوں کے مابین اِس عمرانی معاہدے اور عہد کی پاسداری کی۔
پارلیمان جس قدر فعال و مضبوط ہو گی اسی قدر ریاست تواناہو گی اور اپنے شہریوں کے حقوق احسن طور پر ادا کرنے کے قابل رہے گی۔

سمجھنا پڑے گا کہ پارلیمان کا فعال ہونا ضروری ہے لیکن ہنگامہ خیز ہونا نہیں۔ فعال ہونا مشروط ہے عقل، دانش، سنجیدگی ، معاملہ فہمی اور نیک نیتی سے۔ ہنگامہ خیزی جڑتی ہے کج فہمی، کم علمی، جذباتیات ، مبالغہ آرائی ، کھلنڈرے پن اور بد نیتی سے۔حزبِ اختلاف پارلیمان کا وہ جز ہے جو حکومت سے کسی بھی ریاستی امر پر جواب طلب کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور حکومت ذمہ دار ہے جواب دہی پر۔


مندرجہ بالا پارلیمانی نظریات اور تصورات کے پیمانے پر پاکستانی پارلیمان کی کارکردگی کو قابلِ تحسین تو ہر گزنہیں گردانا جا سکتا لیکن بہر حال اگر ایک نوزائیدہ جمہوری نظام کے طور پر کچھ رعایت برتی جائے توایک عدد کمزور جمہوری ریاست کی نمائندہ پارلیمان ہونے کے باوجود متعدد مواقعوں پر اپنی کھال سے باہر آ کر کام کرنے کی سعی اور غیر جمہوری قوتوں کا راستہ روکنے کی جرات ضرور کی ہے۔

پاکستانی پارلیمان اسی طرح حالیہ پانامہ لیکس کے معاملے پر بھی توجہ کا مرکز رہی ہے۔وزیر اعظم پاکستان کا پارلیمان میں آ کر اپنے اثاثوں سے متعلق حزبِ اختلاف کے سات سوالات کا جواب دینا پاکستانی جمہوری نظام کے لئے مثبت قدم تھا لیکن پھر اسی تناظر میں حزبِ اختلاف کا ردِ عمل سمجھ سے بالاتر اور منفی رہا ۔ سادہ سی بات تھی کہ حزبِ اختلاف کے پاس اپنے طریقے سے اس معاملے پر سوال کرنے کا حق موجود تھا، ٹھیک اسی طرح حکومت کے پاس ان سوالات کا جواب اپنی دانست میں اپنے انداز سے دینے کا استحقاق تھا۔

حزبِ اختلاف اگر اُن جوابات سے مطمین نہیں تھی تو پارلیمان میں موجود وزیرِ اعظم سے مزید سوالات در سوالات کیے جانے چاہیے تھے، انہیں لاجواب کر دینے کا سنہری موقع موجود تھا لیکن حزبِ اختلاف کا لائحہ عمل مایوس کن حد تک کمزور اور لایعنی نظر آیاجس سے محض حکومت کے پیر مضبوط ہوئے ۔
اس معاملے پر حکومت کا رویہ پہلے دن سے مثبت رہا ہے اور وزیرِ اعظم نے کسی بھی موقع پر احتساب کے لئے پیش ہونے سے انکار نہیں کیا، اختلاف تھا تو احتساب کے طریقہ کار پر ! وزیرِ اعظم نے پانامہ لیکس کے فوراٌ بعد اپنے آپ کو خاندان سمیت سابقہ ججوں پر مشتمل انکوائری کمیشن کے سامنے احتساب کے لئے پیش کیا جس پر حزبِ اختلاف نے حاضر سروس چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالتی کمیشن کا مطالبہ کر دیا۔

عدالتی کمیشن کے قیام کی خاطر چیف جسٹس کو خط لکھا تو ٹی ار آرز پر اعتراض اٹھایا گیا۔ ٹی او آرز پر مذاکرات کی بات کی گئی تو پارلیمان میں آ کر سات سوالات کا جواب دینے کا سندیسہ بھجوا دیا گیا۔ پارلیمان میں آ کر سوالات کے جواب دیے تو اندازِ بیاں حزبِ اختلاف کی طبیعت پر گراں گزر گیا اور بنا کوئی اعتراض اٹھائے پارلیمان سے باہر کا رستہ چن لیا گیا۔

حالانکہ اہم نقطہ یہ ہے کہ انہی آنیوں جانیوں کے دوران چیف جسٹس عدالتی کمیشن کے حوالے سے حکومتی خط کا جواب دے چکے ہیں جس میں کمیشن کے قیام ، طریقہ کار اور ٹی او آرزکے بارے واضح فریم ورک فراہم کر دیا گیا ہے۔ اب جب سوالات اور اعتراضات کی توپوں کا رخ مشترکہ حزبِ اختلاف کی جانب ہے تو یہ پارلیمان میں واپس آ رہی ہے جہاں خورشید شاہ اور خان صاحب جوابی تقریر فرمائیں گے اور سات کے بجائے ستر سوالات کے جواب طلب کریں گے۔

اب حزبِ اختلاف پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل اور اس میں شمولیت پر بھی تیار ہیں ۔ اگر حزبِ اختلاف حکومتی جوابات سے پھر مطمین نہیں ہو پاتی جس کا قوی امکان موجود ہے اور پارلیمانی طریقہ کار کے مطابق وزیراعظم پر عدم اعتماد کا اظہار کر کے ہٹا بھی نہیں سکتی تو پارلیمان کے بعد اگلا رستہ عدلیہ ہی کا موجود ہے جس کاپیش خیمہ بھی پارلیمان ہی ہے ۔ یہ مسئلہ ہنگامہ خیز نہیں بلکہ فعال پارلیمان ہی کے ذریعہ سے حل کیا جانا پارلیمان اور جمہوری ریاست کی بقاء و مستقبل کے لئے ازحد اہمیت کا حامل ہے ۔ایسے تمام عناصر کو بھی رد کرنا ہے جو ان معاملات کو سڑکوں اور چوراہوں میں لے جا کر ہیجان برپا کرنے پر پرتولے بیٹھے ہیں جس کی مکمل ذمہ داری بھی پارلیمان پر عائد ہوتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :