محرم !اے محرم

ہفتہ 24 اکتوبر 2015

Khawaja Muhammad Kaleem

خواجہ محمد کلیم

محرم ! دور جاہلیت کے بدوبھی جس کا کچھ احترام کیا کرتے تھے ۔لیکن اب کے اس مقدس مہینے کی آمد سے پہلے ہی ایسے لگتا ہے جیسے کوئی دشمن حملہ آور ہونے کو ہو۔ انتظامیہ پولیس ،سپیشل برانچ،رینجرز اورفوج کے ساتھ اجلاسوں پر اجلاس کرتی ہے اور نیا اسلامی سال شروع ہونے سے پہلے ہی فیصلہ ہوجاتا ہے کہ فلاں دن ،فلاں وقت سے لے کر فلاں وقت تک یہ شاہراہ بند رہے گی ،فلاں شہر کی فلاں شاہراہ ٹریفک کے لئے بند کردی جائے گی ،بعض علاقوں میں تو کرفیو جیسا سماں ہوتا ہے ۔

اللہ کے دین اسلام !جو سلامتی کاضامن ہے اس کے مبلغوں پر پابندیاں عائد کر دی جاتی ہیں کہ وہ فلاں فلاں شہر میں داخل نہیں ہوسکتے ،کچھ تو ایسے معزز ہوتے ہیں کہ ضلعی انتظامیہ ان کی زبان بندی کے احکامات جاری کرتی ہے تاکہ خلق خدا قدرے سکون محسوس کرے ۔

(جاری ہے)

کیوں ؟ایسا کیوں؟؟اللہ کی عبادت کے لیے کھڑے کئے گئے درودیوار سے تو امن اور محبت کا پرچار کیا جاتا ہے ،اسلام تو سلامتی کا دین ہے جو ہر کالے اورگورے ،چھوٹے اوربڑے ،مردو عورت،بچے اوربوڑھے یا جوان پڑھے لکھے اور ان پڑھ کو نہ صرف اپنی جان کی حفاظت کا سبق دیتا ہے بلکہ ایک انسان کی جان کو بنی نوع انسان کا قتل قراردیتا ہے ۔

کبھی غور کیا آپ نے کہ بنی نوع انسان کے قتل کا مطلب کیا ہے ؟شائد کبھی نہیں ۔دنیا میں اس وقت کم وبیش چھ ارب سے زائد انسان موجود ہیں اس سے پہلے کتنے آئے اور راہی عدم ہوئے کوئی حساب نہیں ،یہ دنیا کب تک قائم رہے گی اور پیدائش سے لے کر موت تک کا سلسلہ کب تک جاری رہے گاخلاوٴں میں جھانکنے والی ہماری جدید سائنس اس بارے میں جاہل مطلق ہے ۔ اب سوچئے کہ جو دین ایک انسان کے قتل کو اربوں نہیں کھربوں انسانوں کا قتل قرار دیتا ہے اس کے مبلغوں سے کسی کی جان کو کیا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے ۔

مجھ ناچیز کو یہ بات آج تک سمجھ نہیں آئی ۔
میرا بچپن فیصل آباد کے ایک محلے میں گزرا ہے ۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں جس کا شمار ہے اور بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنے میں جس کے تاجر مشہور ہیں ۔ ساتھ والی گلی سے سات محرم اور دس ذی الحجہ کو ماتمی جلوس نکلتا جو سارے محلے کا چکر لگا کر اپنے نقطہ آغاز پر ہی ختم ہوجاتا ۔ جہاں تک مجھے یاد ہے جلوس کے دوران کبھی کوئی گلی بند نہیں کی جاتی تھی پولیس کے دو چار سپاہی جلو س کے ساتھ چلتے تھے جلو س جس گلی کے سامنے پہنچتا پولیس والوں کو کسی راہ گیر کو روکنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی تھی ۔

ٹریفک تھوڑی دیر کے لئے انتظار کرتی اور پھر چند منٹ بعد جلوس آگے بڑھ جانے کے بعد زندگی پھر وہی سے رواں دواں ہوجاتی ۔ حد تو یہ ہے کہ محلے میں بسنے والے وہ گھرانے جو ماتم نہیں کرتے تھے ان کے بچے بھی جلوس سے پہلے ہونے والی مجلس میں شریک ہوتے اور کسی کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ اب وہی گلیاں ہیں ،وہی شہر،وہی جلوس، وہی جلوس والے لیکن جلوس والے دن صبح سے ہی ہاہاکار شروع ہوجاتی ہے ۔

پولیس گاڑیوں میں بھر بھر کے لائی جاتی اور راستے بند کردئیے جاتے ہیں ۔ انہیں گلیوں اوراسی محلے میں بسنے والوں کو گلی کے ایک حصے تک محدود کردیا جاتاہے ۔ بچے تو بچے اب مجھے اس مجلس یا جلوس کے قریب جاتے کچھ انجانا سا لگتا ہے ۔ ایک عجیب سا ڈرہے جو دلوں میں بٹھا دیا گیا ہے ۔ فرائض کی انجام دہی میں دوسرے صحافیوں کی طرح میں بھی بم دھماکوں تک میں کود جاتا ہوں لیکن کسی بھی مسجد میں جاتے ہوئے سہم جاتا ہوں کہ اگر کسی نے مسلک پوچھ لیا تو میں کیا جواب دوں گا۔

مسلک کیا ہے مجھے تو آج تک یہ سمجھ نہیں آئی ۔رسول رحمت ﷺ اور ان کے صحابہ  کا مسلک مجھے آج تک کوئی عالم کوئی مفتی کوئی شیخ الاسلام کوئی مناظرکوئی ذاکرکوئی خطیب پاکستان اور واعظ خوش بیان بتانہیں سکا۔ میں تو سیدھا سادا مسلمان ہوں جو صرف اتنا جانتا ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے جس نے اپنے بندوں کو اس کائنات میں رہنے کے قواعد وضوابط بتانے کے لئے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے اور پھر ایک مکمل اور آخری ضابطہ حیات قرآن کے نام سے اپنے آخری پیغمبر کے ذریعے اپنے بندوں تک پہنچا دیا۔

سکول کالج اور یونیورسٹی سے تحصیل علم کے علاوہ بہت سے صاحبان علم کے ساتھ گفتگو کے باوجود میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ ایک خدا ایک رسول ﷺاور ایک ہی کتا ب کے ہوتے ہوئے بڑے بڑے علماء،مفتیان کرام اورنامور خطیبوں میں باہمی اختلاف کیوں ہے ؟ ربع صدی سے زائد زندگی کے سفر میں مجھے کسی عالم نے یہ نہیں بتایا کہ نماز حاضری سے زیادہ حضوری کا نام ہے ۔

کچھ پتہ نہیں کہ اللہ کی وحدانیت ،رسول اللہ ﷺ کے خاتم الانبیا ء ہونے اورروز آخرت پر ایمان رکھنے والوں پر تکفیر کے نعرے کیوں بلند کئے جاتے ہیں ۔ ہمسائے میں بیٹھا دشمن ہمارے گھر میں گھس آیا ہے اور ہمارے سر کاٹنے کے درپے ہے لیکن ہم ہیں کہ ہاتھ باندھنے اور ہاتھ چھوڑنے کی بحث سے ہی نہیں نکل سکے ۔آج تک کوئی ایسا مفتی نہیں ملا جو فرقہ بندی کے خلاف فتوی دے ، کوئی عالم او رواعظ ایسا نظر نہیں آیا کہ جو ایک خدا اورایک رسول ﷺ کے نام پر خلق خدا کو قرآن کے جھنڈے تلے بلائے ۔


بچپن سے ماں باپ اور استادوں نے سبق پڑھایا کہ مسجد خدا کا گھر ہے ۔ عجیب بات ہے ! اب میں ایک مسجد کا رخ کرتا ہوں تو وہ سنی کی ہے دوسری طرف جاتا ہوں تو شیعہ کی ،کہیں اوررخ کروں تو وہابی کی ،ایک اور سمت جاوٴں تو اہلحدیث کی ،میرے خدا تیری پناہ !مساجد میں بڑے بڑے کتبے اور اشتہار تک آویزاں ہیں کہ کسی دوسرے مسلک سے تعلق رکھنے والا اس مسجد کی انتظامیہ کا فرد نہیں ہوسکتا۔

مجھے اچھی طرح یا د ہے محلے کی جس مسجد میں ہم قرآن پاک کی تعلیم کے لئے جاتے تھے اس میں ہمارے ساتھ ایسے گھرانوں کے بچے بھی قرآن پڑھتے تھے جن کے گھروں سے محرم میں ماتمی جلوس نکلتے تھے ۔نہ استاد کو ایسے شاگردوں سے کوئی مسئلہ تھا نہ شاگردوں کو استاد سے کوئی شکایت ۔ میرا بچپن اسی شہر کی گلیوں میں کھو گیااور میں روٹی روزی کے چکر میں بہت سے شہروں کی خاک چھانتا ہوا اب اسلام آباد میں مقیم ہوں ۔

برسوں بیت گئے کشمیر سے کراچی تک بہت گھوما لیکن کہیں رب کا گھر نہیں ملتا ، جوبلاتفریق مذہب وملت ہر چھوٹے بڑے کے لئے امن کا گہوارہ ہو۔ جہاں پہنچ کر آدم کا ہر بیٹا اور ہوا کی ہر بیٹی سکون کی نعمت سے آشنا ہو۔
میرے پیارے قارئین میں کوئی جینئس انسان نہیں اور نہ ہی دنیا کا کوئی انسان عقل کل ہے ہو سکتا ہے جو گتھی مجھ سے آج تک نہیں سلجھ سکی آپ میں سے کوئی ایک مر دیا عورت اسے پلک جھپکتے میں سلجھا دے ۔

اگر آپ کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب ہو،آپ کی نظر میں کوئی ایسا نر کا بچہ ہو جو مذہب و ملت او ر دوسرے تمام تعصبات سے بالاتر ہوکر انسانوں کے دلوں پر محبت کی تلوار چلاتا ہو،کسی ایسے مجاہد کو آپ جانتے ہوں جو محمد ﷺ کے کندھوں پر سواری کرنے والے اور فاطمہ  کے گود کھیلے شہیدکربلا حسین کی طرح باطل کے سامنے سرتوکٹا لے لیکن قوم کو تقسیم کرنے کے حق میں نہ ہو۔ کوئی ایسا زنجیرزن ہو جوزنجیر کا ایک وار فرقہ بندی کی لعنت پر بھی کرے ،یا کوئی ایسی مسجد جس میں داخل ہو کر آدم کا ہر بیٹا اور ہوا کی ہر بیٹی سکون کی نعمت سے آشنا ہوجائے اور خود کو خالق کائنات کی پناہ میں محسوس کرے تو مجھے ضرور بتائیے گا،میں منتظر رہوں گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :