اجڑا گلشن ، ویران سڑکیں
پیر 4 اپریل 2016
(جاری ہے)
داتا کی نگری میں مجھے اجنبیت یا اداسی کا احساس بہت کم ہوتا ہے ۔ لاہور مجھے بیگانہ شہر نہیں لگتا شائد اسی لئے لاہورکے گلشن کا اجڑنامجھے دکھ کے سمندر میں ڈبو گیا ہے۔
تیرا مکہ رہے آ باد مولا
#کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
نہ صرف سیاسی بلکہ سماجی اور مذہبی حلقوں میں بھی تفرقہ بازی اس قد ر پھیل چکی ہے کہ انسانیت کے علم برداروں کی اصلاح احوال کی امیدیں دم توڑتی دکھائی دیتی ہیں۔عین اس وقت جب لاہور کے باسی دھاڑیں مارتے ہوئے خون آلود لاشوں اور زخمیوں کو کندھو ں پر اٹھا کر ہسپتالوں کی طرف بھاگ رہے تھے ،دین فروشوں ملاوٴں کا ایک گروہ سادہ لو ح عوام کو ورغلا کر رسول رحمت ﷺ کے نام پر راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہریوں پر ایک نئی مصیبت مسلط کر چکا تھا۔
بیروزگاروں کو رزق حلال کی راہ دکھانے والے نبی ﷺ کی نام پر لاکھوں مزدوروں کا رزق بند کرنے والوں نے غریبوں کی موٹرسائیکلیں جلائیں ،مارکیٹوں میں توڑ پھوڑ کی اورگاڑیوں کے علاوہ میٹرو سٹیشن بھی تباہ کئے۔افسوس صد افسوس!جس کے ہاتھوں میں بدترین دشمنوں کی امانتیں محفوظ رہیں ا س ہستی کے نام نہاد نام لیواوٴں کے ہاتھ سے کچھ محفوظ نہ رہا۔ڈنڈہ بردار مقدس غنڈوں نے قانون نا فذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو جم کر پیٹا اوران پر پتھربھی برسائے اور انہیں استعمال کرنے والے ملاوٴں کو نہ زبان کا پاس رہا نہ اپنے لکھے ہوئے وعدوں کا۔ کس منہ سے یہ سرکار ﷺ کا نام لیتے ہیں؟مگرریاست شائداس لئے خاموش رہی کہ غیر منظم ہجوم کی پشت پناہی کرنے والوں کو چند لاشوں کی ضرورت تھی۔دھرنے کے خاتمے سے چند منٹ پہلے مُلاں خادم حسین رضوی نے جہاں بار بار میڈیا سے اپنی کوریج کی بھیک مانگی وہیں اس بات پر افسوس کا اظہار بھی کیا کہ جن مٹھی بھر جاہلوں کو شہادت کا خواب دکھا کر وہ ڈی چوک لائے تھے وہ نامراد واپس جار ہے ہیں۔کراچی سے آئے ایک صاحب کو جن کی جماعت سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ”رجسٹرڈ“ بھتہ خور ہے اور جن کا واحد مقصد اقتدار اور طاقت کا حصول ہے وہ شائد اپنے مقصد کی ناکامی کے کر ب میں مبتلا زارو قطار رو رہے تھے۔اپنی تقریر میں کھل کر انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ نظام مصطفٰے ﷺ ہو گا تو پارلیمنٹ میں بے دینوں (ان کی دانست میں) کی جگہ ان جیسے عبادت گزار اور نیک پرہیز گار لوگ براجمان ہو ں گے ۔ظاہر ہے کہ عوام ووٹ تو ان مُلاوٴں کو دیتے نہیں اور یہی ان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور اگر یہ لوگ کبھی اقتدار میں آ بھی گئے تو اسلام کی اشاعت کے نام پرعوام کے مال پر ایسے ہی ڈاکے ماریں گے جو کراچی میں ان کا معمول رہا ہے۔ملاں افضل قادری ، خادم حسین رضوی اور ان کے جاہل پیروکاروں نے ڈی چوک اور لاہور کے مظاہروں میں جوغلیظ زبان استعمال کی وہ سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر ان کے علم وفضل کے ثبوت کے طور پر تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔تاریخ یہ بھی یاد رکھے گی کہ ”کنز العلماء علامہ ڈاکٹر مفتی اشرف آصف جلالی “ الخاموشی نیم رضا کے اصول کے تحت یہ سب کچھ خاموشی سے سنتے رہے۔مجھے امید ہے اس کی بدولت ممتاز قادری کی روح کو راحت میسر آئی ہوگی اور جنت میں اسے ملنے والی حوروں کی تعداد میں اضافہ بھی کیا گیا ہوگا۔دھرنے کے خاتمے سے پہلے فتح کے نعرے لگاتے مظاہرین کو شائد یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ان کو یہاں لانے والوں نے انہیں مفت میں بیچ دیا ہے۔جن سات نکا ت پر اتفاق کیا گیا ان کا ڈاکٹر اشرف آصف جلا لی کی دس مطالبات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ۔لیکن مظاہرین میں سے کون گستاخ تھا جو ان متبرک ہستیوں سے اس بارے سوال کرسکتا؟کوئی ایک ذی شعور نہ تھا۔نظام مصطفٰے ﷺ کے ٹھیکیداروں کو بے نقاب کرنے کے لئے کیا یہ کافی نہیں کہ منافقت سے بھری تقریروں میں جب وہ اپنی شکست کو جھوٹی فتح سے تعبیر کر رہے تھے تو کسی کو یہ ہوش نہ آیا کہ اس جشن فتح میں مغرب کا وقت ہی گزر چکا ہے۔
تاریخ یہ بھی یاد رکھے گی کہ ان ملاوٴں کو گھروں کو جانے کا محفوظ راستہ دلانے والے ،نیک نام شاہ احمد نورانی کے فرزنداویس احمد نورانی اور رفیق پردیسی جب دھرنے کے مظاہرین سے مخاطب ہوئے تو ان سے باقاعدہ بدتمیزی کی گئی جس کی وجہ سے انہوں نے خاموشی ہی میں اپنی عافیت سمجھی۔سچی بات یہ ہے کہ یہ دونوں حضرات اگر ثالثی نہ کرتے تو دھرنے میں موجود تمام لوگوں کا مقدر جیل ہوتی کیونکہ وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان ڈی چوک میں آپریشن کا فیصلہ کر چکے تھے۔
حکومتی سطح پر لیکن یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ،دونوں شہروں کی انتظامیہ اور فیصلہ سازوں سے یہ باز پرس ضرور ہونی چاہیے کہ ان کاخفیہ اطلاعات کا نظام کیوں ناکام ہوا۔صبح سے لے کر رات نو بجے تک جب ان ملاوٴں کا جتھہ پارلیمنٹ کے سامنے پہنچا وہ کیا کر رہے تھے؟اور اگر کچھ نہیں کیا گیا تو اس کا جواز کیا تھا؟۔دہشتگردی صرف بم پھوڑنے،بارود برسانے یا گولیاں چلانے کا نام نہیں۔ماں کے پیٹ سے کوئی بھی فرد جرائم پیشہ پید ا نہیں ہوتا ۔خاندان اور معاشرے پر منحصر ہے کہ وہ اس کی تربیت کیسے کرتا ہے۔ گفتگو یا تحریر!خاکسار اس بات کا اکثر پرچار کرتا ہے کہ قوم کے اسی فیصد سے زیادہ مسائل کا حل بہتر نظام تعلیم اور اس کے متوازی ایک تربیتی نظام ہے جس میں انسانیت کی خدمت کو اولین ترجیح حاصل ہونی چاہیے۔جب تک ذہنوں سے کھرچ کھرچ کر انتہا پسندی نکالی نہیں جائے گی خاکم بدہن!گلشن اجڑتے رہیں گے اور سڑکیں ویران ہوتی رہیں گی ،مائیں بین کرتی رہیں گی اور باپ ماتم ۔خلو ص نیت اوراتحاد کے ساتھ قوم اگر اپنی تعمیر نو نہیں کرتی تو صرف حکمران طبقہ ہی نہیں عوام الناس بھی اس کے ذمہ دار ہوں گے کیونکہ حکمران اسی ملک میں پیدا ہوئے ہیں اور اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور ان کے احتساب کی ذمہ داری بھی اسی معاشرے پر عائد ہوتی ہے۔
واللہ عالم بالصواب
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
خواجہ محمد کلیم کے کالمز
-
صحت کے دشمن تعلیمی ادارے
جمعرات 10 جنوری 2019
-
سو دن، کرتار پورہ اور سشمادیدی کا ندیدہ پن
منگل 4 دسمبر 2018
-
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ساتھ دو دن
منگل 20 نومبر 2018
-
بابائے قوم محمد علی جناح کے نام ایک مکتوب
جمعرات 16 اگست 2018
-
لبیک ، لبیک ، لبیک یار سول اللہ ﷺ
پیر 30 جولائی 2018
-
دہشتگردی، سیاست اور قوم کا مستقبل
پیر 16 جولائی 2018
-
سیاسی کارکنوں کا احتجاج،اِشاریہ مثبت یا منفی ؟
ہفتہ 16 جون 2018
-
ماں جائی
بدھ 6 جون 2018
خواجہ محمد کلیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.