اسلامی مزدور تحریک کی سفر کہانی

جمعہ 2 دسمبر 2016

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

”اسلامی مزدور تحریک کی سفر کہانی“ نام ہے اُس کتاب کا جو پروفیسر شفیع ملک صاحب سابق صدر نیشنل فیڈریشن پاکستان نے تحریر کی ہے۔ اس کی رونمائی گذشتہ دنوں ورکرز ٹرسٹ گلشن اقبال کراچی میں منعقد ہوئی۔اس اجتماع میں مزدور تحریک سے وابستہ حضرات نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔اس کتاب پر تبصرہ سے پہلے پاکستان میں اسلامی مزدور تحریک کی بنیاد رکھنے والے شخص کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں۔

مجددِ وقت سید مودودی  نے دنیا میں برسوں سے قائم سرمایادارانہ سیکولر نظام اور اس کے بطن سے رد عمل میں نئی اُٹھنے والی کمیونزم نظام کی بڑھتی ہوئی تحریک اور خصوصاً مزدوروں میں کیمونزم کے نفوس اور اس کے سامنے بند بھاندنے کے لیے ملکی سیاست، طلبہ کے ساتھ ساتھ مزدورں میں بھی اسلامی مزدور تحریک کے قیام کے لیے اپنے رفقاء کو لگایا تھا۔

(جاری ہے)

جماعت اسلامی نے ۱۹۴۹ء میں لیبر ویلفیئر کمیٹی، جس کا نام ۱۹۵۷ء میں لیبر فیڈریشن آف پاکستان رکھا گیا تھا ، کے نام سے مزدوروں میں کام کی ابتداء کی تھی۔ آخر میں نیشنل لیبر فیڈریشن کے نام سے اب بھی کام کر رہی ہے۔ پروفیسرشفیع ملک نے اسی سے وابستہ رہنے کے بعد میں جماعت اسلامی کی ہدایت پر۱۹۵۴ء مزدور فیلڈ میں باقاعدہ طور پرکام شروع کیا۔

صاحبِ کتاب نے جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم، اسلامی جمعیت طلبہ کی ذمہ داری سے فراغت کے بعد حیدر آباد میں زیل پاک سیمنٹ فیکٹری میں سید مودودی کی دعا،چودھری غلام محمد کی فہم فراست اور مولوی فرید احمد شہید کی حوصلہ افزائی کے تحت”سیمنٹ لیبر ایسوسی ایشن“ کے نام سے اسلامی جمعیت طلبہ کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے یہ کام مسجد سے شروع کیا۔

پروفیسر شفیع ملک نے اس سے قبل ایک کتاب فروری ۲۰۱۱ء میں ”مزدور تحریک،مزدورمسائل اور سید مودودی کے عنوان سے لکھی تھی جو ۱۹۴۹ء سے ۱۹۶۹ء کے دوران اسلامی مزدور تحریک کی جد وجہد کے حوالے سے ہے۔ تازہ کتاب میں ۱۹۶۹ء سے تاحال جد و جہد کی کہانی درج ہے۔ ملک صاحب۱۹۶۹ء میں نیشنل لیبر فیڈریشن سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور اب تک پیرانہ سالی کے باوجود ورکرز ٹرسٹ سے اسلامی مزدور تحریک کی سرگرمیاں جاری کیے ہوئے ہیں۔

کتاب کے مندراجات اور مزدور تحریک کوکیمونزم سے ہٹا کر اسلامی مزدور تحریک پر چلانے کے کامیاب تجربہ کی ملک صاحب کے کاموں کی کہانی تو کئی کالموں میں مکمل ہو گی۔ اس سے قبل ہم مفاد پرستانہ اور کمیونسٹ لیبر یونین کے طریقہ واردات کے متعلق کچھ اپنا تجربہ عرض کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ۱۹۶۹ء کی بات ہے کہ ہم ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازم تھے۔ اس کمپنی کے پرسنل منیجر جو پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے تھے ،کے کمپنی کی انتظامیہ سے کسی بات پر اختلافات ہوئے تو انہوں نے ایک پاکٹ یونین بنا ڈالی۔

یونین کے لوگ ان کے گھر پی ای سی ایچ سوسائٹی میں بیٹھ کر ان کی ہدایات کے مطابق ملٹی نیشنل کمپنی کے سامنے نت نئے مطالبات رکھتے رہتے تھے۔ ظاہر ہے کہ مزدوروں کو چھوڑ کرکسی کی ذاتی خواہشات کے مطابق تو مطالبات منظور نہیں کیے جا سکتے تھے۔ ایک دن پرسنل منیجر کی ہدایات پرکارکنوں نے ہڑتال کر دی۔ کمپنی کی ایک برانچ کے سامنے شامیانے لگادیے ۔

یہ کمپنی لوگوں کو قسطوں پر گھریلو اشیاء فروخت کرتی ہے۔ کارکنوں کے پاس لوگوں سے ماہوار قسطیں وصول کرنے کے لیے کمپنی کی رسیدیں ہوتی تھیں۔ یونین نے کارکنوں کوکہا کہ جب تک یونین کے مطالبات منظور نہیں ہوتے لوگوں سے پیسے وصول کرو اور کھاؤ۔ جن کے پاس رسیدیں نہیں ہیں وہ بک کیپر(راقم) سے رسیدیں لے لیں۔میں جو جماعت اسلامی سے روشناس تھا اس غلط کام میں کیسے شریک ہو سکتا تھا۔

میں نے رسیدیں کارکنوں کو نہیں دیں اور ادھر اُدھر چھپا دیں۔ کچھ ملازمین نے پہلی پاکٹ یونین کے مقابلے میں دوسری یونین کھڑی کر کے راقم کو اس کا صدر بنا دیا۔ہم نے کارکنوں کو کہا اپنے جائز مطالبات تک رہیں اور غلط کام نہ کریں۔اس سے قبل ہڑتالی کیمپ میں شہر میں موجود دوسری یونین کے لوگ آتے اور مزدور مزدور بھائی بھائی کے نعرے لگاتے۔ قطعہ نظر اس کے یونین کے مطالبات جائز ہیں یہ یونین پاکٹ یونین ہے۔

یونین کے لوگوں کو بھی شہر میں دوسری ہڑتالی یونین کے مطالبات کے لیے بلایا جاتا اور بغیر معلومات کے مزدور بھائی بھائی کے نعرے لگاتے۔ ہمارے پاس کرایہ کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے اور دوسری یونین کے عہدے دار گاڑیوں میں تشریف لاتے مہنگے ہوٹلوں میں کھانے کھاتے ۔ خیرپھر ایک دن معلوم ہوا کہ یونین کنیز فاطمہ صاحبہ کی فیڈریشن کے ساتھ وابستہ ہے۔

ایک دن کارکنوں کو ٹرنینگ کے لیے کنیز فاطمہ کی فیڈریشن کے دفتر میں بلایا گیا۔ مقریرین نے مل مالکان کے ظلم اور فیکٹریوں پر کارکنوں کے حقوق پر تقریریں کیں حقوق نہ ملنے پر چھین لینے اور ہڑتال پر اُکسایا گیا۔ مزدور بھائی بھائی کے نعرے لگائے۔ جب ہمار ی باری آئی تو ہم نے اسلام اور مزدور کے حقوق پر بات کی۔ فیکٹری میں مزدور کو پیداواربڑھانے چاہیے ، مل ملکان کو مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری ادا کرنی چاہیے ۔

اسلامی اصول پر مالکان اور مزدور کے معاملات طے ہونے چاہییں۔کیمونسٹ نظریات پر قائم مزدور تحریک کی فیڈریشن کی سربراہ کو اسلامی اصول پر قائم آجر و آجیر کے تعلوقات سے کیا واسطہ! بہر حال کنیز فاطمہ صاحبہ نے ہماری بات مکمل ہونے سے پہلے ہی ہمیں بیٹھ جانے کا حکم دیا۔ پاکٹ یونین کے جن کارکنوں نے کمپنی کے پیسے لوگوں سے وصول کر کے کمپنی کے کھاتوں میں جمع نہیں کرائے اور خود استعمال کر لیے ان کو نکال دیا ان پر خیانت کا مرتکب ہونے کے کیس بھی قائم کیے۔

پاکٹ یونین بنانے والے ،پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے پرسنل منیجر کو بھی فارغ کر دیا گیا۔ جن کارکنوں نے غلط کام نہیں کیا ،راقم سمیت ان کو نوکری پر رکھا گیا اور یونین ختم ہو گئی۔ راقم بعد میں بتیس سال نوکری کر کے ایریا منیجر مارکیٹنگ کی پوسٹ پر ریٹائرڈ ہوا۔اب بھی کمپنی سے پینشن وصول کر رہا ہے۔صاحبو! کہاں گئی پاکٹ یونیں اور کہاں گئے ان کے ناجائز مطالبات؟ پروفیسر شفیع ملک کی کتاب کے مطابق مزدورں کی اسلامی اور ذمہ دار قسم کے شہری بنانے کے لیے انتھک کوشش کی ہے۔

جس سے آجر اور آجیر کے درمیان صحت مند ماحول پیدا ہوا اور ملکی فیکٹریوں کی پیداواری صلاحیت بڑھی اور اس صلاحیت کو بڑھانے والے مزدورں کو بھی اس کا جائزحصہ ملا۔ اور اس ملک سے غیر فطری اور جبر پر قائم کیمونسٹ مزدور تحریک سے بھی چھٹکارا ملا۔ اس پر اگلے کالم میں بات ہو گی انشاء اللہ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :