ڈار صاحب اور ڈنڈا پیر

بدھ 8 جون 2016

Mubashir Mir

مبشر میر

ہمارے وزیر خزانہ موصوف ڈار صاحب نے بجٹ 2016ء کے موقع پر اعلان کیا ہے کہ ڈنڈا پکڑ لیا ہے۔ ٹیکس جمع کیا جائیگا، اور بہت سے لوگ اس کی زد میں آئیں گے۔ اپنی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں انہوں نے یہ نوید بھی سنائی کہ عنقریب سوئس اکاؤنٹس کے حوالے سے سوئس حکام سے ملاقات ہوگی اور تعاون کامعاہدہ بھی ممکن ہے۔
بعض لوگوں کی زندگی میں ”دال“ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔

میری مراد کھانے والی دال سے نہیں بلکہ اردو کا لفظ ”د“ ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اردو کے الفاظ ”د“ اور ”ڈ“ کو ”D“ سے ہی لکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم لندن بھی لکھتے اور بولتے ہیں لنڈن بھی، دونوں درست ہیں۔ چنانچہ دال اور ڈال دونوں کا زندگی میں بہت دخل ہوسکتا ہے۔ کسی سیانے نے کہا تھا کہ انسان پیدا ہوتا ہے تو ”دنیا “میں آتا ہے، سب سے پہلے ”دائی ماں “سے واسطہ پڑتا ہے، ”ڈھول “بجتے ہیں۔

(جاری ہے)

کچھ کے ہاں ”دھمال “بھی ڈالی جاتی ہے۔ آج کل تو اسپتالوں میں ”دھاندلی “بھی ہونے لگی ہے۔ بچے تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اور یوں تبدیلی کا انوکھا عمل شروع ہوجاتاہے۔ دائی ماں کے علاوہ ”ڈاکٹر “بھی بچے کے استقبال کررہا ہوتا ہے یا اگر ”دادا“، ”دادی “حیات ہوں تو رونقیں دوگنی ہوجاتی ہیں۔ بچے کے کوائف نادرا کے ”ڈیٹا بیس “کا حصہ بنتے ہیں۔

پہلی خوراک ”دودھ “میسر آتی ہے اور ساتھ ہی اس کے ”دھرم یا دین “(مذہب) کا فیصلہ بھی ہوجاتا ہے۔ انسان کی زندگی میں ایک بڑی تبدیلی اس وقت آتی ہے، جب اسے شریک حیات کی صورت میں ”دلہن “حاصل ہوتی ہے۔
دلہن کا ساتھ تو پھر اس ”دارِ فانی “سے رخصت ہونے کے بعد ”دفنائے “جانے تک رہ بھی سکتا ہے۔ البتہ بہت سے ”دال “اس کے درمیان بھی موجود ہیں۔

مثال کے طور پر ”دوستوں “کا ساتھ میسر آنا اور خدانخواستہ کسی ”دشمن “سے پالا پڑجانا، ”دلگی “کے معاملات اور ”دکھ “ اور ”درد “کا سامنا ہونا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ہمارے وزیر خزانہ قسمت کے ”دھنی “ہیں،ا ن کی زندگی میں دال اور ڈال بہت زیادہ ہیں، ایک تو نام کا حصہ ہے۔ ان کی شخصیت ”دین “اور ”دنیاداری “کا حسین امتزاج ہے۔

چہرے پر تراش خراش کے عمل سے گزرتی ہوئی سفید ”داڑھی “خوشنمائی میں مزید اضافے کا سبب بنتی ہے۔ بہت سے صوفیائے اکرام اور بزرگانِ دین کے آستانوں پر رات کی ”خاموشی“ میں نذر ونیاز کیلئے حاضری دیتے رہتے ہیں، خصوصاً ”داتا گنج بخش ہجویری “کے عقیدت مند ہیں۔ اور ہجویری فاؤنڈیشن کے ”ڈائریکٹر “ہیں ۔ اپنے معاملات میں ”دراندازی “کو پسند نہیں فرماتے۔

بغیر کسی ”Distance “کے وزیراعظم کے بہت قریب ہیں بلکہ غیر اعلانیہ ملک کے ”ڈپٹی وزیراعظم “تصور کئے جاتے ہیں۔ 42 سالہ پیشہ ورانہ زندگی میں ”Debt“ اور ”Deficit“ کے معاملات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ”Dead Lock“ختم کروانے کی خصوصی استعداد اور مہارت رکھتے ہیں۔ سیاسی حریفوں کے درمیان اگر ”Doubts“ پیدا ہوجائیں تو ”درست “فیصلے کرنے کیلئے” Deal Break “کرنے میں ان کا ثانی کوئی نہیں۔

ان کا ایمان ہے کہ حکومت کو ”Deliver“ کرنا چاہئے۔ ”Domestic“ ایشوز پر بھرپور گرفت کے حامل ہیں۔ ڈار صاحب اعلیٰ درجے کے طالب علم تھے، بہت اعزازات حاصل کئے کہا جاتا ہے کہ ”Down to Dust “کام کرنا ان کی عادت ہے۔ کئی کامیابیوں کے باوجود ہمیشہ ”Down to Earth“ رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ”دورِ وزارت “میں دیگر وزارتوں کے ”Discretionary Funds“بھی ختم کئے اور ساتھ ہی ساتھ” Defence Budget“میں خاطر خواہ اضافہ کرنے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔

ان کے دشمن ان پر ”دبئی “میں بے پناہ ”دولت “ رکھنے کے الزامات لگاتے ہیں، شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں وزیراعظم کی بیٹی مقیم ہے جو ڈار صاحب کی ”Daughter in Law“ ہے، ہمیں اُمید ہے کہ ڈار صاحب کو ایسے الزامات سے ”Depression “ میں نہیں لایا جاسکتا۔ وہ ”Debate “کے بھی ماہر ہیں، انہوں نے حال ہی میں کہا ہے کہ ان کو ”دل “کا کوئی عارضہ نہیں۔

بلکہ ان کا”دل “”دریا “کی طرح گہرا اور رواں ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ وہ دبئی میں دولت رکھنے کا الزام کو غلط ثابت کردیں گے اور اپنے سیاسی کیریئر پر کسی قسم کا ”داغ “نہیں لگنے دیں گے۔ کیونکہ یہ داغ کوئی اچھا داغ نہیں ہوتا۔ وہ ملک کو ترقی یافتہ بنانے کیلئے چھپے ہوئے ”دفینے “تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اب آپ اندازہ لگائیں کہ محترم ڈار صاحب کی زندگی میں ”دال اور ڈال “کس قدر موجود ہیں۔

ابھی میں نے قدرے رعایت کرتے ہوئے چیدہ چیدہ کا انتخاب کیا ہے، جبکہ موصوف نے حال ہی میں ”ڈنڈے“ کا اضافہ کیا ہے جو انہوں نے تھام لیا ہے، تاکہ اپنے فرائض دامے، درمے ادا کرسکیں۔
قبلہ ڈار صاحب سے میری گزارش یہ ہے کہ اگرچہ لوگ ڈنڈے کو ”ڈنڈا پیر “بھی کہتے ہیں۔ آپ کو بھی بہت سے لوگ اپنا مرشد تسلیم کرتے ہیں۔ بلکہ آپ کے وزیرخزانہ بننے سے پہلے ہی کئی سیاسی عقیدت مند آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کیلئے بے تاب تھے۔

بہت ہی اچھا ہوکہ اس ڈانڈا پیر کو چلانے کیلئے افراد کا انتخاب پارلیمنٹ سے کیا جائے، قومی اسمبلی کے 342 ارکان پر جب پر عمل کیا جائے گا، تو پھر ایوانِ بالا کے ان 100 سے زائد افراد کی باری آئے گی۔ یقین کریں ملک کی صوبائی اسمبلیوں کے اراکین تک پہنچنے سے پہلے پاکستان کے بڑے بڑے اُمراء اور رؤساء ایف بی آر سے خود رجوع کرلیں گے۔ قومی خزانے میں روزانہ کروڑوں نہیں اربوں روپے کا اضافہ ہوجائے گا۔

یوں آپ اس مملکت خداداد میں چھپے ہوئے دفینے کو تلاش کرنے میں حقیقی طور پر کامیاب ہوجائیں گے۔ ابھی وفاقی بجٹ میں آپ نے جو تجاویز رکھی ہیں، ان میں بچتوں میں اضافہ کا کوئی معقول رستہ نظر نہیں آ رہا۔ اگر ملک بھر میں مسافروں اور ڈرائیورز کی لائف انشورنس کو لازمی قرار دے دیا جائے تواربوں روپیہ سے بچتوں کے گراف میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں لائف انشورنس لازمی ہے۔ پریمیئم سے ہونیوالی آمدنی بچت شمار ہوتی ہے۔ اور ادارے اس سے سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ لیکن ہم اسے نافذکرنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ آپ اپنے ڈنڈے کا رخ اس جانب بھی موڑیں تو ہدف آسان ہوسکتے ہیں۔
محترم ڈار صاحب! یہ بات ذہن میں ضرور رکھیں کہ موجودہ حالات میں ریاست اور شہری کا رشتہ زیادہ مضبوط دکھائی نہیں دیتا۔

یہی وجہ ہے کہ ڈائریکٹ ٹیکسز کی شرح بہت کم ہے۔ ریوینیو ڈپارٹمنٹ اِن ڈائریکٹ ٹیکسز کا دائرہ وسیع تر کرتا جارہا ہے۔ ریاست کے کچھ فرائض ہیں۔ اور شہری کی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ پہل ریاست کو کرنی ہے۔ آج کے پاکستان میں معیاری، بنیادی ضروریات پوری کرنے کیلئے شہری ریاست کی طرف دیکھنے کی بجائے خود تگ و دو کرتا ہے۔ بات صرف محصولات اور اخراجات کے تخمینے تک نہ رکھی جائے بلکہ یہ سوچا جائے کہ ریاست اور شہری کے رشتے کو ایک نئی سمت دینا کیسے ممکن ہے؟ تعلیم، صحت، روزگار، انصاف کا حصول، سیکورٹی، ٹرانسپورٹ وغیرہ وغیرہ سب کچھ شہری خود حاصل کررہا ہے۔

حکومتی اداروں کے معیار اتنے گرے ہوئے ہیں کہ ادھر رخ کرنا زندگی برباد کرنے کے مترادف ہے۔
آپ نے اگر ڈنڈا چلانا ہے تو اس ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے چلائیں۔ جاگیرداروں، وڈیروں اور بڑے زمینداروں کو خوش کرکے ان سے دادِ تحسین حاصل کرنا، عام آدمی اور ریاست کے رشتے کو مزید کمزور کردے گا۔ ہر سال بجٹ کے موقع پر یوں دکھائی دے رہا ہوتا ہے کہ ریاست اپنے شہریوں پر قہر بن کر نازل ہونے والی ہے۔

ظالم اور مظلوم کی سی کیفیت ابھر آتی ہے۔ ریاست تو ماں کی طرح ہونی چاہئے جو بجٹ یا کسی بھی موقع پر ایسے اعلانات کرے جس سے شہری کا ریاست سے رشتہ مضبوط ہو۔ عوام کو لگے کہ یہ بجٹ ریلیف کے لئے ہے۔ لیکن بجٹ کا تصور بھیانک ہوتا جارہا ہے۔ بجٹ خوشیاں کم اور مسائل زیادہ لے کر آتا ہے۔ عوام اگر ٹیکس کا استعمال درست ہوتا ہوا دیکھیں گے تو خوشی خوشی ادا کریں گے۔

اس کی واضح مثال پاکستان میں کئی فلاحی ادارے ہیں جو عوام کے ہی عطیات پر چل رہے ہیں جس کی بنیاد اعتماد پر مبنی ہے۔
پاکستان کو اپنی سلامتی ، بقاء اور استحکام کیلئے ریاست اور شہری کے درمیان ایک نئے معاہدے کی ضرورت ہے، جو میرٹ اور انصاف کی بنیادوں پر قائم کیا جائے، ورنہ یہ زوال پذیر رشتہ، اتھاہ گہرائیوں میں اوندھے منہ گرے گا۔ خاص طور پر پاکستان کا نوجوان اس فرسودہ نظام کوبچانے کیلئے آمادہ نہیں۔

وہ اپنے حالات اپنی زندگی میں بہتر ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ بات بھی بہت غور طلب ہے کہ بہت سے نوجوان اس جدوجہد سے ہی خود کو دستبردار کررہے ہیں اورسمندر پار اپنے مستقبل کے خواب شرمندہٴ تعبیر کرنے کیلئے خود کو خطرات میں ڈال کر بوجھل دل کے ساتھ اپنا وطن چھوڑ رہے ہیں۔ ہجرت کا انتخاب کوئی آسانی سے نہیں کرتا، خاص طور پر جب تمام راستے بند گلیوں میں آکر رک جاتے ہیں تو آخری راستہ ہجرت کا ہوتا ہے۔


محترم ڈار صاحب! اس ”ڈنڈا پیر “کو اس طرح گھمائیں کہ نوجوانوں کو بند گلیوں میں دھکیلنے والا نظام بنانے والے مافیا کے ”دانت“ کھٹے ہوجائیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ابھی آپ کی زندگی میں بہت سے ”دال اور ڈال “باقی ہیں۔ دعا ہے کہ آپ کے کام کی ”دھوم “مچے، خدا کرے کہ ”دھول “نہ اُڑے، بس آپ کو ”ڈٹ “کے رہنا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :