خود احتسابی

ہفتہ 2 جنوری 2016

Muhammad Usman Haider

انجینئر عثمان حیدر

ہمارے ہاں آئے روز نامی گرامی” دان۔شور “ ملکی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان اور اس کے نظام کو کوسنے میں اپنی ساری توانائیاں صرف کرتے رہتے ہیں۔نہ صرف ٹی وی چینلز پر موجود تجزیہ نگار بلکہ ہم میں سے تقریباََسب ہی لوگ اس ملک اور اس کے نظام پر معترض دکھائی دیتے ہیں۔ ہر زبان سے یہی شکوہ سنائی دیتا ہے کہ اس ملک نے اور اس دھرتی نے مجھے دیا ہی کیا ہے؟یہ باتیں اور اس طرح کے گرما گرم تبصرے سننے میں تو بڑا مزا آتا ہے لیکن کبھی کبھارمیرے ذہن میں ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا واقعی یہ نامور تبصرہ نگار اورباقی لوگ اس ملک اور اس کے نظام کے بارے میں سچ کہتے ہیں؟؟جب کبھی بھی اس سوال کا جواب تلاشنا چاہا تو علامہ اقبال کا یہ شعرعقل وشعور کی ویران حویلیوں میں گونجنے لگا۔

۔

(جاری ہے)


افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدرکا ستارہ
اور شعور کے دریچوں میں پڑی گرد کچھ دیر کیلئے صاف ہو تے ہی جواب سامنے آ جاتا ہے کہ قوموں کے حال اور مستقبل کا فیصلہ ان کے افراد کا انفرادی کردار کیا کرتا ہے۔اور اسی انفرادی کردار سے ہی معاشرے کے مجموعی کردار کی تشکیل ہوتی ہے۔ اگر قوم کے افراد بالخصوص نوجوان محنتی، قابل اور پر عزم واقع ہوں توقوم کا مستقبل تابناک اور اگرمایوس، نکمے اورغافل تو تاریکی ان کا مقدر ٹھہرتی ہے ۔

پس ثابت ہوا کہ ملت کی خرابی کی وجہ درحقیقت افراد کی خرابی ہے! جبکہ ہمارے ہاں افراد ملت کو قصوروار گردانتے ہیں۔ آج ایک بھٹہ مزدور سے لے کر ارب پتی صنعتکار تک اس دھرتی کو کوسنے میں لگا رہتا ہے ۔ سکول کے چپڑاسی سے لے کر یونورسٹی کے وائس چانسلر تک ہر فرد اس ملک کے نظامِ تعلیم کو فضول قرار دینا اپنا فرضِ منصبی سمجھتا ہے۔ ایک ڈسپنسر سے لے کر میڈیکل کالج کے پرنسپل تک ہر ڈاکٹر اس ملک کے شعبہ َصحت کو ناکام محکمہ تصور کرتا نظر آتا ہے۔

کانسٹیبل سے لے کر آئی جی پولیس تک ہر سپاہی اس ملک کے امن و امان پر تنقید کے نشتر چلاتا نظر آتا ہے۔ ایک اکاؤٹنٹ سے لیکر سٹیٹ بنک کے گورنر تک ہر بینکر اس ملک کے معاشی نظام سے نالاں رہتاہے۔ اور آٹھویں جماعت کے بچے سے لیکر پی ایچ ڈی سکالر تک ہر طالبعلم اس ملک میں سائنسی و علمی تحقیق کے فقدان پر شکوہ کناں دکھائی دیتا ہے۔الغرض مجھ سمیت تقریباََ ہر شخص بس اس ملک اور اس کے نظام کو دوش دینے میں مگن ہے۔


ا ن سب لوگوں کے شکوے کسی حد تک بجا بھی ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محض شکایتیں کرنے اور پاکستان کو برا بھلا کہنے کے سواہم نے ان شکایتوں کے ازالے کیلئے کیا کردار ادا کیا ہے؟؟ ہم میں سے ہر کوئی بڑھ چڑھ کر ملک اور اس کے نظام پر تنقید تو کرتا ہے لیکن یہ بات بھول جاتا ہے کہ وہ خود بھی اسی نظام کا ہی ایک جزو ہے۔ہم لوگ نظام کے باقی حصوں کا احتساب اور ان کی کارکردگی میں قابلِ ستائش بہتری کے طلب گار تو ہیں لیکن اپنے کردار کے احتساب اور اس میں بہتری کی زحمت کرنا کسی کو گوارا نہیں۔

حالت تو یہ ہے کہ سرکاری ہسپتال میں ڈیوٹی کے اوقات میں جو ڈاکٹر اپنی پرائیویٹ کلینک چلاتا ہے وہی ڈاکٹر ملک میں کرپشن کا رونا رو رہا ہوتا ہے۔ جو انجینئر چند لاکھ روپے لے کر بلڈنگ کا غیر معیاری نقشہ منظور کر رہا ہوتا ہے وہی ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن پر تبصرے کرتا نظر آتا ہے۔ جو استاد سارا دن سکول میں بیٹھا گپیں لگاتا رہتا ہے وہی استاد ملک کے بگڑتے ہوئے تعلیمی معیار پر حکومت کو گالیاں دیتا دکھائی دیتا ہے ۔

جو جج رشوت لے کر با اثر ملزموں کے حق میں فیصلے سناتا ہے وہی اس ملک کے نظامِ عدل پر عدمِ اعتماد کا اعلان کرتا نظر آتا ہے۔ دودھ میں گندا پانی ملا کر بیچنے والا گوالا بھی حکمرانوں کی کرپشن پر سراپا احتجاج بنا پھرتا ہے۔ جعلی ادویات بناے والا بچوں کا قاتل بھی ملک میں ظلم و ستم کا راگ الاپتا دکھائی دیتا ہے۔افسوس صد افسوس کہ آئینے میں اپنی مکروہ شکل دیکھنے کی بجائے ہم دوسروں پر تنقید کرنے میں راحت محسوس کرتے ہیں!!
آج پاکستان کے مخدوش حالات پر تنقید کرنے اوراس ملک کو چھوڑدینے کی باتیں کرنے سے پہلے کیا ہم نے کبھی خود سے یہ سوال کرنے کی زحمت کی کہ آج تک ہم نے اس ملک کو کیا دیا؟ کیا ہم نے اس دھرتی سے کیا جانے والا عہد نبھایا؟ ہر طرف کانٹوں کا ذکرنے سے پہلے کبھی ہم نے یہ سوچا کہ ہم نے اس وطن کی راہ میں کتنے گلاب کِھلائے ہیں؟ میں نے یا آپ نے کبھی خود پر عائد ذمہ داریوں کی بجا آوری کی فکر کی؟؟ نہیں ! ہم نے کبھی اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کی فکر نہیں کی۔

ہم نے ہمیشہ دوسروں پر تنقید کرنا آسان جانا۔ کیونکہ دوسروں پر تنقید کرنا دنیا کا آسان ترین اور اپنا احتساب کرنا شاید دشوار ترین کام ہے۔ آج تقریر کے کسی بھی سٹیج پر کھڑے ہو کر مجھے سب سے آسان کا م دوسروں پر تنقید کرنا معلوم ہوتا ہے۔ اور یقیناََ میرے بارے میں دوسروں کی بھی یہی کیفیت ہو گی۔
آپ میں سے شاید کوئی بھی میری اس بات سے اختلاف نہیں کرے گا کہ اگر ہم ان سولات پر اپنا احتساب کر لیں تو ہمارے پاس اپنے وطن اور زمانے سے شکووں کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔

لیکن! لیکن ہمارے لیے ایسا کرناانتہائی دشوار مرحلہ ثابت ہو گا۔ کیوں کہ ہم بس کسی میز کے گرد بیتھ کر یا کسی ٹی وی چینل کے اے سی روم میں بیٹھ کر تبصرے کرنے اور دوسروں پر تنقید کرنے میں ماہرہیں خوداحتسابی ہمیں گوارا ہی نہیں۔ یاد رکھیئے جب تک ہم خود احتسابی کے کٹھن مرحلے سے گزر کر اپنے ذاتی کردار اور خود پر عائد معاشرتی ذمہ داریوں کو بطریقِ احسن ادا نہیں کرتے تب تک حالات میں بہتری کی امید لگانا خام خیالی کے سوا کچھ بھی نہیں!! کیونکہ جیسے ہمارے افراد ہوں گے ویسی ہماری قوم ہو گی اور جیسی ہماری قوم ہو گی ویسے ہی ہمارا نظام ہو گا!! تو پھر اگر کوسنا ہے تو خود کو کوسیئے نظام کو نہیں!!۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :