این ٹی ایس: نیشنل ٹھگ سروس

ہفتہ 9 اپریل 2016

Muhammad Usman Haider

انجینئر عثمان حیدر

یوں تو پاکستان میں کئی ایسے ”باکمال“ ادارے موجود ہیں جن کے کمالات ہم آئے روز دیکھتے رہتے ہیں لیکن نیشنل ٹیسٹنگ سروس المعروف این ٹی ایس نامی ادارے کی تو بات ہی الگ ہے۔ مختلف تعلیمی اداروں کیلئے داخلہ امتحان منعقد کرانے کی غرض سے بنایا جانے والا یہ نام نہاد غیر منافع نخش ادارہ اب سینکڑو ں سرکاری وغیر سرکاری اداروں کیلئے مختلف اسامیوں پر بھرتی کیلئے ”ریکروٹمنٹ ٹیسٹ“ کی مد میں اپنے کمالات کی بنا پر سالانہ کروڑو روپے کا منافع کما رہا ہے۔

چند ماہ قبل قومی اسمبلی کی متعلقہ کمیٹی کی جانب سے اس ادارے کا آڈٹ کرانے کی خبریں سامنے آئیں لیکن پھر ہمیشہ کی طرح یہ معاملہ بھی داخل دفتر کر دیا گیا۔
ایک طرف این ٹی ایس کے مالی معاملات مشکوک ہیں تو دوسری طرف امتحانی طریقہ کار نے بھی عوام خاص کر پڑھے لکھے نوجوانوں کے مستقبل پر تلوار لٹکا رکھی ہے۔

(جاری ہے)

چند جنرل ٹیسٹ چھوڑ کر این ٹی ایس کے اکثر امتحانی پرچہ جات انتہائی غیر معیاری اور غیر متعلقہ نصاب سے بھرے ہوتے ہیں۔

جس کی وجہ سے ملک کی ممتاز یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ نوجوان اپنے ہی متعلقہ شعبہ کے امتحانی پرچہ جات حل کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ ایم فل اسلامیات کے داخلہ ٹیسٹ میں آدھے سے زیادہ سوالات ریاضی اور سائنس سے متعلق پوچھے جاتے ہیں تو بیالوجی کے ٹیسٹ میں آدھے سے زیادہ نمبر کمپیوٹر ،انگریزی اور کیمسٹری کے بارے میں ہوتے ہیں۔ اگر حادثاتی طور پر این ٹی ایس متعلقہ مضمون کے سوالات پر مبنی پرچہ بنا بھی لے تو جہاں بیچلر ڈگری کی پوسٹ ہے وہاں ماسٹر لیول کے سوالات پوچھے جاتے ہیں اور جہاں ماسٹر لیول کی پوسٹ ہو وہاں پی ایچ ڈی لیول کے سوالات کی بھرمار ہوتی ہے۔


گزشتہ دنوں پنجاب میں سکول ایجوکیٹرز کیلئے لیا گیا ٹیسٹ این ٹی ایس کے کمالات کی ایک تازہ مثال ہے۔ پنجاب بھر میں 33ہزار اسامیوں کیلئے لاکھوں امیدواروں نے یہ ٹیسٹ دیا۔ اکثر امیدوار تو ایسے تھے جو نویں ، چودھویں اور سولھویں سکیل کے تینوں امتحانوں میں شریک ہوئے۔ این ٹی ایس کے بنائے گئے پرچے کے اکثر سوالات امیدواروں کے سر پر سے گزر گئے کیونکہ نویں سکیل کی پوسٹ کیلئے نہ جانے دنیا کی کس کس کتا ب سے انتہائی بے تکے سوالات پرچے کی زینت بنا دیے گئے۔

امتحان سکول کے استاد بھرتی کرنے کیلئے لیا جا رہا تھا اور سوالات فلسفہ، انجینئرنگ اور میڈیکل کی کتابوں سے پوچھے جا رہے تھے۔ جو امیدوار ابھی سرکاری نوکری کیلئے امتحان کے مراحل سے گزر رہے تھے ان سے پرچے میں سروس بک کے رموز و اوقاف کے بارے میں استفسار کیا جا رہا تھاکہ سروس بک کے فلاں خانے میں فلاں جگہ پر کیا لکھا جاتا ہے اور یہ کہ کالی روشنائی سے لکھا جاتا ہے یا نیلی سے؟ عربی ٹیچر کے پرچے میں عربی کے سوالات کم اور سائنس و انگریزی کے سوالات زیادہ تھے۔

بھرتی عربی ٹیچر کرنا ہے اور سوال یہ پوچھا جا رہا تھا کہ انسانی جسم کے کس حصہ میں آئرن کی مقدار کا زیادہ ذخیرہ پایا جاتا ہے؟ اور جب رزلٹ آیا تو سینکڑوں امیدوار ایسے تھے جو نویں سکیل کے پرچے میں تو ناکام ہو گئے لیکن وہی امیدوارسولھویں سکیل کے پرچے میں کامیاب قرار دے دیے گئے۔نتیجے کا یہ رجحان کیا این ٹی ایس کا پول کھولنے کیلئے کافی نہیں؟
غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق ایجوکیٹرز کی تعیناتی کیلئے لیے گئے امتحان میں کل ملا کر دس فیصدسے بھی کم امیدوارکامیاب ہوئے ہیں اور اب یہ حالت ہے کہ سیٹیں زیادہ ہیں اور کامیاب امیدوار کم۔

سنا ہے کہ اس صورتحال سے ”نمٹنے‘ ‘ کیلئے این ٹی ایس دوبارہ امتحان منعقد کرنے والا ہے اور اس مد میں امیدواروں سے ایک بار پھر کروڑوں روپے نکلوانے کا منصوبہ زیرِ تکمیل ہے۔کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ شاید این ٹی ایس ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت ایسے پیپر بناتا ہے کہ کم سے کم امیدوار کامیاب ہوں تا کہ ایک مرتبہ پھر ان کی جیبوں سے فیس کی مد میں لاکھوں روپے ہتھیائے جا سکیں۔

انہی مالی قلابازیوں کی بنیاد پر این ٹی ایس کو نیشنل ٹیسٹنگ سروس کی بجائے نیشنل ٹھگ سروس کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔
اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کے این ٹی ایس کے امتحان میں ناکام ہو جانے کی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں کہ یا توجن یونیورسٹیوں سے ان امیدواروں نے اعلیٰ ڈگریا ں حاصل کی ہیں وہ یونیورسٹیاں تھرڈ کلاس ہیں یا پھر این ٹی ایس کا امتحانی سسٹم تھرڈ کلاس ہے۔

حالات و واقعات دوسری وجہ کے درست ہونے کی طرف واضح اشارہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر متعلقہ اداروں نے این ٹی ایس کے اس مالی و تکنیکی کردار پر گرفت نہ کی تو نوجوانوں میں بے روزگاری اور میرٹ کا قتل جاری رہے گا جو پہلے سے مسائل زدہ پاکستان کو مستقبل میں مزید مشکلات کا شکار کر دے گا۔اور این ٹی ایس کے متحانوں میں یہی صورتحال برقرار رہی تو شاید آج سے سو سال بعد دادیاں اپنے پوتے پوتیوں کو واٹس ایپ پر کہانیاں سناتے ہوئے بتائیں گی کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ملک میں ایک ارب پتی خیراتی امتحانی ادارہ تھاجو اسلامیات کے پرچے میں سو میں سے ستر سوال بیالوجی کے پوچھتا تھا اور حیرت انگیز بات یہ تھی کہ کئی لوگ اس پرچے میں کامیاب بھی ہو جاتے تھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :