قصّہ ایک پاسپورٹ کا

جمعہ 11 نومبر 2016

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

کچھ عرصہ پہلے ہم نے اپنے ایک کالم میں اپنا ایگزیکٹو شناختی کارڈ بنوانے کی داستانِ غم اپنے قارئین کو سنائی تھی۔ ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھی ایگزیکٹو ہیں ، اسی لیے ایگزیکٹو کارڈ بنوانے نکلے لیکن ہمارے ساتھ جو سلوک ہوا اُس کا تذکرہ ہم کر چکے اِس لیے اُسے دہرانے کی ضرورت نہیں ۔بس اتنا سمجھ لیجئے کہ اِس تلخ تجربے کے بعد ہم اتنے خوف زدہ ہوئے کہ پاسپورٹ بنوانے کی ہمت ہی نہ رہی البتہ اِدھر اُدھر سے معلومات ضرور اکٹھی کرتے رہے۔

اِن معلومات کا نچوڑ یہ تھا کہ پاسپورٹ بنوانا تو کوئی مسٴلہ ہی نہیں، بس پاسپورٹ آفس جا کر اپنا شناختی کارڈ دکھائیں اور پاسپورٹ چھم چھم کرتا آپ کی دہلیز پر۔یہ شاید اِن معلومات کا اثر تھاکہ ہم نے پاسپورٹ آفس جانے کا قصد کر ہی لیا۔

(جاری ہے)


گھر سے نکلتے وقت ہم نے دَس دفعہ اپنے شناختی کارڈ کی موجودگی کو یقینی بنایا اور پھر ماڈل ٹاوٴن کی طرف عازمِ سفر ہوئے ۔

ہمیں بتایا گیا تھا کہ پاسپورٹ کی فیس نیشنل بینک آف پاکستان میں جمع ہوتی ہے اِس لیے ہم سیدھے نیشنل بینک ہی پہنچے۔وہاں ایک بڑا سا بورڈ ہمارا مُنہ چڑا رہا تھا کہ پاسپورٹ کی فیس پاسپورٹ آفس کے ساتھ بنے نیشنل بینک کے بوتھ میں جمع ہو گی۔جب ہم پاسپورٹ آفس پہنچے تولوگوں کا ایک جمِ غفیر ہاتھوں میں بینک چالان فارم پکڑے ہماری مدد کے لیے مستعد تھااور بوتھ کے آگے فیس جمع کروانے والوں کی لمبی قطار ۔

ایک نوجوان نے ہماری پریشانی بھانپتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں سے تو قطار میں لگ کر فیس جمع کروائی نہیں جائے گی اِس لیے بہتر ہے کہ آپ 300 روپے فی کَس مجھے دیں ، میں پندرہ منٹ میں آپ کو فیس جمع کروا دوں گا ۔ میرے میاں نے پوچھا ”وہ کیسے“۔ اُس نے جواب دیا کہ300میں سے 150 روپے وہ بینک کے اہلکار کو دے گا اور پلک جھپکتے فیس جمع۔ اُس نے واقعی ہتھیلی پہ سرسوں جما دی اور پندرہ منٹ سے بھی پہلے ادا شدہ فیس کے چالان فارم ہمارے ہاتھ پر رکھ دیئے۔

پھر پاسپورٹ آفس کے اندر داخل ہونے کا مرحلہ آیا تو ہم کسی نہ کسی طرح اندر پہنچ ہی گئے ۔ اندر جا کر بہرحال یہ سکون ضرور ہوا کہ وہاں” اولڈ سٹیزنز“ کی الگ قطار تھی ، یہ الگ بات ہے کہ یہ قطار بھی شیطان کی آنت سے کچھ ہی کم ہو گی۔ چیونٹی کی رفتار سے جب کھسکتے کھسکتے ہم ٹوکن والی جگہ پر پہنچے توپتہ چلا کہ ”خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا ، جو سنا افسانہ تھا“۔

ڈیوٹی پر موجود شخص نے ہمیں بتایا کہ ہمارے پاسپورٹ ایبک روڈ والے پاسپورٹ آفس سے بنیں گے کیوں کہ ہمارا مستقل پتہ اُسی علاقے کا ہے۔
پاسپورٹ آفس سے باہر نکل کر ہم ایبک روڈ کی طرف عازمِ سفر ہوئے ۔ اِس پورے راستے میں میرے میاں حکمرانوں کے خلاف زہر ہی اگلتے رہے ۔ بات اُن کی بھی درست تھی کہ جب نیشنل بینک حکومتِ پاکستان کا ہے اور اس میں جمع کروائی گئی فیس بھی حکومتی خزانے ہی میں جاتی ہے تو پھر نیشنل بینک کی کسی بھی برانچ میں فیس کیوں نہیں جمع کروائی جا سکتی ۔

صرف اُسی مخصوص برانچ میں ہی کیوں جو پاسپورٹ آفس کے ساتھ ہے؟۔ کیا حکمرانوں کا مقصد عوام کو تنگ کرنا ہی رہ گیا ہے؟۔ کیا ساری سہولیات اشرافیہ کے لیے ہی ہیں، عامیوں کے لیے کچھ بھی نہیں؟۔ دوسری بات یہ کہ جب ہم پاکستانی ہیں اور پورا ملک ہمارا وطن تو پھر علاقوں کی تقسیم کیوں؟۔ ہم کسی بھی جگہ سے اپنا پاسپورٹ کیوں نہیں بنوا سکتے؟۔ میاں دِل کے پھپھولے پھوڑتے رہے اور ہم خاموشی سے اُن کی ”تقریرِ دِلپذیر سنتے“ رہے۔

اِس کا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ ہمیں پتہ ہی نہ چلا کہ کب دوسرا پاسپورٹ آفس بھی آگیا۔
پاسپورٹ آفس کے قریب پہنچ کر پتہ چلا کہ وہاں تو کوئی کار پارکنگ ہی نہیں۔ کافی دیر ”خجل خواری“ کے بعد ایک سینما گھر کی پارکنگ میں گاڑی پارک کرکے جب ہم نے پاسپورٹ آفس کی طویل گلی میں قدم رنجہ فرمایا تو ہمیں حشرات الارض کی طرح اِدھر اُدھر رینگتے ایجنٹوں نے گھیر لیا ۔

ہر کوئی ہمیں پاسپورٹ آفس میں داخلے کے آسان طریقے بتانے لگا لیکن ہم نے کسی کی بات پہ کان نہیں دھرا اور پاسپورٹ آفس کی طرف رواں رہے ۔ پاسپورٹ آفس پہنچ کر آفس کے باہر ہی قطار اندر قطار مردوزَن کو دیکھ کر ہم ہمت ہار بیٹھے ۔ وہیں اِدھر اُدھر گھومنے والے ایک ایجنٹ نے کہا کہ وہ ہمیں پچھلے دروازے سے اندر داخل کروا سکتا ہے جہاں سے ہم سیدھے ٹوکن والی جگہ پر پہنچ جائیں گے لیکن اِس کے لیے جیب ڈھیلی کرنی پڑے گی ۔

”مرتا کیا نہ کرتا“ کے مصداق ہم نے سودا طے کیا۔ پھر اُس نے ہمارے ہاتھ میں دو پرچیاں تھما کر کہا کہ وہ سامنے والے دروازے میں کھڑے گارڈ کو دے دیں، باقی کام اُس کا ۔گارڈ کے ہاتھ میں ”پرچیاں“ تھماتے ہی پچھلا دروازہ ہمارے لیے کھُل گیا۔ تب ہمیں پتہ چلا کہ” بیک ڈورچینل“ کسے کہتے ہیں۔ ہم تو سمجھتے تھے کہ یہ حربہ صرف حکمرانوں کے لیے ہے لیکن پتہ چلا کہ یہاں تو ہر کوئی یہی حربہ آزما رہا ہے۔

پچھلی راہداری سے ہوتے ہوئے جب ہم مطلوبہ ہال میں پہنچے تو ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے ، وہاں بیٹھنا تو کجا ، کھڑے ہونے کے لیے بھی جگہ نہ تھی۔ ایک چھوٹے سے ہال میں مرد وزَن بِلا امتیاز گھسے ہوئے تھے اور کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اِدھر اُدھر سے پتہ کرنے کے بعد لگ بھگ ایک گھنٹے میں ہم فوٹو اتروانے اور ٹوکن لینے میں کامیاب ہوئے تو حکم ملا کہ کاوٴنٹر نمبر 2 پر چلے جائیں۔

ہم نے عرض کیا کہ یہاں تو” محمود و ایاز“ایک ہوئے پڑے ہیں ، پھر کاوٴنٹر نمبر 2 کا کیسے پتہ چلے گا جب کہ وہاں کسی بھی کاوٴنٹر کی نشاندہی کا کوئی بورڈ ہے نہ تختی ؟۔ فرمایا گیا کہ مجمعے میں گھُس جائیں خود ہی پہنچ جائیں گے ۔ اُسی ہال میں کاوٴنٹر نمبر 2 بھی تھا اور وہ بھی ہمارے بالکل سامنے لیکن وہاں پہنچتے پہنچتے بھی دَس منٹ لگے ۔ وہاں ہمارے انگوٹھوں اور انگلیوں کے نشانات لیے گئے اور کاوٴنٹر نمبر 3 پر جانے کا حکم صادر ہوا۔

ہم چونکہ اتنی دیر میں ہال سے مکمل طور پر واقفیت حاصل کر چکے تھے اِ س لیے سیدھے کاوٴنٹر نمبر 3 پر جا پہنچے جہاں کھڑکی توڑ رَش جاری تھا۔ وہاں جا کر تو ہمارے چودہ کیا سارے ہی طبق روشن ہوگئے ۔ ہمیں بتایا گیا کہ کم از کم ڈیڑھ گھنٹے بعد ہماری باری آئے گی ۔ ہم پہلے بھی عرض کر چکے کہ ہال میں تو کھڑے ہونے کی گنجائش بھی نہیں تھی ، پھر بھلایہ وقت کیسے گزرتا۔

ہمارے لیے وہ ڈیڑھ گھنٹہ اتنا ہی مشکل ہو گیا جتنا کپتان کے لیے مسندِ اقتدار تک پہنچنا۔ صبح سے ناشتہ کیے بغیر گھر سے نکلے تھے کہ جلدی جلدی پاسپورٹ بنوا لیں ، اب ایک بجنے کو تھا اور ہمارے پیٹ میں چوہے ، بلیاں ، سبھی دَوڑ رہے تھے لیکن وہاں تو پانی تک دستیاب نہ تھا۔ کبھی ایک ٹانگ اور کبھی دوسری ٹانگ پر اپنے جسم کا بوجھ ڈالتے ہم نے وہ ڈیڑھ گھنٹہ کیسے گزارا ، یہ ہم ہی جانتے ہیں۔


ہم تو سمجھتے رہے کہ یہ آخری کاوٴنٹر ہے جس کے بعد ہماری جان چھوٹ جائے گی لیکن وہاں ہمیں ایک کمپیوٹرائزڈ فارم تھما کر کاوٴنٹر نمبر 4 پر جانے کے لیے کہا گیا۔ ہم نے ہال میں چاروں طرف نظر دوڑائی لیکن متعلقہ کاوٴنٹر کہیں دکھائی نہیں دیا۔ ویسے بھی ہم سارے کاوٴنٹر تو بھگتا چکے تھے ، پھر یہ ”مُوا“ کاوٴنٹر نمبر 4 کہاں سے نکل آیا ؟۔

ایک مہربان نے ہماری پریشانی کو بھانپتے ہوئے کہا کہ راہداری کے دوسرے سرے پر چلے جائیں ، وہیں پر فارم جمع ہوں گے ۔ جب ہم وہاں پہنچے تو یہ دیکھ کر جان میں جان آئی کہ وہاں بیٹھنے کے لیے جگہ میسر تھی ۔ لَگ بھگ ایک گھنٹہ بعد ہم نے فارم جمع کروائے اور پاسپورٹ آفس سے باہر نکل کر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ ہم زندہ سلامت لوٹ آئے۔
اگلے دِن ہمیں ڈی جی پاسپورٹ کی جانب سے ایک میسیج موصول ہوا ، جس میں لکھا تھا” آپ نے لاہور آفس سے پاسپورٹ اپلائی کیا۔ کیا آپ کو دشواری ہوئی یا کسی نے آپ سے پیسے مانگے؟“۔ اب ”کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :