سب اندازے بہہ گئے

منگل 15 نومبر 2016

Syed Shahid Abbas

سید شاہد عباس

70سالہ بزرگ نے پوری دنیا کے اندازے غلط ثابت کر دیے اور اس وقت کی واحد عالمی طاقت کی کرسیء صدارت سنبھالنے کو تیار بیٹھا ہے۔ 1946میں پیدا ہونے والے ڈونلڈجان ٹرمپ نے نہ صرف پوری دنیا کو حیران کر دیا بلکہ خود امریکہ کے تمام تجزیاتی پول، نشریاتی ادارے، پری الیکشن سروے منعقد کروانے والے ادارے حیران بیٹھے ہیں۔ ایک بات تو صاف ہوئی کہ اگر عوام ساتھ دیں تو ہر طرح کے اندازے خش و خاشاک کی طرح بہہ جاتے ہیں جیسے اندازہ لگانے والوں کے اندازے بہہ گئے۔

اپنی دانست میں پوری دنیا ہیلری کی جیت کی نہ صرف امید لگائے بیٹھی تھی۔ بلکہ شاید کسی حد تک اپنی پالیسی بھی ہیلری کلنٹن کی پالیسیوں سے مطابق کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو گئی تھی۔ لیکن ٹرمپ نے تمام امیدوں کا خون کر دیا ۔

(جاری ہے)


چار پوائنٹس کی برتری امریکی انتخابات کے حوالے سے فتح کی ابتدائی نوید شمار کی جا رہی تھی۔ مگر تمام جائزے الٹ ہو گئے۔

اور ڈونلڈ ٹرمپ نے جو کہا کہ ڈیموکریٹک ریاستوں کو نشانہ بنائیں گے سچ ہو گیا۔ محترم ایاز امیر صاحب اس وقت میرے سامنے ہوتے تو اُن کی پیشانی کا بالکل ویسے بوسہ لے لیتا جیسے ڈونلڈ ٹرمپ کی پوری انتخابی مہم کے دوران پپیاں مشہور ہو چکی ہیں۔ وہ واحد لکھاری اس بھیڑ چال میں نظر آئے جنہوں نے لکھا تھا کہ ٹرمپ حیران کن نتائج دینے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔

اور اُن کا کالم "بھونچال آنے کو ہے" سیاست کے نصاب میں شامل کیے جانے کے قابل ہے۔ ڈونلڈ جے ٹرمپ ابتدائی نامزدگی کے مرحلے میں تیسرے سے چوتھے نمبر پر تھے۔ لیکن وہ جس تیزی سے اوپر ابھرے یہ یقینا نہ صرف عالمی راہنماؤں بلکہ پوری دنیا کے میڈیا کے لیے بھی حیران کن تھا۔ اور جس دن وہ ریپبلیکن پارٹی کے امیدوار نامزد ہوئے اس دن سے ہی پوری دنیا کا میڈیا نہ صرف ان کا مخالف ہو گیا بلکہ ان کی حرکات و سکنات کے کلپس بنا بنا کر چلانے لگا تا کہ کسی طرح بھی یہ ثابت کیا جا سکے کہ یہ شخص امریکہ جیسی سپر پاور کی صدارت کے قابل نہیں ہے۔

لیکن حیران کن طور پر ان کا پاگل پن ہی ان کی کامیابی کی ضمانت بن گیا۔ میکسیکو کے بارڈر پر دیوار کی تعمیرہو، تارکین وطن کا بحران ہو، معاشی صورت حال ہو، یا پھر دہشت گردی کا عفریت ، ہر موضوع پر انہوں نے بے لاگ رائے کی جس کی وجہ سے لوگ ان کے دیوانے ہوتے چلے گئے۔ انہوں نے امریکی قوم کے دلوں میں موجود ایسے دو خوف خوب کیش کیے جو ان کی کامیابی کی ضمانت بن گئے۔

2001 کی دہشت گردی، اور 2008 کا معاشی بحران، وہ اپنے ووٹرز کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو گئے کہ 2001جیسی کاروائی سے بچنے کے لیے ہمیں دہشت گردوں سے کسی قسم کی روایت کیے بناء سخت سے سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔ اور 2008 جیسے معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے ہمیں نہ صرف تارکین وطن کے بحران پہ قابو پانا ہو گا جو امریکہ میں ملازمت کے مواقع کم کر رہے ہیں بلکہ ہمیں اپنے بارڈر کو محفوظ بنانا ہو گا تا کہ تارکین کی آمد کا راستہ روکا جا سکے۔

یہ دو پیغامات ایسے تھے جنہوں نے ٹرمپ کو امریکیوں کا ہیرو بنا دیا، اور ہیرو بھی ایسا جو کسی بھی ہالی ووڈ فلم کے ہیرو سے کم نہیں، ماتھے پہ بال ڈالے کبھی مائیک پہ غصہ نکالتے ہوئے، کبھی ہیلری کو آڑئے ہاتھوں لیتے ہوئے۔ یہ شاید پہلا موقع تھا کہ صدارتی امیدوار میڈیا کا چہیتا نہ ہو کر بھی مقبولیت کی بلندیوں پہ پہنچ گیا۔ امریکہ سے باہر کی گئی کاروائیوں پہ جیتنے کے بجائے ٹرمپ نے اندرونی طور پر امریکہ کو مضبوط کرنے کے نقظے پہ صدارت کا مرحلہ طے کیا ہے۔


ہیلری نے نہایت شاطرانہ انداز سے ٹرمپ کے مسلمان مخالف بیانات کو ان کے خلاف استعمال کرتے ہوئے خضر خان کو استعمال کیا۔ لیکن خضر خان کا استعمال کرنا ہی شاید ان کے جوڑوں میں بیٹھ گیا۔ اور خضر خان اور ان کی بیگم کے ڈیموکریٹس کی مہم کا حصہ بننے کی وجہ سے ہی آج امریکہ میں مسلمان کمیونٹی اپنے آپ کو سب سے زیادہ غیر محفوظ تصور کر رہی ہے۔

ایسا کہنا ہرگز بے جا نہیں ہو گا کہ مسلمان ڈیموکریٹس کے ہاتھوں استعمال ہو گئے۔ مسلمان اس لیے بھی خود کو غیر محفوظ تصور کر رہے ہیں کہ انہوں نے کھل کر ٹرمپ کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ اپنی تمام توانائیاں بھی ہیلری کے حق میں استعمال کیں۔ کیوں کہ نہ صرف انہیں بلکہ تمام عالمی میڈیا و جائزوں کو بھی یقین تھا کہ ہیلری کے لیے وائٹ ہاؤس تک کا سفر بہت آسان رہے گا۔

لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کا پاگل پن ہی تمام اندازے بہا کر لے گیا۔ انہوں نے ترپ کا خصوصی پتا امریکہ سے باہر لڑائی کے بجائے اندرونی طور پر امریکہ کو مضبوط کرنے کا کھیلا۔ جو کامیاب رہا۔
جس طرح امریکہ کے اندر مسلمان اور دوسری اقلیتیں پریشان ہیں، جس طرح پوری دنیا میں خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں وہ ایک حد تک درست بھی ہیں۔ لیکن ٹرمپ جیسے شخص کا سپر پاور کے اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچ جانا حقیقی جمہوریت کی نشانی بھی ہے۔

جس طرح ہیلری نے ان کو مبارکباد دی، اوباما نے سراہا، وہ جمہوری معاشروں کا ہی خاصہ ہے۔ اور یہ بھی یقین رکھنا ہو گا کہ ٹرمپ کی جن بے سروپا باتوں کا حوالہ دیا جارہا ہے وہ اس وقت کی ہیں جب وہ صدارتی امیدوار تھے، اور انتخابی مہم میں بہت کچھ کہا جاتا ہے۔ اور اب وہ صدر ہیں اور پہلا بیان ہی ان کا یہ آیا کہ ہم بلا تفریق مذہب، رنگ و نسل امریکیوں کی خدمت کریں گے ، ظاہر کرتا ہے کہ وہ اب ایک عالمی طاقت کے صدر ہیں۔ اور ان کے فیصلے پوری دنیا کی معیشت اور امن پہ اثر انداز ہوں گے۔ اور نہ جانے دل کی بے کلی میں ایک روشنی سے ابھرتی نظر آتی ہے کہ جتنے خدشات ہیں ان کے برعکس ٹرمپ ایک کامیاب صدر ہوں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :