ایک اورشکست

جمعہ 25 مارچ 2016

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

میچ ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔۔چاریا پانچ گیندیں باقی تھیں۔۔ اس نے ٹی وی بند کرتے ہوئے کہا کسی ایک میچ میں شکست یاایک دو شکستوں کا دکھ۔۔درد۔۔ اور غم کا بوجھ ہوتا تو دل پر پتھر رکھ کر کسی نہ کسی طرح برداشت کر لیتے لیکن یہ تو روز روز کی شکست اور ہر نئے دن کا تازہ غم، دکھ۔۔ درد اور تکلیف کا ختم نہ ہونے والا ایک سلسلہ ہے جسے پاکستان جیسی باغیرت اور باضمیر قوم کیلئے برداشت کرنا ممکن ہی نہیں۔

مانا کہ حکمرانوں۔۔سیاستدانوں اور احمد شہزاد، شعیب ملک اور عمر اکمل جیسے بے ضمیر، بے حس اور مفاد پرست لوگوں کی آج اس بدقسمت مٹی پر کوئی کمی نہیں لیکن یہ مٹی تو وہ تاریخی اور بے مثال مٹی ہے جس کی کوکھ سے ہمیشہ غیرت مندوں نے جنم لیا۔ بے غیرتی کا تو ایک ذرہ بھی اس مٹی کی خمیر میں شامل نہیں کیونکہ یہ وہ عظیم مٹی ہے جس کو ہزاروں نہیں لاکھوں غیرت مندوں نے اپنے خون سے سیراب کیا۔

(جاری ہے)

کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والے اس ملک کی عمارت ہی تو غیرت و حمیت کی پختہ اینٹوں پر تعمیر ہوئی، غیروں کی غلامی کا طوق گلے سے اتارنے کی غیرت اگر سامنے نہ ہوتی تو کیاقیام پاکستان کی تحریک میں لوگ قربانیوں کی وہ عظیم تاریخ رقم کرتے۔۔ غیرت کے ذرات تو ویسے بھی ہر انسان کے جسم میں شامل ہوتے ہیں پھر ایک مسلمان کا تو پورا وجود ہی سر سے پاؤں تک سراپا غیرت ہوتا ہے۔

غیرت ہی تو سب کچھ ہے۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ غیرت کا ایک لمحہ بے غیرتی کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے دل کی مزید بڑاس نکالتے اور اپنی تقریر کا دھوم ٹو شروع کرتے میرے قریب بیٹھے ہوئے شخص نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا جناب حوصلہ رکھیں۔۔اس طرح کی چھوٹی موٹی شکستوں کو دل پر نہ لیں۔۔ آپ کو نہیں پتہ کرکٹ بائی چانس ہے۔۔ جو اچھا کھیلے وہی جیتتے ہیں۔

۔ لوگ جس طرح کرکٹ، فٹبال، ہاکی، کبڈی، باسکٹ بال اور دیگر کھیل دل بہلانے کیلئے کھیلتے ہیں اسی طرح یہ کھیل دل بہلانے کیلئے دیکھ بھی جاتے ہیں۔۔ کھیل کا غیرت و حمیت کے ساتھ کیا تعلق۔۔؟ قومی ٹیم کی بھارت کے بعد نیوزی لینڈ سے شکست پر غصے سے لال پیلے تو وہ پہلے ہی تھے ان باتوں سے وہ پیسی ہوئی سرخ مرچوں کی طرح غصے سے سرخ بھی ہوئے اور کہنے لگے۔

غیروں سے پیٹتے ہوئے اگر تمہیں قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کی طرح اتنا سکون ملتا ہے تو پھر اسی طرح روز روز پیٹتے رہو۔ ورلڈ کپ اور ایشیا کپ میں شکست اگر آپ کو چھوٹی موٹی شکست نظر آرہی ہے تو مطلب ہے آپ کے ہاں بے شرمی کی کوئی انتہا نہیں۔ اور جن لوگوں کے ہاں شرم و حیا کی کوئی قید نہ ہو واقعی ان کو پوری دنیا بھی شکست دے دے ان کیلئے وہ بھی کوئی بڑی نہیں چھوٹی سی شکست ہوگی۔

۔میں نے کہا نوجوان تم ٹھیک کہتے ہو۔ ازلی دشمن بھارت سے مار کھانے کے بعد نیوزی لینڈ اور بنگلہ دیش جیسی ٹیموں سے شکست کی اب ہمارے ہاں کیا اہمیت ۔۔ ویسے بھی شکست پر شکست کھا کر ہم پٹائی کے اس طرح عادی ہو چکے ہیں کہ اب ہم مخالفین سے اپنی مالش کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ تو پکڑتا ہی ہے۔ آج اس ملک میں بھی بے حس و بے غیرت حکمرانوں ۔

۔قومی کرکٹ ٹیم کے بے ضمیر اور بے شرم کھلاڑیوں کی طرح کچھ لوگ ان کے رنگ میں رنگ گئے ہیں جن کو قومی ٹیم کی شکست سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی وجہ سے وہ قومی ٹیم کی ہر شکست کے بعد یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ کھیل کو جنگ نہ بنائیں بلکہ اس کو کھیل تک ہی محدود رکھیں۔ ہم نے نہ اس سے پہلے کبھی کھیل کو جنگ بنایا نہ اب کھیل کو جنگ بنانے کے موڈ میں ہیں۔

ہم تو جنگ کو بھی کھیل بنانے کے خواہاں اورآرزومندرہتے ہیں تاکہ لوگوں کو تفریح کے زیادہ سے زیادہ مواقعے تو میسر آسکیں لیکن آخر غیرت بھی کوئی چیزتو ہوتی ہے۔ پھر جن سے مقابلہ ہوتا ہے ان کی حیثیت دشمن جیسی ہوتی ہے کیونکہ اپنوں اور دوستوں سے تو کوئی مقابلہ نہ ہوتاہے اورنہ ہی کوئی کرتاہے ۔ آپ خود سوچیں جب کسی کھیل میں پاکستان کی فتح ہوتی ہے تو فتح حاصل کرنے والے قومی پرچم بلند کرکے خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔

دنیا کہتی ہے کہ انہوں نے پاکستان کا پرچم بلند کرکے پاکستانی قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ اسی طرح جب کسی کھیل میں پاکستان کی شکست ہوتی ہے تواس سے پھر پوری قوم کا سر شرم سے جھکتاہے اوردنیابھرمیں ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔ ایسے میں جو لوگ شکست پر شکست کھانے کو اپنی عادت بنا لیں اس پر چیختے، چلانے اور رونے کے سوا کیا کیا جائے ۔۔؟ بے ضمیر، بے حس اور بے غیرت لوگ تو اس طرح کی شکستوں پر آنکھیں بند کر لیتے ہیں لیکن باغیرت لوگ یہ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہوتے، بھارت کے ہاتھوں پاکستانی ٹیم کی شکست پر اسی وجہ سے بالاکوٹ کا نوجوان جان سے ہاتھ دھو بیٹھا کہ وہ قومی کرکٹ ٹیم کے بے ضمیر کھلاڑیوں کی بے غیرتی کو برداشت نہیں کر سکا۔

ورلڈ کپ کے اہم میچ میں نیوزی لینڈ کے خلاف فیصلہ کن موڑ پر عمر اکمل، احمد شہزاد اور شعیب ملک نے جس بے غیرتی کا مظاہرہ کیا اس پر آج بھی ہر دل اداس، ہر آنکھ اشکبار ہے، ٹی ٹوئنٹی میچ میں ایک ایسے موقع پر جب ایک ایک گیند اہم ہو 30 گیندوں پر 28 اور 20 گیندوں پر 16 رنز بنانا کہاں کا انصاف۔۔۔۔؟ اور کہاں کی غیرت ہے ۔۔۔۔ ؟ احمد شہزاد، عمر اکمل اور شعیب ملک کو اگر ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا پتہ نہیں تو پھر ان کو ٹیم میں شامل کیوں کیا گیا ۔

۔؟ 30 گیندوں پر 25 اور 20 رنز ون ڈے اور ٹیسٹ میچ میں بنائے جاتے ہیں ٹی ٹوئنٹی میں نہیں۔ ان تینوں کھلاڑیوں نے جان بوجھ کر میچ ہارا ۔ان کی اس حرکت سے قومی ٹیم میں گروپ بندی کی افواہیں سچ ثابت ہوچکی ہیں ۔ملک کوایسے مفادپرست کھلاڑیوں کی کوئی ضرورت نہیں ۔جان بوجھ کرعوام کے ارمان آنسوؤں میں بہانے والے پاکستان کے شاہین نہیں ہوسکتے ۔قومی کرکٹ ٹیم کوایسے بے ضمیروں سے پاک کرناوقت کی ضرورت ہے ۔حکومت قومی ٹیم کی نیوزی لینڈسے شکست کی فوری تحقیقات کرکے لاکھوں اورکروڑوں دل دکھانے والوں کونشان عبرت بنائیں تاکہ کل کوکوئی اوریساسوچ بھی نہ سکے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :